ماضی‘ گزرے ہوئے زمانے ‘ واقعات‘ ذاتی مشاہدے‘تاریخ ‘ سب روشنی فراہم کرتے ہیں تاکہ حال اور مستقبل میں ہم ان غلطیوں کے مرتکب نہ ہوں جو سرزد ہوئیں ۔ اجتماعی معاملات ‘ ریاستی ‘ قومی اور ملکی مفادات کو سامنے رکھیں تو ماضی کی روشنی کی ضرورت کہیں زیادہ نظر آتی ہے ۔ علم و حکمت کی برکت ہو‘ عنانِ اقتدار مدبروں کے ہاتھ میں ہو‘ اہل ِدل و دانش کی اگر بات سنی جائے تو ماضی سے بڑا کوئی استاد ہو ہی نہیں سکتا۔ کسی شخص یا قوم کی فکری ‘ نظریاتی اور سیاسی تعمیر ممکن ہی نہیں جب تک کہ تاریخ کو پڑھا نہ جائے اور اس سے سبق نہ حاصل کیے جائیں ۔ اہلِ نظر تو دنیا کی تاریخ کی گہرائیوں میں ڈوب کر تفکر اور تدبر کی منازل طے کرتے ہیں۔ تاریخ جو میرے ذہن میں ہے ‘ صرف سیاسی واقعات نہیں اور نہ ہی کسی ایک ملک کے ماضی پر محیط ہے ‘ بلکہ فکری ‘ادبی‘ ثقافتی ‘ سائنسی اور صنعتی شعبے بھی اس میں شامل ہیں ۔ سیاسی انحطاط ہو یا کسی قوم اور ملک کی بے ترتیبی‘ مالی اور اخلاقی یا سیاسی بدعنوانی کی تواتر سے چلتی داستانیں سب تاریخ کی سچائیوں سے انحراف کی علامات ہیں ۔ چند اعلیٰ درجے کی مغربی جامعات سے فارغ التحصیل رہنما بھی ہماری سیاسی تاریخ میں آئے ‘ جنہیں تاریخ دانی پر بہت ناز تھامگر ہماری بدقسمتی کہ وہ بھی تاریخ کی روشنی میں کوئی راستہ نہ بنا سکے ۔ ذاتی مفادات کی خود فریبی کا شکار ہوگئے ‘ یا شاید نظام اور اس کے تقاضوں نے سب کو بے بس کردیا ۔ کس کو سقوط ڈھاکہ پر مورد الزام ٹھہرائیں ‘ کس کس کو تاریخ کی عدالت کے کٹہرے میں لائیں ۔ بہت سے کردار ہیں ‘ان کی باتیں بہت ہوچکیں ‘ اور آنے والے وقتوں میں ہوتی رہیں گی ۔ بات تو کچھ سبق حاصل کرنے کی ہے ۔
میری نسل کے لوگ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو کبھی نہیں بھول پائیں گے ۔ ہم نے مکمل ‘ متحد‘ وسیع وعریض ‘ پرُاعتماد اورآگے بڑھتا ہوا پاکستان دیکھا ۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے نوجوانوں نے ایوب خان کی آمریت کے خلاف مشترکہ تحریک چلائی ‘کالج کے سالوں سے لے کر جامعہ پنجاب تک اس کا حصہ رہے ۔ نئے انتخابات کے لیے جو جوش وخروش تھا اور جس طرح اپنی اپنی جماعتوں کے پرچم لے کر 1970 ء کے انتخابات میں حصہ لیا ‘ وہ جذبہ اور جنوں پھر ہم نے کبھی نہ دیکھا ۔ یہ تو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اقتدار عوامی لیگ کو منتقل نہیں ہوگا‘ نہ کبھی یہ سوچ ذہن میں آئی تھی کہ قومی اسمبلی کا مجوزہ اجلاس ڈھاکہ میں نہیں ہوگا۔ اب اُن واقعات کی کتنی مرتبہ ہم کہانی لکھیں ‘ نوحہ خوانی کریں اور کس کس کردار کو آپ کے سامنے کھڑا کریں ۔ سب اپنا وقت پورا کرکے رخصت ہوچکے ۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ہم اپنے ماضی یا تاریخ سے کیا سبق حاصل کرسکتے ہیں ؟ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ہم کبھی سیکھنے والے نہیں ۔ ہماری کیا اوقات ‘ ہم تو حکمران طبقات کی بات کررہے ہیں جو ہماری سیاسی جماعتوں کے جدی پشتی وارث ہیں اور پھر معاشرے کے طاقتور حلقے جن کے اشاروں کے بغیر کوئی پتا بھی نہیں ہلتا۔ وہ واقعات سب نے پڑھ رکھے ہیں مگر یہ کہنا کہ اُس قومی سانحے میں کون سے ایسے اسباق مضمر ہیں جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہے‘ اس طرف ہمارے حکمرانوں کی توجہ شاید نہیں رہی۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ بھی ان میں سے اکثر نے نہیں پڑھی ۔ ایسے کاموں کے لیے ان مصروف افراد کے پاس بھلا وقت کہاں ‘ اور پھر دولت ِ فکر سے محروم لوگوں کو آپ صبح و شام بتاتے بھی رہیں ‘ وہ کبھی سمجھ نہیں پائیں گے ۔ علامہ اقبال‘ جنہوں نے اس مملکت کا خواب دیکھا تھا‘ نے ایسے حضرات کے بارے میں کیا خوب کہا تھا : پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر/ مردِ ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر ۔
چلوہم عوام اپنے درمیان تو مکالمہ جاری رکھ سکتے ہیں اور اپنے جیسے لوگوں کے لیے کچھ احساس ِزیاں تو پیدا کر سکتے ہیں اور خبردار بھی کہ آج کے حالات نصف صدی پہلے سے کوئی زیادہ مختلف نہیں۔ سیاسی کشیدگی‘ علاقائی تقسیم ‘پکڑ دھکڑ‘ مار دھاڑ کی فضا تو ہے ہی‘ معاشی طور پر بھی تباہ حال ہیں۔ ادارے کمزور ‘ ملکی وسائل کا ارتکاز حکمران طبقات کے ہاتھوں میں ایسا کبھی نہ تھا اور نہ وسیع پیمانے پر لوٹ مار اور اس کے زور پر ابھرنے والے کئی طاقتور حلقے اور ان کا اثر و نفوذ میڈیا سے لے کر سیاست کے ہر گوشے پر۔ اس دوران دہشت گرد ہماری مسلح افواج ‘پولیس اور شہریوں پر روزانہ کی بنیاد پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔حکمران طبقات زور آزمائی کی سیاست اور لوٹ مار کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں ۔ عوام میں بظاہر مقبول رہنما اور ایک سیاسی جماعت کے اقتدار میں آنے کے تمام راستے بزور طاقت بند کرنے کا عمل جاری ہے جو ہم اور ساری دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے ۔اس وقت بھی بہت سی جماعتیں اکٹھی تھیں ‘ اور جن کا ساتھ دینا تھا وہ دے رہی تھیں تا کہ اکثر یتی جماعت کو اقتدار منتقل نہ ہو۔ ہم نے اُن دنوں کے واقعات کو قریب سے دیکھا‘ محسوس کیا ‘اور آج بھی قریب سے دیکھ اور محسوس کر رہے ہیں۔ اس وقت کے ماحول میں جو ہم زبانی کلامی کر سکتے تھے اور اپنے طالب علمی کے سیاسی عمل اور تحریک سے بھی‘ وہ تنظیم کے کارکن کی حیثیت سے کیا ۔ آج کے مشکل دور میں یہ فرض نبھانا اور بھی ضروری ہے۔ آپ کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ انتخابات کوئی کھیل تماشانہیں‘ حکومتوں کے اقتدار کو عوام کی حمایت جواز فراہم کرتی ہے۔ اگر انتخابات کی شفافیت پر سے اعتبار اٹھ جائے تو پھر حکمرانی کے لیے صرف ریاست کی طاقت باقی رہ جاتی ہے۔ آپ جتنا زیادہ اسے استعمال کریں گے ‘ اتنی ہی اس کی افادیت کم ہوتی جائے گی‘ اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ ریاست اور عوام ایک دوسرے کے سامنے ہو جاتے ہیں ۔مشرقی پاکستان میں کیا ایسا نہیں ہوا تھا؟ انتخابات حکومت ریاست اور عوام کو جوڑتے ہیں‘ بشرطیکہ شفاف ہوں‘ قومی ادارے غیر جانبدار ہوں اور سب سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع میسر ہوں۔ انتخابات کے حوالے سے جو باتیں ہو رہی ہیں اور ہم عوام کی سطح پر سُن رہے ہیں‘ شفافیت پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔
تاریخی طرز اور سماجی اور سیاسی حقائق کی روشنی میں کئی اقوام رکھنے والے ملک ہیں۔ دنیا میں واقع اکثریت ایسے ملکوں کی ہے۔ ایک قوم نعروں اور خود تراشے نظریوں سے نہیں‘ سیاسی عمل کی بنیاد پر بنتی ہے جس میں آئین کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ جو ماضی میں اس کا حال ہم نے کیا ہے اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ قوم سازی کے بارے میں کوئی کتنا سنجیدہ تھا ۔دوسرے سیاسی عوامل میں نمائندگی‘ مذاکرات کا راستہ‘ وسائل کی منصفانہ تقسیم اور قانون اورانصاف کی فراہمی کے ساتھ اقتصادی ترقی ہیں۔ غربت اور پسماندگی میں‘ اور معاشی حالات ابتر ہوں تو قومی اتحاد کے رشتے کمزور ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں صرف نعرہ بازی ہی باقی رہتی ہے ۔ باہمی مفادات اور نمائندگی کے اصول کو عملی طور پر ریاستی حکمت عملی کے طور پر اپناتے ہوئے قومی تعمیر کے رنگ نکھرتے ہم نے کئی ممالک میں دیکھے ہیں۔ ہمارے ہاں آج کی سیاست میں باہمی مفادات صرف دوسو کے قریب سیاسی حکمران گھرانوں کے گرد گھومتے ہیں ۔ خوف اس بات کاہے کہ سوشل میڈیا کی افواہوں کے اس دور میں عوام اور حکمرانوں کے درمیان فاصلے اتنے نہ بڑھ جائیں کہ حکمرانی کے لیے صرف ریاست کی طاقت ہی باقی رہ جائے ۔ پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی ۔