"RBC" (space) message & send to 7575

ہم کوئی بھیڑیں تو نہیں

بھیڑوں کے بارے میں عوامی خیالات وہی ہیں جو حکمران طبقات کے عوام کے بارے میں ہیں۔ میرے نزدیک دونوں کی اہمیت عام محاورے سے زیادہ کچھ نہیں۔ کچھ قریب سے دیکھیں‘ پرکھیں‘ مطالعہ کریں تو آپ نے جو مفروضے بھیڑوں اور عوام کے متعلق مختلف حوالوں سے اپنے ذہنوں میں راسخ کر لیے ہیں‘ انہیں اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ بھیڑوں کے بارے میں یہ درویش بہت کچھ جانتا ہے اور اگر وقت اور فرصت ملے تو پوری کتاب لکھ کر اپنے تجربات اور مشاہدات کا ثبوت پیش کر سکتا ہے۔ لیکن شاید ایک معمولی سی بات کے لیے آپ نہیں چاہیں گے کہ باقی کام چھوڑ کر بھیڑوں کے بارے میں تحقیق و جستجو اور بچپن کی پرانی یادیں تحریر کروں۔ آج کل جس ماحول میں فرصت اور سردیوں کے دن گزر رہے ہیں اور جو کچھ کھڑکی کے باہر صبح شام دیکھتا رہتا ہوں‘ قابلِ دید ہے اور بہت سی فرضی باتوں کا بوجھ ذہنوں سے اتارنے کے لیے کافی ہے۔ اس بستی کے ارد گرد بہت دور تک‘ کئی میلوں تک پھیلے ہوئے کھیت ہیں۔ لیکن یہ کھیت ان سے بہت ہی مختلف ہیں جنہیں آپ کی نظریں اپنے وطن میں دیکھنے کی عادی ہیں۔ کہیں کچھ گھوڑے اور مویشی نظر آتے ہیں لیکن اکثر فارمز پر بھیڑیں ہی بھیڑیں ہیں۔ ادھر کا ماحول ہمارے دیہات‘ بھیڑوں اور چرواہوں سے یکسر مختلف ہے۔ میں نے یہاں کئی سال تواتر سے آنے کے بعد اور ان فارمز کے درمیان کچی سڑکوں پر بار بار پیدل چلنے کے باوجود کہیں کوئی چرواہا ابھی تک نہیں دیکھا۔ ہر فارم‘ جو سینکڑوں ایکڑ رقبے پر محیط ہے‘ کے چاروں طرف پتھر کی دیواریں ہیں‘ جو زیادہ بلند نہیں۔ اس لیے ہر فارم کے مالک نے بھیڑوں پر مختلف رنگوں کے نشان لگائے ہوئے ہیں کہ اگر سرحد پار کرکے غیرقانونی طور پر ہجرت کر جائیں تو انہیں واپس لایا جا سکے۔ ہر فارم کے کنارے ایک چھوٹا سا گھر ہے‘ شیڈ بھی ہے جہاں جانوروں کو سخت موسم سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ یہاں تو ہر روز ہلکی پھلکی بارش ہوتی رہتی ہے‘ اور بھیڑیں دن رات باہر گھومتی پھرتی آزاد ماحول میں ہر موسم میں سبز تازہ گھاس چرتی رہتی ہیں۔
پہلا مفروضہ تو ختم ہونا چاہیے کہ بھیڑیں پالنا تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک میں صرف غریب لوگوں کا پیشہ ہے۔ یہاں بھی امیر لوگوں کے ایسے فارمز ہیں مگر اکثریت ان دیہاتیوں کی ہے جو زرعی پیشے میں اپنا اچھا گزارا کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں تو بھیڑوں کے ایسے مخصوص فارم نہیں ہیں۔ دیہات میں صبح سویرے چرواہے دوسرے مویشیوں کے ساتھ بھیڑ بکریوں کو دور کہیں چرا گاہوں میں لے جاتے ہیں اور بے چارے سارا دن خاک چھانتے رہتے ہیں۔ شام کو تھکے ماندے گھروں کو لوٹ آتے ہیں۔ یہاں بھیڑیں فارم کے اندر خود بخود ایک جگہ سے دوسری جگہ آتی جاتی رہتی ہیں اور شاید شام کو انہیں بند کردیا جاتا ہے۔ یہاں کسی بھیڑیے کا ڈر ہے نہ چور کا کھٹکا‘ اس لیے اُن کے مالک دوسرے کام بھی کرتے رہتے ہیں‘ کہیں کوئی ملازمت‘ تجارت یا پھر زراعت سے متعلق کوئی اور کام۔ یہاں فارم رکھنے اور اس پر کام کرنے کے لیے شوق‘ تجربہ اور وسائل کا عمل دخل زیادہ ہے۔ بہت پڑھے لکھے اور پیشہ ور لوگ بھی شہروں کو چھوڑ کر دیہات میں زندگی گزارنے اور فارم بسانے کی طرف مائل دکھائی دیتے ہیں۔ منصوبہ بندی ایسی کی جانی چاہیے کہ سبزی‘ پھل‘ مرغی‘ انڈے‘ گوشت اور دودھ ایسے ہی فارم سے مہیا ہو اور جو ضرورت سے زائد ہو‘ اسے فروخت کر دیا جائے۔ سادہ‘ فطری اور قناعت پسندانہ زندگی گزارنے کا اس سے بہتر اور کیا طریقہ ہو سکتا ہے۔
یہاں کا معاشرہ‘ قانون‘ حکومت اور ثقافتی رویے روایتی اور قدامت پسند ہیں۔ اس لیے تو آپ دیہات میں جہاں بھی نکل جائیں‘ جنت کا گماں ہوتا ہے۔ لہروں کی صورت اوپر نیچے بل کھاتے کھیت‘ کناروں پر جنگل اور پتھروں سے بنے پرانے گھر ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ صدیوں سے ایسے ہی چلے آرہے ہیں۔ ہم نے اپنے کھیتوں اور دیہات کو اس طرح تباہ کرنا شروع کر دیا ہے جیسے منگولوں نے دنیا کے ایک حصے کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ حکمران طبقات ہماری تباہی سے فیض یاب ہوکر دنیا کے ہر کونے میں لوٹی ہوئی دولت چھپائے ہوئے ہیں۔ یہاں قوانین ہیں اور ان پر عمل کرنا اور کرانا مذہبی فریضوں سے بھی زیادہ مقدس خیال کیا جاتا ہے۔ آپ ان دیہاتی مکانوں کا حلیہ تبدیل نہیں کر سکتے۔ دوبارہ تعمیر کرنا پڑے یا مرمت کرنے کی ضرورت ہو تو پرمٹ لینا پڑتا ہے۔ مگر عمارت کا کَورڈ ایریا اور ظاہری شکل و شباہت میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح ان فارمز اور کھیتوں میں کوئی دوسرا گھر تعمیر نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی انہیں کسی اور مقصد کے لیے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ نسل در نسل یہ فارمز اسی طرح قائم ہیں‘ لوگ آتے جاتے رہتے ہیں‘ ملکیت بھی تبدیل ہو جاتی ہے مگر فارم اور کھیت اپنی اصلی حالت میں برقرار رکھے جاتے ہیں۔ ہمیں تو آبادی کے پھیلاؤ نے تباہ کرکے رکھ دیا ہے مگر عوام اور حکمرانوں میں کوئی شعور ابھی تک پیدا نہیں ہو سکا ہے کہ ملک کے اصل اور سب سے بڑے مسئلے کی طرف توجہ دیں۔ بلکہ کوئی اس مسئلے پر بات کرنے کی بھی زحمت یا شاید جسارت نہیں کرتا۔ یہاں تو بار بار دیکھا ہے کہ بچوں کی صحیح صورت میں کفالت‘ تعلیم‘ صحت اور اچھی زندگی کا ماحول مہیا کرنا ہو تو ایک یا دو بچوں سے زیادہ کوئی سوچ ہی نہیں سکتا۔ ہماری بستیوں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بھیڑیں تو تعداد میں کم ہو گئی ہیں لیکن بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ کسی زمانے میں گرد اُڑاتے بھیڑوں کی ریوڑ دکھائی دیتے تھے‘ ان کی جگہ بچوں کی ٹولیاں ہیں جو ہمارے دیہات میں گرد اُڑاتی رہتی ہیں۔
جس گائوں میں ہمارا بچپن گزرا تھا وہاں بھیڑوں کی بہت بڑی تعداد بھی تھی۔ صبح کی نقرئی روشنی پھوٹنے کے ساتھ اُن کے ریوڑ دور چرا گاہوں کی طرف روں دواں ہو جاتے اور شام کو اُفق پر سرخی پھیلنے پر واپس آتے۔ کیا دلچسپ مناظر تھے یہ بھی! اب بھی کہیں کہیں ہمارے دیہات میں یہ سب کچھ دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن یہاں کے مناظر بالکل مختلف ہیں۔ بھیڑوں کی طرف دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ کسی مصور نے ایک بڑی سی تصویر بنا رکھی ہے اور اس میں چھوٹے چھوٹے سفید دھبے نظر آرہے ہیں۔ قریب سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ بھیڑیں ہیں۔ یہاں کے اس منظر میں اتنی خوبصورتی ہے مگر یکسانیت ہمیں کوئی زیادہ اچھی نہیں لگتی۔ یہاں کی بھیڑیں انسانوں کی طرح آزاد ہیں‘ کوئی انہیں ہانکتا نظر نہیں آتا۔ کہیں کہیں ایک کتا اس مقصد کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے جو ان کی رکھوالی کرتا ہے۔ یہ کام ہمارے ہاں چرواہے کرتے ہیں‘ بھیڑیں ان کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں‘ وہ جہاں چاہیں لے جائیں‘ یہ بغیر کسی احتجاج کے آگے چلتی رہتی ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے حکمران پاکستان کو ایک چرا گاہ سمجھتے ہیں اور عوام کو بھیڑیں کہ جب بھی کوئی سر اٹھا کر احتجاج کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ہمارے سب چرواہے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اب تو ایسا سلوک ہوتے دیکھا ہے کہ ہماری بھیڑیں بھی آنکھ چرا کر مسکراتی ہیں کہ یہ برتاؤ کسی بدترین چرواہے نے بھی ان کے ساتھ نہیں کیا تھا۔ آپ کو کس کس کی مثال دیں۔ خیر جو حالات بنتے نظر آرہے ہیں‘ پاکستان کے عوام اپنے بارے میں اس دقیا نوسی تصور کہ وہ بھیڑیں ہیں اور انہیں کوئی بھی اپنے مرضی سے ہانک کر لے جا سکتا ہے‘ دفن کررہے ہیں۔ آخری رسم ادا ہونے والی ہے۔ سنا ہے فروری کی کوئی تاریخ ہے۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں