"RBC" (space) message & send to 7575

گھر کب آؤ گے؟

یہ پرانے زمانے کی باتیں نہیں، اب بھی ایسا ہی ہے۔ بیٹے دور دراز کے علاقوں میں روزگار کی تلاش میں نکلتے، اور پھر اپنے گائوں، قصبوں اور شہروں میں لوٹ آتے۔ ماں باپ کی خدمت میں حاضری دیتے، دوستوں اور رشتے داروں سے ملاقاتیں کرتے، آبائی علاقوں میں کچھ دن قیام کرکے نوکری، کاروبار یا مزدوری کی غرض سے دوبارہ رخصت ہو جاتے۔ ترقی پذیر معاشروں میں اب بھی یہی رواج ہے۔ سماجی رشتوں کی زنجیریں مضبوط ہوتی ہیں۔ چین ہو یا عرب ممالک، پاکستان ہو یا ہندوستان، قومی اور مذہبی تہواروں کی تعطیلات پر بڑے شہر خالی ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں عیدین کے موقع پر بس مالکان کی چاندی ہو جاتی ہے۔ عید کیلئے گھر لوٹنے والوں کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے۔ کئی دہائیوں سے مزدور پیشہ طبقے کا یہ استحصال جاری ہے، مگر شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے ذمہ دار ریاستی ادارے چشم پوشی کرتے ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ والدین جن کے بچے تمام تر مالی مشکلات کے باوجود بڑھاپے میں اُن کا سہارا بنتے ہیں۔ وہ بیٹے زیادہ خوش نصیب ہیں‘ جنہیں والدین کی خدمت کا موقع ملتا ہے۔ وہ بوڑھے ماں باپ کا ہاتھ تھامتے ہیں، اور اُن کے لیے وقت اور وسائل خرچ کرنا اعزاز سمجھتے ہیں۔ جہاں کہیں خاندانی اور سماجی روایات کا وجود باقی ہے، اولاد ہر ممکن طریقے سے والدین کی خدمت کرتی ہے۔اس سب کے باوجود گزشتہ چند دہائیوں میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ اب شادی ہوتے ہی نوجوان علیحدہ گھر آباد کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جیسے ہی وہ والدین بنتے ہیں، اُن کی توجہ، شفقت اور قربانی کا محور بھی تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ مغرب ہو یا مشرق، ترقی اور جدیدیت ناصرف پرانی روایات کو زنگ آلود کرتی ہے بلکہ سماجی رشتوں کی پرانی ترتیب پر بھی ضرب لگاتی ہے۔ خاندان، ذات اور برادری کے حلقے کمزور ہو کر بکھر جاتے ہیں۔ 
صنعتی معاشرے تو مکمل طور پر انفرادیت کا عملی نمونہ ہیں۔ ہمارے ترقی پذیر، مگر تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے سماج میں انفرادیت رنگدار دھبوں کی صورت پھیلتی جارہی ہے، مگر روایات کا اصلی رنگ ابھی تک غالب ہے۔ بیٹے اور بیٹیاں لوٹ کر آتے ہیں۔ ضرورت کے لمحوں، غم اور شادی کے دنوں، اور تقریبات کے مواقع پر خاندان کی زندگی میں خوشیوں کے رنگ آج بھی بکھر جاتے ہیں۔
کچھ علمی کھوج کی خاطر اور کچھ دن جدید ولایت کے ایک پرانے گائوں میں بسر کرنے کی غرض سے برطانیہ میں ہوں۔ اس گائوں کے بارے میں کچھ مشاہدات پچھلے کالم میں آپ کی نذر کئے۔ یہ سطور اُن بیٹوں اور بیٹیوں کے بارے میں ہیں‘ جو معلوم نہیں کبھی گھر لوٹیں گے یا دیارِغیر کو اپنا وطن بنائیں گے۔ لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی امریکہ اور یورپی ممالک میں آباد ہیں۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں اچھے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے نوجوان اس طرف آرہے ہیں۔ نہ صرف پاکستان، بلکہ ہر اُس ملک سے جہاں وہ زندگی، قومی سیاست اور اقتصادی حالات سے ناخوش ہیں۔ ہر سال سینکڑوںکی تعداد میں افراد انسانی سمگلروں یا دیگر جرائم پیشہ افراد کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ وہ ان سے بھاری رقم لے کر صحرائوں اور ویرانوں میں بے یارومددگار چھوڑ کر فرار ہو جاتے ہیں۔ کتنے ہی افراد معاشی خوشحالی کے خواب لیے سمندروں میں ڈوب گئے۔ ہزاروں کی تعداد میں آسٹریلیا، امریکہ اور یورپی ممالک کے کیمپوں میں قید ہیں۔ 
مغربی زندگی کے خواب تک رسائی کا سفر کبھی آسان نہ تھا۔ جنگِ عظیم دوئم کے بعد کارخانوں میں مزدوروں کی مانگ بڑھی۔ بندرگاہوں، کھیتوں اور تعمیرات کے شعبوں کے لیے محنتی نوجوان درکار تھے۔ اُس دور میں نوآبادیاتی ممالک سے لاکھوں کی تعداد میں نوجوانوں نے مغرب کا ر خ کیا۔ اُن نوجوانوں نے مغرب کا صنعتی پہیہ چلانے میں کلیدی کردار ادا کیا؛تاہم ایسے معاشرے‘ جہاں رنگ و نسل کے تعصبات شدید ہوں، میں تارکینِ وطن کو شاید خوشحالی تو نصیب ہوئی ہو، مگر سماجی برابری ابھی تک ایک خواب ہے۔ شخصی آزادی، قانونی تحفظ اور حقِ رائے دہی سب کو ملے، مگر نسل پرستی ایک حقیقت کے طور پر موجود رہی۔ مسلمانوں سے متعلق شکوک و شبہات کوئی افسانوی باتیں نہیں۔ ردِ عمل کے طور پر تارکینِ وطن نے بھی قومی اور نسلی شناخت کا وجود مذہبی اداروں کے حوالے سے قائم رکھا۔ قومی اور مذہی رنگوں کی بہار مغربی تصور سے ہم آہنگ ہے۔ تقریباً چار دہائیوں سے زیادہ تر متوسط طبقات مغرب اور امریکہ میں آباد ہو رہے ہیں۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک میں ملا جلا رجحان ہے، مگر واضح اکثریت محنت کش طبقے کی ہے۔ 
پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جو افرادی قوت کی برآمدگی پر واضح پالیسی رکھتے ہیں۔ یہ پالیسی نہ صرف بیروزگاری کا دبائو کم کرتی ہے، بلکہ زرِمبادلہ کے حصول کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔ تارکینِ وطن جو رقم اپنے خاندانوں کی کفالت یا مختلف قسم کی سرمایہ کاری کے لیے بھیجتے ہیں، وہ اشیا کی برآمد سے حاصل ہونے والی رقوم سے زیادہ ہے۔ موجودہ حکومت جن مالی مشکلات میں پھنسی ہوئی ہے، ان سے نجات کیلئے ضروری ہے کہ تارکین وطن کو ملک میں قانونی طریقے سے ترسیل زر کی ترغیب دی جائے۔کئی عشروں سے تارکینِ وطن اپنی ریاست کا مالی سہارا بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سے خوشحال افراد ملک میں صنعتیں لگائیں تو یہاں صنعتی انقلاب کی راہیں ہموار ہوجائیں گی۔
سرمایہ اور تارکینِ وطن کی پہلی دو نسلیں تو پاکستان آتی رہیں گی کہ اپنے قصبوں، دیہات اور آبائی علاقوں کی یاد دل سے کبھی محو نہیں ہوتی۔ گزشتہ چالیس سالوں سے دنیا کے مختلف حصوں خصوصاً امریکہ میں بسنے والے پاکستانیوں سے ملاقاتیں رہی ہیں۔ بار بار اُنہیں وطن اور آبائی علاقوں کی یادوں میں کھوئے پایا۔ ایک بات تواتر سے سنی: ایک دن ہم واپس پاکستان جائیں گے اور وہیں آباد ہوں گے۔ سماجی علوم کے ماہرین کا تجزیہ ہے کہ واپس لوٹنے کا خواب خواب ہی رہ جاتا ہے۔ بہت کم واپس پلٹتے ہیں کہ وہ کس کے پاس واپس جائیں۔ والدین تو خالقِ حقیقی کے پاس جا چکے ہوتے ہیں۔ بچوں اور پوتے، پوتیوں نے نئے ملک میں آنکھ کھولی ہوتی ہے۔ وہ خود کو اس ملک کی زندگی کے ساتھ ہم آہنگ کرچکے ہوتے ہیں۔ اُن کا آبائی ملک میں نہ کوئی دوست ہوتا ہے‘ نہ قریبی رشتے دار۔ قربتیں صرف والدین کے ساتھ ہوتی ہیں؛ چنانچہ وہ تو واپسی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اب اُن کا دیس مغرب، یورپ اور امریکہ ہے۔ یورپ اور امریکہ کی طرف نقل مکانی کرنے والوں کے پاس اپنے آبائی وطن کا موہوم سا تصور موجود ہے۔ کچھ معمر افراد تو ایسے ہیں کہ ساری زندگی مغرب کے کارخانوں میں گزار دی، مگر اب اپنے گائوں، زمینوں اور موسموں کی یاد ستاتی ہے۔ حالیہ دنوں بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم کھاریاں سے ناروے میں بسنے والوں کے بارے میں تھی۔ تین خاندانوں کی منفرد کہانیاں، مگر موضوع ایک۔ اب وہ افراد عمر کی ستر یا اس سے زائد بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ جو سرمایہ یہاں محنت مزدوری سے کمایا، اُس سے اپنے علاقوں میں بہترین مکانات تعمیر کرائے۔ کئی سالوں کے بعد وہ اپنے دیس جا کر ان گھروں میں قیام کرتے ہیں‘ لیکن اُنھوں نے اتنے عالیشان مکانات تعمیرکیوں کرائے؟ شاید ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی۔ ایک سوال کہ اتنے بڑے گھر کی کیا ضرورت تھی، کے جواب میں اُسی فطری خواہش کا اظہار کیا گیا کہ وہ چاہتا ہے‘ اُس کا خاندان ناروے سے واپس آ کر اپنے وطن میں آباد ہو۔ خیر یہ ایک خواب، اور غیرحقیقی توقع ہے۔ جدید ممالک میں آسودہ نسل اب ایسے ملک میں کیوں رہنا چاہے گی جہاں ملازمتوں کے مواقع نہیں، جہاں لوگ مایوسی کا شکار ہیں اور کرپٹ سرکاری اہل کاروں اور سیاست دانوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ وہ وطن کے حالات سے باخبر رہتے ہیں۔ اُن کا دل کڑھتا ہے، اور وہ ہمیشہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اُن کا وطن امریکہ یا یورپ کی جدید ریاستوں جیسا کیوں نہیں بن پایا؟ ہمارے ہاں کس صلاحیت یا قدرتی وسائل کی کمی تھی؟ زمین، موسم، پہاڑ، دریا، سب کچھ تو ہے۔ 
کامیاب معاشرے قانون اور آئینی اخلاقیات پر تعمیر ہوتے ہیں۔ عوام اور قانون حکمرانوں کو جوابدہ بناتے ہیں۔ حکمرانوں کا تعلق عوام سے ہوتا ہے، اور وہ عوام کی خواہش کے سامنے سرنگوں ہوتے ہیں۔ جب تک ایسی ریاست اور معاشرہ تعمیر نہیں ہوتے، باصلاحیت نوجوان ملک چھوڑتے رہیں گے۔ وہ جو جا چکے، وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ اُنھوں نے اپنی آسودہ دنیا آباد کر لی ہے، کہیں اور۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں