دل میں تڑپ بہت تھی ‘ توقعات کا طوفان مچلتا تھا‘ خواب بیدار تھے ۔ بہت سانحے دیکھے‘ تحریکوں کو ابھرتے ‘ بکھرتے اور پھر کئی دوسروں کو ان کی راکھ سے نکل کر آسمانوں کو چھوتے دیکھاتو ہر دفعہ امیدوں کی بجھی شمع روشن ہونے لگی۔ سوچاکہ اب ملک ظالموں‘ لٹیروں اور سیاسی گدی نشینوں سے آزاد ہوکر رہے گا۔دل کی گہرائیوں سے آہٹ نکلے تو حالات پر کیا تبصرہ کیا جاسکتا ہے ۔ آپ اگر اعلیٰ اورحکمران گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں تو آزادی کی بات پر آپ کو ضرورتعجب ہورہا ہوگاکہ ہم تو سب آزاد ہیں۔ اقوام متحدہ کے رکن ‘ تمام ممالک میں ہمارے سفیر‘ ایک مقتدر ریاست اور نگران حکومتیں‘ سب کچھ تو ہے ۔مگر یہ آزادیاں اس نوع کے طبقات کو استعماری دور میں بھی حاصل تھیں ۔ وہ اُس وقت کے طاقت کے سرچشموں سے جڑے ہوئے تھے ۔ خدمت گزاری میں پیش پیش ‘ ایک دوسرے سے زیادہ وفاداری اور اطاعت گزار ی میں سبقت لینے کے فن میں ماہر ۔ ہمارے گورے حکمران ان گماشتوں کی وساطت سے برصغیر کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک حکومت کرتے رہے ۔ دیسی گماشتہ طبقے کو جاگیریں عطا کی گئیں ۔ انتظامی اختیارات بھی ملے اور ان کی تعلیم و تربیت کے لیے مخصوص ادارے بھی بنائے گئے ۔ ریاست کے کلیدی اداروں میں اوائل کی کئی دہائیوں تک بھرتی طفیلی حکمران گھرانوں تک محدود رہی ۔ ہر ضلع میں کمپنی بہادر اور بعد میں تاج برطانیہ کے چند افسر زمیندار خاندانوں کے سربراہوں کے تعاون سے ریاستی اداروں کا جال آہستہ آہستہ پھیلاتے چلے گئے ۔
جدید ہندوستان کی بنیاد تو استعماری مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے ڈال دی گئی مگر سماجی اور سیاسی ڈھانچے میں قبائلی سرداروں ‘ نوابوں اور جاگیرداروں کا کردار اس نظام کی فعالیت میں اہم رہا ۔ پہلی عالمی جنگ میں لام بندی ہوئی تو لاکھوں کی تعداد میں غریب خاندانوں کے نوجوانوں کو پکڑ کر انگریز فوج کے حوالے کرنا اُن کی ذمہ داری تھی ۔ ہمارے نانا کا چھوٹا بھائی اٹھتی جوانی میں ہی سلطنت برطانیہ کا محافظ بن کر مشرق وسطیٰ یا شمالی افریقہ کے محاذوں پر زندگی کی بازی ہار گیا ۔ سنا ہے کہ ایک پروانہ ہی آیا تھا کہ قربان ہوگیا ہے ۔ محکوم طبقہ ہر قسم کی قربانیاں دیتا رہا اور ہمارے دیسی حکمران ولایتی آقائوں کے سامنے سرخرو ہوتے رہے ۔ بچپن میں نانا سے کبھی سوال کرتا کہ ودھیا کہیں بھاگ کیوں نہیں گیا تھا ‘ خود تو کہتے تھے کہ دوڑ بہت اچھی لگا تا تھا‘ کوئی اس کے قریب تک نہیں آسکتا تھا۔ نام بھی خوب تھا‘ جس کا مطلب ہے ''بڑھیا اور اعلیٰ‘‘بس یادیں ہیں جو اَب شاید مجھ تک ہی محفوظ ہیں ۔ اس نظام کے جبر سے کوئی کہیں بھاگ کر نہیں جاسکتا تھا ۔ مغل دور سے ہی جاگیرداری نظام ‘ بلکہ ا س سے بھی پہلے موجود تھا‘ انگریزوں نے اسے جدید ریاست کے تقاضوں کے مطابق استوار کیااور اس کی معاشی اور انتظامی ذرائع سے آبیاری کرتے رہے ۔ پنجاب کے علاوہ سندھ اور خطے کے ہر کونے پر اُن کا غلبہ تھا۔ مقامی حکومتوں اور بعد میں صوبائی اور قومی انتخابات کا انعقاد کیا گیا تھا تو اس میں شرکت کے لیے صرف وہی طبقہ سامنے آیا جو برطانیہ نے تیار کیا تھا۔ زمین اُن کے پاس ‘ زر‘ دولت کے انبار بھی ان کے ‘ تعلیمی صلاحیت اور سماجی حیثیت مغلیہ شہزادوں سے کم نہ تھی ‘ تو پھر انتخابی مقابلے میں ان کے سامنے آنے کی کس کو جرأت یا مالی توفیق ہوتی کہ اُن کے سامنے آتا۔ جاگیرداری نظام سے وابستہ طبقے کی سیاسی تربیت اور اساس برطانوی حکومت کے دور میں ہی گہری پڑ چکی تھی۔
ایک دن ہم آزاد ہو گئے‘ نیا ملک بن گیا‘ ہم عام لوگ جو انگریز دور میں غلام تھے‘ آزادی کے جذبوں سے سرشار سبزہلالی پرچم تھامے وطن کے لیے کٹ مرنے کو صرف تیار ہی نہیں تھے بلکہ لاکھوں کی تعداد میں بے گھر بھی ہوئے‘ مہاجر بنے اور خاک و خون میں لپٹے آزادی کا خواب لیے کسی اور جہاں کی جانب رخصت ہو گئے۔ سب خوشی خوشی اپنی جانوں کی قربانیاں دیتے رہے تا کہ ہماری آئندہ انے والی نسلوں کو آزادی نصیب ہوگی۔ امیدوں کے اس دور میں نہ جانے وہ کیسے لوگ تھے کہ ہماری خاطر جانوں سے گزر گئے۔ ہر بار انتخابات کے مہینوں اور دنوں میں امیدوں اور قربانیوں کے وہ پرانے قصے اس درویش کے ذہن میں کلبلانے لگتے ہیں۔ آزادی کا سوال تو ویسے بھی سائے کی طرح ساری زندگی ہمارے ساتھ رہا مگر جب سیاسی جماعتیں استعماری دور کے حکمران گھرانوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے دورے اور مجلسیں منعقد کرتی ہیں‘ جلسے جلوس نکالتی ہیں توموہوم آزادی کی تڑپ اس پرندے کی صورت اختیار کر لیتی ہے جسے کسی شکاری نے پنجرے میں بند کر رکھا ہو۔ شاید آپ نے دیکھا ہو کہ ایسے پرندے آزادی کے لیے آہنی سلاخوں کے ساتھ سر ٹکراتے ہوئے زخمی ہو جاتے ہیں۔یہ کوشش اُن کی جان بھی لے لیتی ہے ۔ نہ جانے اس افسردہ صبح کو پرندے کیوں یاد آگئے ۔
انتخابات کا طبل بجتا ہے تو سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ اسمبلیوں میں جانے کی آزادی صرف اس طبقے کو حاصل ہے جو انگریزی دور میں تابعداری کے لیے پیدا کیا گیا تھا۔ ہماری قسمت صرف ان کی تابعداری میں ہے۔ ہمیں اب حکم بھی ہے اور حالات کا فی الحال جبر بھی کہ آپ نے ان میں سے ہی چناؤ کرنا ہے‘ کسی اور کا خیال ترک کر دیں ۔جنہیں ہمارے انتخابات کے لیے چنا گیا ہے‘ انہیں آزادی ہے کہ مقدمات ان کے خلاف ختم ‘قانون اور انصاف کے حصار ان کے لیے تبدیل ہوسکتے ہیں۔ اور عوام کے سامنے وہی خاندان ہوں گے جو تقریبا ًگزشتہ دو صدیوں سے ہمارے حکمران ٹھہرے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ملک آزاد ہوا تو اس آزاد دنیا کی توسیع پسندی میں سیاسی‘ مذہبی اور صنعتی خاندانوں کا بھی اضافہ ہوا ہے۔ جدید طرزِ حکمرانی میں شہری آبادیوں کے بڑھتے ہوئے سمندر میں صرف جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں کی افادیت نہیں‘ ان کی بھی ہے جو شہروں کی زمینوں پر قبضہ جمانے کے ساتھ ظلم و تشدد میں نام پیدا کر لیتے ہیں۔وہ بھی تو شاید مئی کا ایک دن تھا جب کراچی میں ایک جماعت نے قتلِ عام کیا اور اسی شام ایک حکمران اسلام آباد میں مکا لہر ا کر کہہ رہا تھا کہ دیکھی ہے عوام کی طاقت۔ ظاہر ہے وقت بدلتا ہے تو چہرے بھی بدل جاتے ہیں مگر سماجی ساخت اور نظام و حکومت اور سیاست نہ بدلے تو ''راج کرے گی خلق خدا‘‘ ایک فریاد کی صورت دل کو مسلسل ٹھیس پہنچائے اور درد بڑھ جائے تو لبوں پر آہ بن کر ہوا میں بکھر جائے ۔ شکر ہے کہ ہم آزادی کی آرزو میں جیتے ہیں ۔ یہ سرمایہ بھی کچھ کم تو نہیں ۔