سیانے کہتے ہیں کہ سنا سنایا دیکھے کے برابر کہاں ہو سکتا ہے۔ ہم نے آکسفورڈ یونین کے بارے میں تو بہت سن رکھا تھا ‘جب ہم ساٹھ کی دہائی کے آخری برسوں میں کالج میں تھے اور پھر جامعہ پنجاب میں آئے تو ہمارے بائیں بازو کی طلبا تنظیمیں طارق علی کے بارے میں اکثر گفتگو کرتی تھیں کہ وہ بہت اچھے مقرر اور مشہور طالب علم رہنما کے طور پر ملک کے تعلیم یافتہ طبقے میں اپنی پہچان بنا چکے تھے۔ رہتے وہ برطانیہ میں تھے‘ اب بھی وہیں مقیم ہیں۔ اب تو انہیں مصنف اور سیاسی کارکن بھی کسی حد تک کہہ سکتے ہیں اور وہ اُس ملک کے دانشور حلقوں میں اپنا مقام بنا چکے ہیں۔ جب وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے آئے تو یہاں بھی طلبہ سیاست میں متحرک رہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ویتنام کی جنگ کے خلاف نوجوان یورپی اور امریکی جامعات میں بہت سرگرم تھے۔ طارق علی پہلے پاکستانی ہیں جو آکسفورڈ یونین کے سیکرٹری منتخب ہوئے۔ یونین کی بلڈنگ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک دیوار پر ماضی کے سب عہدیداروں اور یونیورسٹی کی انتظامیہ کے اکابرین کے ایک ہی قسم کے فریموں میں پرانی طرز کے فوٹو نمایاں نظر آئے۔اس فوٹو میں طارق علی نے وہی لباس پہنا ہوا ہے جو آج کل وفاقی کابینہ اور وزیراعظم حلفِ برداری کے وقت زیب تن کرتے ہیں۔ طارق علی سفید شلوار اور کالی شیروانی کے ساتھ پہلی قطار میں نظر آتے ہیں۔ شاید آپ کو معلوم نہ ہو‘ وہ محترم مظہر علی خان‘ جو صفِ اول کے مدیر اور صحافی تھے‘ کے صاحبزادے اور سر سکندر حیات خان کے پوتے ہیں۔ یہ تو ہم اپنے لیے اعزاز کی بات سمجھتے تھے کہ طارق علی کا آبائی علاقہ تو ہمارا وطن ہی ہے مگر وہ برطانیہ کے ہو گئے اور یہاں انہوں نے اپنا مقام خود ہی پیدا کیا ہے۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور آکسفورڈ یونین کی سرگرمیوں میں اب بھی حصہ لیتے ہیں۔
دوسری بڑی شخصیت جو آکسفورڈ یونین کے حوالے سے ہے‘ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہیں۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کا خواب تھا کہ ان کی صاحبزادی بینظیر آکسفورڈ میں داخل ہو اور یہ بھی کہ وہ آکسفورڈ یونین کی صدر منتخب ہو۔ اس یونین کا صدر ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ امیدوار کئی تقریری مقابلوں کے بعد سامنے آتے ہیں۔ یہاں کوئی برادری ازم نہیں اور نہ ہی کسی کی دولت اور سیاسی طاقت سے کوئی مرعوب ہوتا ہے۔ یہ ان کی کرشماتی شخصیت‘ کھلا دل اور کھلا ہاتھ تھا کہ وہ آکسفورڈ میں مشہور ہوئیں اور الیکشن جیتا۔ ان کی دوست اور مشہور مصنف وکٹوریہ سکوفیلڈ بھی آکسفورڈ یونین کی صدر رہ چکی ہیں۔ محترمہ بینظیر کی فوٹو وہاں دیکھی تو کچھ دیر تک محویت کا عالم طاری رہا۔ دل میں سوچ اُبھری کہ ہم نے کیسا ملک اور معاشرہ بنایا ہے جو محترمہ کو برداشت نہ کر سکا۔ رواداری کی علامت یہ شخصیت ہمارے درمیان کیوں نہ رہ سکی؟ جب تک حیات رہیں‘ مختلف قوتیں ان کے تعاقب میں رہیں۔ بہت زیادہ تحقیقات ہوئیں لیکن ہمیں تو آج تک پتہ نہیں کہ اصل قاتل کون تھے‘ کہاں گئے اور ان کی پشت پر کون تھا۔ سب خواب آسودۂ خاک ہوئے۔ اور یہ کیا کم تھا کہ وہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون سربراہِ حکومت تھیں۔ سیاسی اختلاف اپنی جگہ مگر تعلیم سے لے کر عملی سیاست تک جو مقام انہوں نے حاصل کیا‘ وہ گہرے جذبے‘ لگن اور جدوجہد کے بغیر ممکن نہ تھا۔ ہمارے ملک میں نہ جانے کتنے عالم فاضل لوگ دہشتگردوں کا نشانہ بنے ہیں۔ نظر تو درویش کی بینظیر بھٹو کی تصویر پر مرکوز تھی مگر ذہن میں اس سانحے کے ساتھ دہائیوں سے جاری دہشتگردی کی وحشیانہ کارروائیاں ایک گہرے سمندری طوفان کی طرح اُبل رہی تھیں۔ کیا سوچا تھا‘ کیا بن گئے ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونین میں مکالمہ‘ بحث و تمحیض اور اختلاف کی علمی شناخت قائم ہو چکی ہے۔ دنیا میں ترقی‘ خوشحالی‘ امن اور سلامتی کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ اختلافِ رائے کی برداشت کا ہے۔ ہر کسی کو یکساں آزادی ہے کہ وہ کسی بھی مسئلے پر رائے قائم کرے‘ کوئی بھی مذہب یا نظریہ اپنا لے اور سیاست کے میدان میں کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستہ ہو۔ روشن خالی کا پہلا اور آخری اصول بھی یہی ہے کہ ہر شخص آزاد اور مساوی حقوق رکھتا ہے۔ سیاسی اختلاف انسانی آزادی کا حصہ ہیں۔ مغربی معاشروں نے اچھی زندگی‘ ترقی اور امن کو اپنی ثقافت اور سماج میں راسخ کر لیا ہے۔ آکسفورڈ یونین ہو یا اس نوع کے دیگر ادارے‘ جو تقریباً یہاں کی ہر جامعہ میں مکالمے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں‘ سب کی بنیاد اسی نظریے پر ہے کہ معتبر دانشوروں کی آراء سنی جانی چاہئیں۔ مختلف نظریات سے وابستہ دنیا کے ہر کونے سے مفکرین‘ سیاستدان‘ مصنفین اور اہلِ قلم کو یہاں دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اپنا مؤقف پیش کریں۔ افتخار حیدر ملک ہی نے بتایا کہ اس سال آکسفورڈ یونین اپنی تاریخ کی دوسری صدی مکمل کر چکی ہے۔ یعنی یہ دو سو سال پرانا ادارہ ہے۔ ہمارے لیے یہ بات بھی لائقِ صد افتخار ہے کہ پروفیسر ملک پہلے ایشیائی باشندے ہیں جنہیں آکسفورڈ یونین کے بورڈ آف ٹرسٹیز کا رکن بنایا گیا ہے۔
یونین کی بلڈنگ کسی عجائب گھر سے کم نہیں جس میں گزشتہ دو سو سال کی تاریخ اور علم و ادب سے متعلق دستاویزات کو قرینے سے سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ یہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی خوبصورت ترین عمارتوں میں سے ہے جن کا رنگ اور نقشہ قدیم زمانوں کی درسگاہوں کی عکاسی کرتا ہے۔ داخل ہوتے ہی نیچے ایک وسیع ڈرائنگ روم ہے جہا ں اعلیٰ قسم کے کئی صوفے‘ چھت تک ایک ہی قسم کی مجلد کتابوں کی الماریاں اور ہر کونے میں چھوٹے صوفے اور درمیان میں چوکور میزیں ہیں۔ آپ سکالرز کو ادھر اُدھر اپنا لیپ ٹاپ رکھے کام کرتے یا کتابوں میں گم دیکھ سکتے ہیں۔ گیلریوں کے درمیان سے گھومتے ہوئے ہم لائبریری میں گئے تو ایک وسیع ہال میں کتابیں ہی کتابیں سجی ہوئی تھیں۔ اس نوع کی پرانی لائبریریوں‘ خصوصاً برطانوی لائبریریوں میں صدیوں پرانی لکڑی جس خوبصورتی سے سیڑھیوں سے لے کر دیواروں‘ الماریوں اور چھت تک استعمال کی گئی ہے‘ وہ ہنرمندی کی اعلیٰ مثال ہے۔ درمیان میں رکھی بھاری پایوں اور تختوں سے بنی میزیں منفرد حیثیت رکھتی ہیں۔ باہرسے تقریباً ہر پرانی عمارت پتھر سے بنی ہوئی ہے اور اندر ٹھوس خوبصورت لکڑی کا استعمال خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے۔ ماحول ایسا کہ بندہ صبح بیٹھ جائے تو شام کو ہی اُٹھ کر گھر کو جاتا ہے۔
آکسفورڈ یونین میں جب یونیورسٹی کھلی ہو تو ہر روز دو تین لیکچر‘ سیمینار اور بحث و مباحثے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے مخصوص کمرے بنائے گئے ہیں۔ یہاں ہر نامور شخصیت جس نے کوئی لیکچر دیا ہے‘ کی تصویر کسی دیوار پر لگی نظر آتی ہے۔ یہاں میلکم ایکس 1964ء میں آئے تھے۔ جنوبی افریقہ کے مرحوم بشپ ٹوٹو‘ جنہیں میں برکلے کے ایک جلسے میں سننے کا اعزاز رکھتا ہوں‘ کی یہاں آمد ہوئی۔ ہر ملک کے مشاہیر اَب بھی آتے ہیں اور انہیں اپنی بات کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ آکسفورڈ یونین تو صرف ایک ادارہ اور لائبریری ہے۔ بلا مبالغہ یہاں سینکڑوں چھوٹی بڑی لائبریریاں ہیں اور یہاں کا ہر کالج اپنے طور پر ایک جامع ادارہ ہے اور اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ ان کے نام کچھ برطانوی شہریوں اور کچھ مذہبی رہنماؤں کے ناموں پر ہیں۔ آکسفورڈ نے کسی اور یونیورسٹی کی نسبت اس ملک اور باقی دنیا میں بھی سب سے زیادہ صدر اور وزیر اعظم پیدا کیے ہیں۔ آخر کوئی تو بات ہے کہ اس کے گریجویٹس دنیا کے ہر میدان میں اپنا مقام بناتے رہے ہیں۔