یہ صرف ایک سیاسی نعرہ نہیں، ایک تاریخی حقیقت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے مخالفین جو بھی کہیں، وہ امر ہو چکے۔ وہ صحافی، دانشور اور ہزاروں کی تعداد میں سیاست دان اور سیاسی خاندان جو اُس پرآشوب زمانے میں جنرل ضیاالحق کے نعرہ باز اور قلم بردار سپاہی بنے تھے، چار دہائیاں گزرنے کے بعد شرمندہ دکھائی دیتے ہیں۔ وقت گزر جاتا ہے، ظالم مٹ جاتے ہیں، لیکن مظلوموں کی یاد اور ان کے دکھ سب میں نہیں تو بھی کچھ دلوں میں ضرور زندہ رہتے ہیں۔ سندھ جائیں‘ عام لوگوں سے ملیں اور بھٹو کے بارے میں بات تو کریں۔ فرصت ہوتو گڑھی خدابخش کا سفر کریں؛ بھٹو کا مزار ایک زیارت گاہ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں سندھ کے مختلف علاقوں کے علاوہ بلوچستان، پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں سے بھی لوگ حاضری دیتے ہیں۔ مجھے بھی وہاں جانے کا شرف حاصل ہے۔ اسے میں اپنے لیے سعادت اور خوش نصیبی سمجھتا ہوں۔ کئی روز سے بھٹو صاحب کا خیال دل میں ہتھوڑے کی طرح ضربیں لگا رہا تھا۔ یہ کیفیت اُس وقت پیدا ہوئی جب ضیاالحق کی برسی کے موقع پر کئی ایک ہم عصر مبصرین کے مضامین نظر سے گزرے۔ مردِ مومن کے لازوال کارناموں، قومی خدمات اور آہنی قوتِ فیصلہ کا ذکر کرتے ہوئے کئی ایک نے بھٹو صاحب کو اپنے روایتی انداز میں لتاڑا۔ اس ضمن میں خاموشی بزدلی اور مصلحت کوشی ہوگی۔ سو چند باتیں، اور چند یادیں آپ کی نذر کہ تاریخ مسخ نہ ہو اور نئی نسل کے لیے ظالم اور مظلوم کی پہچان آسان ہو۔
ویسے تو بھٹو صاحب کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا، لیکن صرف دو مستند کتابیں قابلِ ذکر ہیں۔ ایک پروفیسر سٹینلے والپرٹ اور دوسری انوار حسین سید کی۔ سید صاحب بہت اعلیٰ پائے کے محقق، استاد اور مصنف ہیں۔ اُنھوں نے امریکی جامعات میں زندگی گزاری ہے۔ کئی بار اُن کی بھٹو سے ملاقات ہوئی، اُن کے انٹرویو کیے، پاکستانی تاریخ، ادب اور سیاست پر اُن کی بہت گہری نگاہ ہے۔ وہ بھٹو صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ایک کثیرالجہت انسان تھے۔ یعنی اُن کی شخصیت کے کئی پہلو تھے‘ کمال کی ذہانت، وسیع مطالعہ، عمیق فہم و ادراک اور علم و دانش سے بے پناہ شغف۔ وہ کوئی معمولی تعلیم یافتہ انسان نہیں تھے۔ وہ آکسفورڈ، کیلیفورنیا یونیورسٹی برکلے سے فارغ التحصیل تھے۔ اُس زمانے میں بہت کم سیاسی خاندانوں کے بچے یہ معراج حاصل کرسکتے تھے۔ قانون، سیاسیات اور فلسفے کے علاوہ فنِ تقریر اورعوامی جذبات کو سمجھنے میں اُن کا کوئی ثانی نہ تھا۔ کئی دہائیاں گزر چکیں، سیاست کے میدان میں بھٹوصاحب کے پائے کا کوئی عالم فاضل اور قابل سیاست دان دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہ کہنا بے محل نہ ہوگا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی تعلیم اور تربیت بھی بھٹو صاحب نے اپنے خوابوں کی روشنی میں کی۔ زندگی نے مہلت نہ دی کہ وہ بے نظیرکی مزید رہنمائی کرتے، اور اپنے سیاسی سائے میں اُنہیں پھلتا پھولتا دیکھتے۔ بے نظیر بھی اپنے بہادر باپ کی طرح بہادر نکلیں۔ آمر کو للکارا اور آخرکار وہ بھی شہادت کا درجہ پاگئیں۔
طالب علمی کے زمانے کی بات ہے۔ جب کالج کی زندگی میں ہم دو، بلکہ اس سے کہیں زیادہ گروہوں میں بٹے ہوئے تھے، کچھ وقت میں نے بھٹو مخالف طلبہ تنظیم میں گزارا۔ دیہاتی پسِ منظر، دانشور ی کا شوق، سیاست سے لگائو، اور ملک سے محبت اور اس کیلئے کچھ کرنے کا جذبہ، اور سب سے بڑھ کر اس کے نظریاتی سدھار کا عزم۔ دوست بھی کمال کے تھے۔ مسیح اﷲ جامپوری اور عاشق بزدار، جن سے بحثوں کا میدان رات کو سجتا تھا۔ جامپوری صاحب صحافت سے وابستہ ہیں، اور اسی میں ساری زندگی کھپا دی۔ بزدار صاحب سرائیکی زبان کے مشہور شاعر، ادیب ہیں اور سرائیکی ثقافت کی آبیاری کرتے ہیں۔ میں اُس زمانے میں بی اے کا طالب علم تھا۔ 1970ء کے انتخابات میں ایک سال سے زیادہ عرصہ بھٹو صاحب کی وکالت کی۔ اُن کے انتخابات کیلئے ہم نے والہانہ انداز میں مہم چلائی۔ چند سال بعد ملازمت شروع کی تو عملی سیاست کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔
بھٹو صاحب کا دور بہت قریب سے دیکھا، لیکن اس وقت موضوع بھٹو دور نہیں، اُن کی ذات ہے۔ پروفیسر رفیق افضل بہت بڑے تاریخ دان ہیں، مگر درویش منش مزاج پایا اور خاموشی سے زندگی بسر کی۔ سیاسی تاریخ پر اُن کے حوالے سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بھٹو صاحب کے بارے میں اُن کا خیال ہے کہ وہ بہت مظلوم انسان تھے۔ جب اُن کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تو اُن کی پارٹی کے لوگ غائب ہوگئے۔ جس جرأت و بہادری کی مثال بھٹو خود تھے، اُن کے نام نہاد حامیوں میں اُس کا عشر عشیر بھی دکھائی نہ دیا۔ کچھ بدل گئے، کچھ کھسک گئے، بہت کم تھے جو ثابت قدم رہے۔ آخر میں بھٹو تنہا تھے۔ بیگم نصرت بھٹو، بینظیر بھٹو اور اُن کے وکیل یحییٰ بختیار ہی دکھائی دیتے تھے‘ باقی سب فصلی بٹیرے ثابت ہوئے۔
بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تو میں کیلیفورنیا یونیورسٹی میں سیاسیات پر پی ایچ ڈی کا طالب علم تھا۔ ساری دنیا میں اس فیصلے پر تنقید ہورہی تھی۔ جنرل صاحب نے کچھ دانشور سپاہیوں کا انتخاب کیا اور اُنہیں امریکی جامعات اور دیگر فورمز پر سرکاری خرچے پر روانہ کیا تاکہ دنیا کو قائل کیا جا سکے کہ یہ ایک منصفانہ فیصلہ تھا۔ ہمارے نزدیک بھٹو مظلوم تھے کیونکہ فیصلے پر ریاست کی خواہش اور مداخلت غالب تھی۔ امریکہ میں میرے ہم جماعتوں اور اساتذہ نے بھٹو کی سزا منسوخ کرانے کیلئے ایک پٹیشن تیار کرکے جنرل ضیاالحق کو ارسال کی۔ یہ سند میرے پاس محفوظ ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ساری دنیا میں اساتذہ، طلبہ، صحافی اور دانشور بھٹو کی جان بچانے کیلئے متحرک تھے، لیکن پاکستان کے اندر سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ ارد گرد نظر دوڑائیں، آج کے سیاست دانوں کو دیکھیں کہ ان میں سے کتنے ہی ضیاالحق کے شریکِ اقتدار رہے۔ کچھ نے اگر موقف تبدیل کیا تو بھٹو کو پھانسی ملنے کے بعد۔
نہ جانے بھٹو پر کس قسم کے لغو لیبل لگائے جاتے رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے المیے نے ساری قوم کو مایوسی کے اندھیرے میں دھکیل دیا تھا۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ ہوا کیسے؟ کاش اُس وقت ذرائع ابلاغ پر آمریت کے پہرے نہ ہوتے۔ بھٹو نے بہت کم وقت میں نئے پاکستان کی تعمیر کی۔ پانچ سال کے عرصے میں جو کام بھٹو نے کیا وہ کوئی اور سیاسی اور فوجی قیادت کئی دہائیوں تک نہ کر سکی۔ لکھنے سے پہلے کچھ تحقیق کرلی جائے تو بہتر ہے۔ شاید ذہن سے تعصب کی کچھ گر د صاف ہوجائے۔ کچھ اداروں کی تشکیل کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ اقتدار سنبھالتے ہی اُنھوں نے قومی شناختی کارڈ کی سکیم کا اعلان کیا۔ میں اُس وقت جامعہ پنجاب میں زیرِ تعلیم تھا۔ ہماری ترقی پسند تنظیم نے ہر جگہ، دیواروں پر نعرے لکھوائے کہ شناختی کارڈز ملک میں فسطائیت پیدا کرنے کے لیے جاری کیے جا رہے ہیں۔ آج اس کی افادیت پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ جامعات سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے رضاکار تنظیم بنائی جس کا اعادہ پنجاب حکومت انٹرن شپ پروگرام کی صورت کررہی ہے۔ میں نے خود اپنی پہلی نوکری کا آغاز بطور محقق رضاکار دوسو پچاس روپے ماہوار پر کیا تھا۔ رزلٹ کے دوسرے ہی دن روزگار کا بندوبست ہوگیا۔ اسلام آباد میں لوک ورثہ ہماری قومی ثقافت کی حفاظت، ترویج اور اس کی نمائش کا اہتمام کرتا ہے۔ یہ بھٹو صاحب نے ہی قائم کیا تھا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ صرف دو سال کے عرصے میں اس ادارے کے علاوہ انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد، انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان سٹڈیز، قائدِ اعظم یونیورسٹی، اور پانچ ایریا سٹڈی سنٹر پانچ مختلف قومی جامعات میں قائم کیے۔ تاریخ کی تحقیق کے لیے اُنھوں نے نیشنل کمیشن فار ہسٹریکل ریسرچ، قائد اعظم یونیورسٹی میں قائم کیا۔ میں نے اپنی علمی اور تحقیقی زندگی کا آغاز دوماہ جامعہ پنجاب میں رضاکار محقق رہنے کے بعد ہسٹری کمیشن سے کیا تھا۔ بھٹو صاحب نے اس وقت کے مشہور مورخ خورشید کمال عزیز کو سوڈان سے ترغیب دے کر بلایا، اور اس ادارے کی سربراہی سونپی تھی۔ بعد وہ بھی جنرل ضیاالحق کے غیظ وغصب کا شکار ہوئے، اور اپنے خلاف انکوائریاں بھگتتے رہے۔
بھٹو صاحب کی علمی کاوش کوئی معمولی کام نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ آنے والی حکومتوں نے ان اداروں کو سیاسی مداخلت سے تباہ کردیا۔ ہمارے نام نہاد دانشوروں نے بھٹو صاحب کو ہمیشہ تعصب کی نظر سے دیکھا۔ اُن میں سے زیادہ تر وہی ہیں جنہوں نے ضیاالحق کا ساتھ دیا تھا، یا جن کا تعلق اُن مذہبی سیاسی جماعتوں سے تھا جو بھٹو کو پاکستان کا نظریاتی دشمن سمجھتی ہیں۔ بھٹو صاحب کا ایک اور کارنامہ قوم کو متفقہ آئین دینا تھا۔ وہ ذاتی طور پر صدارتی نظام کے حق میں تھے، مگر وہ جانتے تھے کہ پائیدار سیاسی نظام کے لیے ضروری ہے کہ سب سیاسی جماعتیں متفق ہوں۔ اکثریت پارلیمانی نظام کے حق میں تھی۔
بھٹو صاحب کی خارجہ امور اور قومی سلامتی کی پالیسی کے بارے میں بصیرت غیر معمولی تھی۔ ''موہوم آزادی‘‘ اُنھوں نے اقتدار میں آنے سے چھ سال پہلے لکھی تھی۔ اس میں طاقت اور خوف کے توازن کے حوالے سے ایک باب ہے، جس میں اُنھوں نے دلیل دی ہے کہ بھارت کا مقابلہ پاکستان صرف جوہری ہتھیار بنا کرہی کرسکتا ہے۔ یہ بات تاریخ کا مطالعہ اور عالمی واقعات پر گرفت رکھنے والا کوئی شخص ہی کرسکتا ہے۔ جب وہ عوام کے اجتماع، یا اقوامِ متحدہ میں بات کرتے تو اُن کا انداز منفرد اور عالمی معیار کا ہوتا۔
بھٹو صاحب ایک خاص وقت میں ابھرے، اور قومی زندگی پر ایسا نشان چھوڑ گئے کہ کوئی مٹانا چاہے تو ناکامی اُس کا مقدر ٹھہرے گی۔ سیاسی مخالفین، اور جنرل ضیا نے اُنہیں مہلت نہ دی ورنہ پاکستان میں اصلاحات کا عمل ہوتا، ادارے بنتے اور فعال ہوتے، اور یقینا ہم ایک نارمل اور جدید ریاست بن کر آج دنیا میں باعزت مقام پر ہوتے۔ ناانصافی کا شکار ہونے والے بھٹو صاحب ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
بھٹو صاحب کی علمی کاوش کوئی معمولی کام نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ آنے والی حکومتوں نے ان اداروں کو سیاسی مداخلت سے تباہ کردیا۔ ہمارے نام نہاد دانشوروں نے بھٹو صاحب کو ہمیشہ تعصب کی نظر سے دیکھا۔ اُن میں سے زیادہ تر وہی ہیں جنہوں نے ضیاالحق کا ساتھ دیا تھا، یا جن کا تعلق اُن مذہبی سیاسی جماعتوں سے تھا جو بھٹو کو پاکستان کا نظریاتی دشمن سمجھتی ہیں۔ بھٹو صاحب کا ایک اور کارنامہ قوم کو متفقہ آئین دینا تھا۔ وہ ذاتی طور پر صدارتی نظام کے حق میں تھے، مگر وہ جانتے تھے کہ پائیدار سیاسی نظام کے لیے ضروری ہے کہ سب سیاسی جماعتیں متفق ہوں۔ اکثریت پارلیمانی نظام کے حق میں تھی۔ بھٹو صاحب کی خارجہ امور اور قومی سلامتی کی پالیسی کے بارے میں بصیرت غیر معمولی تھی۔ ''موہوم آزادی‘‘ اُنھوں نے اقتدار میں آنے سے چھ سال پہلے لکھی تھی۔ اس میں طاقت اور خوف کے توازن کے حوالے سے ایک باب ہے، جس میں اُنھوں نے دلیل دی ہے کہ بھارت کا مقابلہ پاکستان صرف جوہری ہتھیار بنا کرہی کرسکتا ہے۔ یہ بات تاریخ کا مطالعہ اور عالمی واقعات پر گرفت رکھنے والا کوئی شخص ہی کرسکتا ہے۔ جب وہ عوام کے اجتماع، یا اقوامِ متحدہ میں بات کرتے تو اُن کا انداز منفرد اور عالمی معیار کا ہوتا۔ بھٹو صاحب ایک خاص وقت میں ابھرے، اور قومی زندگی پر ایسا نشان چھوڑ گئے کہ کوئی مٹانا چاہے تو ناکامی اُس کا مقدر ٹھہرے گی۔ سیاسی مخالفین، اور جنرل ضیا نے اُنہیں مہلت نہ دی ورنہ پاکستان میں اصلاحات کا عمل ہوتا، ادارے بنتے اور فعال ہوتے، اور یقینا ہم ایک نارمل اور جدید ریاست بن کر آج دنیا میں باعزت مقام پر ہوتے۔ ناانصافی کا شکار ہونے والے بھٹو صاحب ہمیشہ زندہ رہیں گے۔