"RBC" (space) message & send to 7575

سیاسی آمریت: آزادی یا انحراف؟

حزبِ اختلاف کے کچھ اراکینِ سینیٹ نے چیئرمین کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کے دوران اپنے ضمیر کی آواز کیا سنی، ایک سیاسی طوفان سا کھڑا ہو گیا۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں میں تو صفِ ماتم بچھ گئی۔ غصہ، نفرت آمیز زبان، دھمکیاں، الزامات کی بوچھاڑ۔ دونوں بڑے سیاسی خاندان پارلیمان کے دونوں ایوانوں کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔ سرتابی کی جرأت کیونکر ہوئی؟
پارٹی ٹکٹ کی اہمیت اپنی جگہ پر، لیکن کسی بھی سیاسی جماعت کے امیدوار کو کامیابی کے لیے سماجی اساس، حلقے میں اچھی شہرت اور ذات برادری کی حمایت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی وڈیرے نامزدگی کے لیے مضبوط امیدوار کا انتخاب کرتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد وہ چاہتے ہیں کہ وہ اُن کی پارٹی لائن کے اندر سمٹ جائے۔ قوانین میں ترامیم، نئی قانون سازی، سیاسی مسائل اور خصوصاً سپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ کے چنائو اور عدم اعتماد کی تحریک میں پارٹی لائن کو ہی حرفِ آخر سمجھے۔ اس سے گریز سیاسی غداری کے مترادف ہوگا۔ 
دنیا جمہوری اصولوں اور وفاداری میں البتہ تمیز کرتی ہے۔ نظام پارلیمانی ہو یا صدارتی، اصول تبدیل نہیں ہوتے۔ امریکہ کا صدارتی نظام منفرد ہے۔ ہر ادارے کے انتخاب کا حلقہ مختلف ہے، اور طریقِ کار بھی۔ اداروں کے درمیان آئینی توازن اور فعالیت کے اصول طے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ دو سیاسی جماعتیں، ریپبلکن اور ڈیموکریٹک غالب ہیں۔ ہمارے نظام کے برعکس مقننہ کے دونوں ایوانوں کی بطور امیدوار نامزدگی کا عمل جمہوری ہے۔ خیر اس بابت مزید تفصیل کی ضرورت نہیں۔ مگر بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں نامزدگی کا اختیار صرف سیاسی خاندانوں کے اکابرین کے پاس ہے۔ 
ہماری سیاسی ثقافت میں دیانت داری، امانت، تعلیم، تجربہ، ذہانت جیسی خصوصیات غیر ضروری تصور ہوتی ہیں۔ امریکہ، برطانیہ یا دیگر جمہوری ممالک میں صلاحیتوں کی پرکھ ہوتی ہے، ہمارے ہاں وفاداری کی۔ سڑکوں پر، گلیوں میں، جلسوں میں اور اگر موقع ملے تو میڈیا پر، اپنے سیاسی رہنمائوں کے تقدس کا اس طرح دفاع کرنا ہے جیسے وہ کوئی مذہبی شخصیات ہوں۔ عام سیاسی اصطلاح میں ان تمام معزز اراکین کو جو ہمارے دونوں ایوانوں میں منتخب ہو کر آتے ہیں ''ہمارے آدمی‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے‘ ''دیکھو کہیں ہمارے آدمی ادھر ادھر نہ ہو جائیں۔ پارٹی کی لائن کہیں پٹ نہ جائے‘‘۔ یہ دلچسپ سوال ہے کہ کیا پارلیمانی اراکین جماعتی لائن کے پابند ہیں یا اپنے ضمیر کے مطابق اپنی رائے کا اظہار زبانی یا ووٹ کے ذریعے کر سکتے ہیں؟ پارلیمانی نظام میں پارٹی نظم و ضبط کی ضرورت ہے۔ اس کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں۔ مگر ہم نے یہ دیکھا ہے کہ سیاسی گھوڑوں کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے کھلم کھلا منڈیاں لگائیں۔ ان کا مقصد ایک دوسرے کی حکومت کو گرانا مقصود تھا۔یہ صرف اسی صورت میں ممکن تھا کہ اراکینِ اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کروائی جائیں۔پاکستان کے پہلے عشرے میں اس روایت کی وجہ سے سیاست اور ادارے عدم استحکام کا شکار رہے اور آئے روز حکومت کی تبدیلی کے انوکھے طریقوں نے جمہوریت کا جنازہ نکال دیا۔ تیسرے مارشل لا سے وجود میں آنے والی حکومت کے خاتمے اور دوسری جمہوری تبدیلی کے عمل کے ساتھ پہلے عشرے والا دور پوری طاقت کے ساتھ واپس آیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ دونوں کی باہمی لڑائی چالیس سالوں پر محیط ہے۔ ''مذاقِ جمہوریت‘‘ میں طے پایا تھا کہ آئین میں تبدیلی لا کر منتخب اراکین کو پابند کیا جائے گا۔ گویا جنگ کو ''فکس‘‘ کرلیا گیا۔ اگر وہ اپنی سیاسی جماعت کی ہدایت کے خلاف رائے زنی یا کسی معاملے پر ووٹ کا استعمال کریں تواُن کے خلاف اسمبلی کی رکنیت ختم کرانے کے لیے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ آمریت، سیاست اورسیاسی خاندانوں کا دفاع جمہوری طریقے سے نہیں، جماعتی نظم و ضبط کے آہنی حصار سے کیا جاتا ہے۔
نظم و ضبط جمہوری عمل سے پیدا ہوتا تھا۔ مغرب اور جمہوری معاشرے میں ہر معاملے پرجماعتوں کے اندر اور باہر مکالمہ ہوتا ہے۔ فیصلے اوپر سے سیاسی وڈیرے صادر نہیں کرتے۔ کھلی بحث، تنقید اور اختلافِ رائے کا برملا اظہار ہوتا ہے۔ کوئی بھی رکن ذاتی نامزدگی کے بوجھ تلے دبانہیں ہوتا۔ وہ اپنے حلقے کی حمایت کے اثر سے پارلیمان کے ایوان میں پہنچتا ہے۔ بریگزٹ کی مثال میں کئی مرتبہ دہرا چکا ہوں۔ ہر دوسیاسی جماعتوں میں تقسیم پائی جاتی ہے۔ ہر جماعت کی سیاسی قیادت نے ہر رکن کے خلاف اختلاف کے جمہوری حق کو تسلیم کیا ہے۔ ظلم کی بات یہ ہے کہ نام نہاد جمہوریت پسند دانشور اور مورثی سیاسی قائدین اراکین اسمبلی اور سینیٹ کے اختلاف کرنے کو ضمیر فروشی اور غداری سے تعبیر کرتے ہیں۔
دنیا کی جمہوری تاریخ میں یہ انوکھا طریقہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت کو ایک گروہ کی صورت کسی بھی ایوان میں رائے دہی کا حق استعمال کرنے، اپنی مرضی سے تقریر کرنے، بیان دینے اور بحث مباحثہ میں حصہ لینے کی اجازت نہیں۔ ایوان میں اراکین صرف تالیاں بجائیں، بوقت ضرورت ، اور حسبِ خواہش ہنگامہ بپا کریں، جب حکم ملے تو ایوان سے باہر تشریف لے آئیں۔ تاحکمِ ثانی دم سادھے موجود رہیں۔ جمہوری طور پر معاشرے میںبھی اور ایوانوں میں بھی ہر فرد کو اپنی رائے کے اظہار اور ووٹ دینے کی آزادی ہے۔اور کاش پاکستان میں بھی ارکانِ اسمبلی کو یہ آزادی نصیب ہو۔کئی معاملات ایسے ہوتے ہیں جہاں پارٹی کا ساتھ دیناضروری اور پارلیمانی جمہوریت کا تقاضا ہوتا ہے۔قائدِایوان یعنی وزیرِاعظم اور وزیرِاعلیٰ کے علاوہ سپیکر اور چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لئے جمہوری روایت یہی ہے کہ سب کو اکٹھا ہونا چاہیے۔ لیکن جہاں تک مواخذے کا تعلق ہے تو ہر رکن آزاد ہوتا ہے کہ اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق فیصلہ کرے۔کسی عہدیدار کا مواخذہ سنگین شکایات سامنے آنے، آئینی خلاف ورزی، ذاتی اخلاقی گراوٹ یا بغاوت کی صورت میں ہوتا ہے۔سارا ایوان عدلیہ کی صورت اختیار کرلیتا ہے جہاںمواخذہ کرنے والے دلائل دیتے ہیں،ثبوت پیش کرتے ہیں اور کئی روز بلکہ کئی ہفتے عدالت جمی رہتی ہے۔ اس دوران ساری قوم اور میڈیا کی نظریں ایوان پر مرکوز ہوتی ہیںاور پھر آخر میں رائے شماری ہوتی ہے۔ شاد و ناشاد ہی اراکین سیاسی جماعتوں کے ساتھ صف بند ہو کر رائے کا اظہار کرتے ہیں۔یہ وہ مرحلہ ہے جہاں ہماری جمہوریت کو ''سوچ کو آزاد کرو‘‘ کے نعرے کی ضرورت ہے۔ 
دونوں جماعتوں کے اہم ترین افراد گرفتار ہیں۔ ایک سزا یافتہ بھی۔ لیکن کیا کیجیے، ابھی بھی سورج مشرق سے ہی نکلتا ہے۔ فطرت کا مزاج برہم ہے نہ عوام کا۔ سڑکیں، گلیاں، راستے، تجارت اور سرمایہ کاری اور نجی کام معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔ کوئی احتجاج کے لیے نہیں نکلا۔ کافی عرصہ سے بڑے اور مشترکہ احتجاج اور سڑکوں پر عوام کو لا کر حکومت کو گرانے کی تیاریاں جاری ہیں۔ مولوی صاحب تو آخری الٹی میٹم دے چکے کہ اگست کے آخر تک منتخب حکومت خود کو تحلیل کرکے گھر چلی جائے ورنہ اُن کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔ اس احتجاج کی شروعات بظاہر آسان اور سادہ کامیابی سے ہونی تھی۔ بس قرارداد پیش کریں اور چیئرمین سینیٹ تبدیل۔ بہت سے لوگوں کے ذہن یہ سوال موجود تھا کہ صادق سنجرانی صاحب سے وہ کون ساغیر آئینی اقدام سرزد ہوا ہے یا وہ اپنے حلف سے روگردانی کے مرتکب ہوئے ہیں کہ اُن کا مواخذہ کیا جائے؟ یہی سوال اُن اراکین کے ذہن میں بھی ہو گا جنہوں نے قرارداد کی حمایت نہیں کی۔ نون لیگ کے قائد ایوان تو اس بات پر بھی تیار نہ تھے کہ صادق سنجرانی کے خلاف اگر کوئی الزام ہے تو اس پر بحث کر لی جائے۔
لیکن زورآزمائی کامیاب نہ ہوئی۔ ہزیمت اٹھانا پڑی۔ اصولی طور پر ہر رکن کو اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق ووٹ کا حق ہوتا ہے، لیکن حالیہ زور آزمائی میں لالچ اور دبائوکی کارفرمائی خارج از امکان نہیں۔ حکومت اور اس کے پشت پناہوں کے لیے یہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی۔ ناکامی کی صورت میں حزبِ اختلاف کی احتجاجی سیاست میں تیزی آجاتی۔ لگتا ہے کہ حکومت نے وہی کچھ کیا ہے جو ہم ہر روایتی تصادم میں دیکھتے، اور سنتے آئے ہیں کہ ایسے ہے تو ایسے ہی سہی۔ سیاسی منڈی لگی ہے، جو خسارے میں رہتے ہیں، پریشانی اُن کے لیے فطری ہے۔ تیر کھانے کے بعد کمین گاہ کھنگالنے کی کوشش میں ''اپنے ہی دوستوں سے ملاقات‘‘ کا اندیشہ موجود ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں