افغان مہاجرین کے بارے میں جو کہانی ساری دنیا میں مشہور ہوئی‘ وہ نیشنل جیوگرافک میگزین کے کور پر چھپنے والی افغان لڑکی کی تصویر ہے۔ جب جون1985ء کے شمارے میں نیشنل جیوگرافک میگزین کے کور پر یہ تصویر چھپی تو حیرتوں میں ڈوبی گہری سبز آنکھوں والی دس سالہ بچی کی اُس تصویر نے افغانوں کی بے کسی کی عکاسی کرتے ہوئے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ تقریباً بیس سال پہلے استنبول‘ ترکی میں کہیں گھوم رہا تھا تو ایک دکان پر افغان لڑکی کی وہی تصویر ہو بہو پینٹ کی ہوئی بِک رہی تھی۔ دکاندار سے پوچھا کہ معلوم ہے کہ یہ لڑکی کہاں کی ہے تو اُسے کچھ علم نہ تھا۔ فوٹو گرافرسٹیو مکری اس تصویر کی وجہ سے مشہور ہوئے تھے۔ انہیں نیشنل جیوگرافک میگزین نے1984ء میں پاکستان بھیجا تاکہ افغان مہاجرین کے کیمپوں کی حالت زار کے بارے میں لکھے جانے والے مضامین کے لیے تصاویر اتارے۔ اتاری گئی تصاویر میں دس سالہ افغان لڑکی کی تصویر بھی کہیں بن گئی جو میگزین نے کور پر لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ گہری سبز آنکھیں‘ تیکھی نگاہ‘ خوف اور حیرت کے عجیب امتزاج نے اس لڑکی کو افغان مہاجرین کا مشہور ترین نمائندہ اور چہرہ بنا دیا۔افغان لڑکی والے شمارے نے نیشنل جیو گرافک میگزین کی شہرت کو چار چاند لگا دیے اور اس کی آمدنی میں بھی اضافہ کیا۔ کسی کو معلوم نہیں تھاکہ اس لڑکی کا نام کیا ہے اور وہ کس خاندان سے ہے۔ تقریباً اٹھارہ سال بعد‘ 2002ء میں‘ اس افغان لڑکی کو معلوم ہوا کہ اس کی تصویر کسی کتاب کے صفحے پر چھپی ہے۔ وہ پاکستان کے دور افتادہ سرحدی علاقوں کے پہاڑوں میں کہیں رہ رہی تھی۔ اب وہ اٹھائیس سالہ بیوہ‘ سات بچوں کی ماں تھی۔ تیرہ سال کی عمر میں قبیلے نے اُس کی شادی رچا دی تھی۔
امریکہ نے افغانستان میں جنگ شروع کی تو ایک مرتبہ پھر افغان مہاجرین کی آمد ہوئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ افغان لڑکی شربت گُلہ کو جب بتایا گیا کہ وہ دنیا میں بہت مشہور ہے تو اس کے خاندان نے نیشنل جیوگرافک میگزین سے رابطہ کیا۔ سٹیو مکری کو تو کچھ معلوم نہیں تھا کہ وہ لڑکی کون تھی‘ کہاں گئی اور اس کا نام کیا تھا۔ پتہ چلا تو وہ فوراً پاکستان آیا‘ اُسے پہاڑوں میں تلاش کیا اور پھر ایک اور تازہ تصویر اتاری۔ وہ تصویر بھی نیشنل جیوگرافک میگزین کے کور پر شائع ہوئی۔ سٹیومکری جب لوگوں سے اس کا اتا پتا معلوم کر رہا تھا تو کئی خواتین سامنے آئیں اور شربت گُلہ ہونے کا دعویٰ کیا۔ کچھ مردوں نے اُس کا شوہر ہونے کا چرچا کیا۔ میگزین کی نئی اور پرانی ٹیم نے اُسے پہچان لیا۔ وقت اور زندگی کی مشکلات نے اُس کی جوانی تباہ کردی تھی۔ چہرہ اب تنی ہوئی کھال کی طرح تھا اور شباہت بھی وہ نہیں رہی تھی‘ مگر آنکھوں میں وہی چمک‘ وہی روشنی موجود تھی۔ نامساعد حالات کی وجہ سے دنیا کی مشہور ترین لڑکی نے بیچارگی‘ ٹھوکریں اور جلاوطنی جھیلتے بچپن میں ہی بڑھاپے میں قدم رکھ دیا تھا۔ ظلم کی بات یہ ہے کہ اُس دریافت کے بعد‘ بجائے اس کے کہ ہماری حکومت شربت گُلہ کو اپنا شہری بنا کر اپنا لیتی جو اس کی شدید خواہش تھی‘ تو وہ ساری زندگی یہاں گزار دیتی‘ لیکن اُسے جعلی شناختی کارڈرکھنے کی پاداش میں گرفتار کر لیا گیا۔ جب اس مشہور ترین عورت کو عدالت میں پیش کیا گیا تو اُسے دو ہفتے قید کی سزا سنا دی گئی۔ سزا کاٹنے کے بعد اُسے اپنے ملک واپس بھیجنے کا حکم نامہ بھی جاری ہو گیا۔ اُس نے احتجاج کیا کہ پاکستان کے علاوہ تو اس نے کبھی کوئی ملک دیکھا ہی نہیں اور اس کے بچوں کی پیدائش بھی یہیں ہوئی ہے جو افغانستان کو جانتے تک نہیں۔ لیکن یہاں بجنے والے قانون کی حکمرانی کے ڈنکے کی وجہ سے بیچاری شربت گُلہ کیسے بچتی۔ افغانستان واپسی پر اشرف غنی نے اُس کا پُرتپاک استقبال کیا۔ دنیا میں خبر پھیلی کہ پاکستان سے شربت گُلہ کو ملک بدرکر دیا گیا ہے۔ طالبان کی حکومت آئی تو کئی ممالک شربت گُلہ کو اپنا شہری بنانے کے لیے تیار تھے۔ اُس نے خود اٹلی کا انتخاب کیا اور اب وہ وہاں مقیم ہے۔ اٹلی کی حکومت نے اُسے مفت گھر مہیا کیا ہوا ہے‘ وہ سرکاری مہمان ہے اور اس کے بچے وہاں زیر تعلیم ہیں۔ یہاں کیا کمی آنی تھی اگر ہم اس افغان لڑکی کو اپنی پناہ میں لے لیتے۔ سوچ نہیں‘ دھیان نہیں‘ دانش مندی تو دور کی بات ہے۔ افغانستان کی طویل اور مسلسل چار دہائیوں کی جنگوں نے نہ جانے کتنے لاکھ افغانوں کی زندگیاں تباہ کی ہیں۔ لاکھوں بے گھر ہوئے اور آج پڑوسی ممالک کے علاوہ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں مہاجر ہیں۔ طالبان کی دوسری حکومت آنے کے بعد مزید افغان ملک چھوڑ کر باہر کے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔
آج کل ہماری حکومت غیر قانونی افغان مہاجرین کو اُن کے ملک میں بھیج رہی ہے جہاں بچیوں کی تعلیم پر وہاں قائم طالبان حکومت نے پابندی لگا رکھی ہے۔ اس کے جو خوفناک نتائج ہمارے افغانستان کے ساتھ آئندہ تعلقات پر پڑیں گے‘ وہ اپنی جگہ مگر ہماری لاکھوں افغان مہاجرین کی تاریخی میزبانی‘ جو کبھی دنیا سراہتی تھی‘ اب وہ اختتام پذیر ہو رہی ہے۔ ہم نے دنیا میں اس حوالے سے نام کمایا تھا۔ غیر ملکی مبصر اور نامور لوگ حیران تھے کہ ہم نے کس طرح فیاضی کے ساتھ افغان مہاجرین کو قبول کیا‘ انہیں کیمپوں میں رکھا‘ ان کی بستیاں آباد کیں اور انہیں آزادی دی کہ ہمارے جس شہر‘ گاؤں اور قصبے میں چاہے آباد ہوں‘ کاروبار کریں اور عزت اور احترام سے رہیں۔ اس پالیسی پر اعتراض کرنے والوں کی 44سال پہلے بھی کمی نہیں تھی‘ آج بھی نہیں ہے۔ اگر ہم مان بھی لیں کہ پہلی افغان جنگ کے دوران لاکھوں مہاجرین کو قبول کرنا غلط تھا تو اس سے کئی گنا بڑی غلطی کے ہم اب مرتکب ہو رہے ہیں جب انہیں ملک بدر کر رہے ہیں۔ میرے نزدیک تو جنگوں سے متاثرہ افغانوں کو پناہ دینا اخلاقی‘ تہذیبی اور سیاسی ذمہ داری تھی۔ اس وقت ہم نے خوب نبھائی اور بعد کے ادوار میں بھی ہم افغانوں کو خوش آمدید کہتے رہے۔ جب امریکہ نے افغانستان سے اپنی فوجوں کا انخلا شروع کیا اور طالبان نے تیزی سے کابل پر قبضہ کر لیا تو ایک اندازے کے مطابق سات لاکھ افغان مہاجرین اس تیسرے یا چوتھے ریلے میں پاکستان آئے۔ ایسی دنیا کی کوئی ریاست یا حکومت نہیں جسے کو ئی ملک بھی قانونی طور پر تسلیم نہ کرے۔ حالات جب ایسے ہوں تو صحت‘ تعلیم‘ سلامتی جو بنیادی ضروریات ہیں‘ میسر نہ ہوں‘ شخصی آزادیاں نہ ہوں توکون وہاں رہنا پسند کرے گا۔ افغان پہلے ہم سے اس لیے ناخوش تھے کہ ہم نے ان کی ریاست‘ معاشرے اور زندگیوں کی تباہ کرنے والے ملکوں کا ساتھ دیا۔ اور جو کچھ آج ہم ان کے ساتھ کر رہے ہیں‘ اس کے منفی تاثرات بھی نسل درنسل ان کے دلوں سے محو نہیں ہوں گے۔ ہمارا مسئلہ دہشت گرد ہیں۔ طالبان حکومت کی غیرذمہ دارانہ پالیسیاں ہیں اور وہ گروہ ہیں جو وہاں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان کا پیچھا کرنا اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانا ہمارا فرض ہے۔ وہ ہم کر تو رہے ہیں مگر مزید کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی ہم آہنگی اور پالیسیوں میں تسلسل کے ساتھ اس کا ہدف افغان مہاجرین کو بنانا اور اس وقت جب سردیوں کا سخت موسم ہے اور افغانستان کے حالات ناگفتہ بہ ہیں‘ کئی المیوں کو جنم دے سکتا ہے۔ ان مشکل حالات میں اور کچھ افغان دھڑے ہمارے بارے میں جو بھی زبان استعمال کریں‘ ہمیں برد باری اور برداشت کے ساتھ میزبانی کا فریضہ جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ اب بھی وقت ہے‘ ہم اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں تاکہ جو نام ہم نے دنیا میں کمایا ہے‘ وہ اپنی کوتاہ اندیشی سے گنوا نہ بیٹھیں۔