ناکامی، مایوسی اور زیاں کا احساس عوام کے دل میں سرایت کرتا رہتا ہے۔ ہر نئے حادثے کے ساتھ درد جاگ اٹھتا ہے۔ ٹھوکریں سوچ کی کھڑکی کھول دیتی ہیں۔ تہترویں یومِ آزادی کی روایتی خوشیاں دکھائی نہیں دیتیں۔ کشمیر کی صورتحال سے ماحول غمزدہ ہے۔ بھارت نے اچانک، کچھ ایسی ضرب لگائی ہے کہ سب ششدر ہیں‘ یہ کیا ہوگیا۔ کشمیر کی مزید تقسیم، محدود خود مختاری کی منسوخی، فوجی چڑھائی، وادی کو ایک بہت بڑے قیدخانے میں تبدیل کردینا۔ یہ کوئی معمولی واقعات نہیں۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی نوید‘ افغانستان کی طویل جنگ کے خاتمے اور وہاں امن کے امکانات کے ساتھ کچھ اندرونی اصلاحات کے عمل نے روشن امکانات کا دروازہ کھولا تھا‘ لیکن کشمیر نے حالات کی سنگینی میں اضافہ کردیا ہے۔ اس تناظر میں بہت سے سوالات گردش کررہے ہیں۔
یہ سوال زیادہ تر پاکستان کی ترقی، سلامتی، امن اور سیاسی استحکام کے حوالے سے ہیں۔ ہر جگہ، ہر سطح اور ہر طبقۂ فکر کے ذہن میں ایک سوال بہت پیچیدہ ہے کہ دنیا ہم سے بہت آگے نکل گئی، ہم پیچھے کیوں رہ گئے ہیں؟ صرف دانشور اور عام آدمی نہیں بلکہ عسکری قیادت اور سیاسی رہنما بھی یہی سوال دہراتے اور اپنی دانست میں اس کا جواب دیتے ہیں۔ سانحۂ مشرقی پاکستان کے نفسیاتی اثرات، اقتدار کی کشمکش، آئینی حکومتوں کا خاتمہ اور منظم بدعنوانی نے اُن عوامل اور ریاستی اداروں کو بے پناہ نقصان پہنچایا جن کی وجہ سے پاکستان امن و استحکام حاصل کرتے ہوئے ترقی کرسکتا تھا۔
ہمارے نصیب کی ترقی اور استحکام کو کسی کی نظر لگ گئی یا پھر کچھ لوگ، جماعتیں اور نظریے تھے جنہوں نے ترقی کے دھارے کو معکوسی سمت میں تبدیل کردیا؟ یہ وہ سوال ہے جس پر ہمارے معاشرے میں آزادسوچ اور غیر جانبداری کے ساتھ اظہارِخیال کرنا محال ہے۔ دانش تابعدار ہے؛ ذہنوں کے دریچے بند، علم و ادراک اور تجربے اور تحقیق کے تازہ جھونکے کا دور دور تک گزر نہیں۔ سب نے علم و دانش کے میدان میں تحقیق کی بجائے تعصب کا محاذ کھول رکھا ہے۔ کاش کسی کا سپاہی بننے کی بجائے لوگ حق و باطل کی ازلی جنگ میں سچائی کا ساتھ دیتے۔ دورِ جدید کی غلامی کے لیے جو آزاد سوچ کوزنجیروں میں جکڑ دیتی ہے، جبر سے کہیں زیادہ لالچ کا جال بچھایا جاتا ہے۔
تنقیدی جائزہ ضروری ہے۔ تنقید کامطلب دشنام طرازی نہیں، بلکہ پرکھ کرنا اور جانچنا ہے۔ آنے والا وقت کٹھن ہے، اس کے لیے راستہ نکالنا ہے۔ ہم بطور قوم ایسا کرسکتے ہیں، مگر بنیادی شرط یہ ہے کہ ملک کو نظریاتی رنگوں اور سیاسی وابستگی کے بوجھ سے ہلکا کردیں۔ جو سوال راقم نے شروع میں اٹھایا ہے، اس کا جواب سب کے پاس ہے۔ مگر سب کے پاس اپنا اپنا جواب ہے۔ قطبی سوچ نے ہمیں محدود کررکھا ہے۔ ہر جواب اپنی خواہش کے تابع ہے۔
کسی سے سیاست یا روزمرہ کے کسی عام معاملے پر گفتگو کرکے دیکھ لیں۔ ہر شخص اپنے تئیں معتبرنقاد، مورخ اور دانشور ہوگا۔ اپنے موقف کے دفاع کیلئے ہزار دلیلیں گھڑے گا۔ اپنی بات سمجھائے گا۔ خود کچھ سمجھنے کیلئے تیار نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سیاست کا غلبہ ہے۔ ہماری سماجی، ادبی اور علمی مجالس اپنی تاریخی روایات کھو چکی ہیں۔ یہ اب سیاسی اکھاڑوں کا منظر پیش کرتی ہیں۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بحرانوں کے دور میں سیاسی گفتگو سے مفر ممکن نہیں۔ بحران زیادہ تر سیاست کے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ لیکن مقصدیت اور معروضیت کی ضرورت ہوگی۔ مقصد یہ نہیں کہ مخاطب کو دلیل اور سوچ کے وزن میں کمزور ثابت کرنا ہے بلکہ سچائی کی تلاش، مسائل کا عملی حل، اور بحرانوں کے ذمہ داروں کا غیر جانبداری سے تعین کرنا۔ لیکن شاید سیاست میں دانش کا تصور ہمارے ہاں اجنبی محسوس ہوتا ہے۔
عبدالخالق سرگانہ صاحب میرے کلاس فیلو‘ پچاس برس سے قریبی دوست اور ایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ ہمسائیگی میں رہتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً ملاقاتوں کے علاوہ عیدین کے مواقع پر ایک دوسرے کے گھر جانا روایت ہے۔ کل آتے ہی دوسوال داغ دیے: ہم نے اپنی فطری استعداد کے مطابق ترقی کیوں نہیں کی؟ اب کشمیر کا کیا بنے گا؟ آج کے پاکستان میں یہی دو سوال ذہن پر حاوی ہیں۔ میں سماجی نشستوں میں سیاست پر گفتگو کرنے سے گریز کرتا ہوں۔ مذہبی معاملات پر بحث بھی تلخی پیدا کرتی ہے۔ دوست احباب سننے سے زیادہ اپنی سناتے ہیں۔ دانش کا تقاضا ہے کہ صرف دوسروںکی بات سنیں، اور سنتے ہی رہیں۔ یہی کچھ کرنے کی کوشش کی، لیکن سرگانہ صاحب کے سوالات آج کل کی عام سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔
''ہم نے ترقی نہیں کی‘‘ کا مفروضہ ایک سیاسی عقیدہ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ اس کے خلاف بات کرنا دیوار سے سرٹکرانے کے مترادف ہے۔ یہی عقیدے ہماری مایوسی کی بنیادہے۔ محسوس ایسا ہی ہوتا ہے کہ ناکامی کے بیانیے کی تشکیل کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں لوگوں کو مایوس کیا، اور رکھا جائے۔ ہم نے ترقی کی ہے، کچھ شعبوں میںاچھی کارکردگی دکھائی ہے، معیشت کی شرح نمو کچھ ادوار میں دیگر کی نسبت بلند رہی ہے۔ وسائل اورترقی کے ثمرات کی منصفانہ تقسیم کے بارے میں ہر جگہ سوالات اٹھتے ہیں۔ صرف پاکستان میں ہی ایسا نہیں۔ یہ درست ہے کہ سماجی ترقی کے میدان میں ہم نہ صرف ہم پلہ ہمسایہ ممالک، بلکہ دیگر ترقی پذیر ممالک سے بھی کہیں پیچھے ہیں۔ آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، اور ہوتا جارہا ہے۔ ایوب خان کے دور میں خاندانی منصوبہ بندی، معاشی منصوبہ بندی، صنعتی ترقی، زراعت میں جدت، تعلیم کے شعبے میں اہداف کا تعین ہوا تھا۔ اُن دس برسوں میں ملک نے خیرہ کن ترقی کی تھی۔ بھارت کی ترقی کی رفتار پاکستان سے کئی درجے کم تھی۔ لیکن پھر کیا ہوا؟ ہم جنگوں میں الجھے، یا الجھائے گئے، بحرانوں کی زد میں آئے، نظریاتی ابہام کا شکار ہوئے۔ ایوب کے دس سالہ دور کی مثال کا مقصد کسی صورت فوجی حکومت کے جواز کی حمایت نہیں۔
وقت کا دھارا اپنا راستہ بناتا ہے، افکار نئے روپ میں ڈھلتے ہیں، نئے عوامل سامنے آنے سے ہم تبدیل ہوجاتے ہیں۔ معاشرہ ہمہ وقت تبدیلیوں کے فطری عمل سے گزرتا رہتا ہے۔ صرف اس کی نوعیت، رفتار اور سمت میں فرق ہوسکتا ہے۔ کئی لحاظ سے تین مرتبہ جمہوریت کا بستر گول کرکے فوجی حکومت قائم کرنا ملک کی سیاسی اساس کو کمزور کرنے کا سبب بنا۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اگر جمہوریت، کمزور ہی سہی، کو اپنے فطری انداز میں چلنے کا موقع دیا جاتا تو بعد میں پیدا ہونے والے بہت سے بحرانوں سے بچا جاسکتا تھا۔ لیکن کیا کریں، مغرب کے ساتھ فوجی اتحاد نے طاقت کا نشہ بڑھا دیا۔ پاکستان کی بنیاد آئینی بندوبست پر تھی۔ اس بنیاد کو بارہا زک پہنچائی گئی۔ پارلیمانی اور جمہوری اداروں کی تشکیل مرحلہ وار مسلسل عمل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس عمل کو بیک جنبشِ قلم ساقط کردیا گیا۔ وجود میں آنے والے نیم پختہ اداروں کو روند ڈالا گیا۔ امریکی دورے پر گئے ہوئے ایک سپہ سالار پر منکشف ہوا کہ پاکستان کے مسائل کا صرف انہی کو ادراک ہے، اور انہی کے پاس ان کا حل ہے۔ یہ تھا اُن کے ایک خفیہ مضمون کا عنوان، جو بعد میں اُن کے ''فوجی انقلاب‘‘ کا جواز بنا۔ مزید تین فوجی حکومتوں کو اسی مبینہ ''ادراک‘‘ نے جواز فراہم کیا۔
جب ریاست پر قبضہ ہوجائے، وسائل پر اختیار اور بے پناہ حکومتی طاقت کسی ایک شخص کے ہاتھ میں آجائے تو رعونت نہ صرف ظلم و استبداد کی طرف مائل ہوتی ہے، بلکہ معاشرے میں اٹھنے والی آوازوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے، اور انہیں ترقی کی راہ میں رکاوٹ جان کر دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ پہلی فوجی آمریت میں مادی ترقی، بیرونی امداد اور سرمائے کے زور پر خصوصی استحکام پیدا کرکے کی گئی، لیکن آوازیں دبانے کا نتیجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور جمہوری اداروں کی تباہی کی صورت نکلا۔ (باقی صفحہ 11 پر)
ایوبی دور ختم ہوا تو آنے والے پچاس سال بھانت بھانت کے تجربات کی نذر ہوگئے۔ کیسے کیسے لوگ کن کن نعروں، حربوںاور خود غرض ٹولوں کی صورت ملک پر قابض ہوکر اسے اپنی جاگیر سمجھ بیٹھے۔ ملک کی نامور مورخ اور محقق، پروفیسر عائشہ جلال اپنی ایک کتاب میں لکھتی ہیں کہ بھارتی جمہوریت میں آمریت، اور پاکستانی آمریت میں جمہوریت کا امتزاج رہتا ہے۔ نیز پاکستان میں جب بھی جمہوریت بحال ہوئی، خاندانی سوداگروں نے منڈی لگالی۔آمریت کا غلبہ رہا۔ جمہوریت کیا رنگ ڈھنگ اختیار کرتی ہے، اس کا تعلق سماجی نظام، دولت کی تقسیم اور حکمران طبقات کی معاشرتی اور فکری اساس سے ہے۔
ملک اور عوام دو حکمران طبقوں کے درمیان آزادی، عزت، غیرت اور کسی حد تک فطری اقدار کھو بیٹھے ہیں۔ فوجی حکمران، اور ان کے سویلین کزن، نیم خواندہ حاشیہ بردار، رسمی سیاسی خاندان، جاگیرداری قبائلی نظام کے سرخیل اور سرمایہ دار جمہوری روپ دھار کر وسائل کی لوٹ مار میں جت گئے۔ عوام جمہوریت کی بحالی پر مطمئن‘ لیکن سب فریب کاری۔
اس وقت آگے بڑھنے کے لیے پیچھے کی طرف دیکھنا ہوگا۔ شاید ہم اپنے دوست اور دشمن کو پہچان پائیں۔ آج قو م کی توجہ بھارت اور کشمیر پر ہے، درست، مگر جب تک ہم اپنے اندر کے دشمنوں کے اصل چہروں کو بے نقاب نہیں کریں گے، عوام ووٹ ڈالتے رہیں گے، لیکن طرزِ حکمرانی تبدیل نہیں ہوگا۔ مایوسی کی سیاہ رات نہیں گزرے گی۔ صبح طلوع بھی ہوئی تو شب گزیدہ ہوگی۔ باہر سے طوفان کا خطرہ ہو تو طوفان سے سر ٹکرانے کی بجائے مکان کی دیواروں کو مضبوط کیا جاتا ہے۔