انتخابات کسی بھی ملک میں ہوں ‘ انتہائی سنجیدہ اور حساس معاملہ سمجھے جاتے ہیں ۔ ان کی اہمیت کا اندازہ صرف اس با ت سے نہیں لگا سکتے کہ ایک منتخب ‘ نمائندہ حکومت وجود میں آئے گی‘بلکہ انتخابات قوموں کی سمت طے کرتے ہیں ‘ ان سے استحکام پیدا ہوتا ہے اور بے یقینی کے بادل چھٹ جاتے ہیں ۔ سب سے بڑا اور اہم مسئلہ اقتدار کی جائزیت اور اس کا پرُامن طریقے سے ایک سیاسی جماعت یا سیاسی اتحاد سے کسی دوسری کو منتقل کرنا ہے ۔ اگر سابق جماعت عوام کی نظروں میں اچھی کارکردگی دکھاتی ہے تو لوگ دوسری‘ تیسری اور چوتھی بار بھی اُسے ہی تائید بخشتے ہیں ۔ اس طرح جمہوریت کی گاڑی چلنا شروع ہوجاتی ہے اور جب نمائندہ حکومتیں اپنے منشور کے مطابق قانون اور آئین کے دائرے میں احتساب اور جواب دہی کے اصولوں پر عمل پیرا رہتی ہیں تو جمہوری کلچر فروغ پاتا ہے ۔ شرط صرف یہ ہے کہ انتخابات کے عمل پرلوگوں کو اعتماد ہو کہ وہ شفاف اور آزادانہ ہیں ‘ کوئی طاقتور حلقوں کا پسندیدہ نہیں‘ سب کے لیے سیاسی میدان ہموار ہے اور کسی کو باہر رکھنے کی کوئی نیت نہیں ۔ جو اس وقت سیاسی ماحول بنا ہوا ہے ‘ اور جس قسم کے انتخابات کے لیے قانونی اور انتظامی فیصلے ہوچکے ہیں ‘ ان کے بارے میں ہمارے ذہن میں بظاہر تو کوئی بدگمانی نہیں ‘ مگر لوگوں میں جوش وجذبے ‘ سیاسی گہما گہمی اور اعتماد کی کمزور فضا دیکھ کر خدشات اور خطرات کا امڈتا ہوا طوفان نظر آرہا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ ہماری تشویش آپ کی نظر میں بلاجواز ہو‘ لیکن یہ درویش بارہواں الیکشن دیکھ رہا ہے ۔ ایوب خان کے زمانے کے دو انتخابات کو شامل کریں تو شاید یہ چودہواں ہوگا۔ وہ تاریخی انتخابی معرکہ جس کے بعد اقتدار اکثریتی جماعت کو منتقل نہ ہوا‘ اور پھر ایسا سیاسی بحران پیدا ہوا کہ ملک دولخت ہوگیا ۔ اُس میں ہم نے سال بھر ایک سیاسی جماعت کی مہم چلائی اور پولنگ ایجنٹ کی ذمہ داری بھی نبھائی۔ اس کے بعد تین انتخابات پر تحقیقی مقالے بھی لکھے جو امریکہ کے پیشہ ور مجلوں اور کتب خانوں میں کہیں دفن ہیں ۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ ہم ایک ہی فلم اتنی بار دیکھ چکے ہیں کہ سب مکالمے ‘ کہانی کا پس منظر ‘ اداکار ‘ ہدایت کار‘ مسخرے اور سیاسی موسیقی کی دھنیں تک یاد ہیں ۔ خدشات کے بارے میں اشارہ کوئی صفحہ کالا کرنے کے لیے نہیں ‘ تاریخ کے تناظر میں انتباہ مقصود ہے ۔
انتخابات کے بارے میں کوئی تجزیہ یا تبصرہ پیش کرنے کے لیے سیاسی ‘ سماجی اور اقتصادی ماحول کو سامنے رکھنا ایسے ہی ہوتا ہے جیسے کسی کتاب کا ابتدائیہ۔ اس بارے میں چند گزارشات ہیں لیکن کسی بھی قاری کے لیے ان میں کوئی نئی بات نہیں ۔ سیاسی تقسیم ‘ انتخابات کا زمانہ ہو یا مابعد کا سیاسی کھیل‘ ایک فطری عمل ہے ۔ سیاسی مکالمے کے لیے میدان سجتا ہے تو کئی گروہ‘ جماعتیں اور دھڑے اپنے رنگین جھنڈے ‘منفرد نعرے اور آسمان سے تارے توڑ لانے والے منشور لے کر جلسوں ‘پریس کانفرنسوں اور تقریروں میں شعلہ بیانیاں فرماتے ہیں ۔ یہاں اور پختہ سیاسی ماحول میں فرق یہ ہے کہ تقسیم پروگراموں ‘ عوامی خدمت‘ کارکردگی اور لیڈروں کی ساکھ کی بنیاد پر ہوتی ہے ۔ نظریاتی سیاست میں اگر کوئی ایک رنگ رہ گیا ہے تو وہ قومیت پرستی ہے۔ جس طرح بھارت میں ہندو قومیت اور یورپ اور امریکہ میں اس نوع کی قدامت پسند جماعتیں جو اقلیتوں اور تارکین وطن کو نشانے پر رکھے ہوئے ہیں ۔ ہمارے ہاں تقسیم لسانی ‘ فرقہ ورانہ‘ مذہبی ‘ علاقائی اورسب سے بڑھ کر شخصی ہے ۔ ابھی ایک نوجوان لاہور کے شریفوں کی بھد اُڑاتا دکھائی دیتا ہے۔ تو کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سیاسی پسماندگی نے ہمارے معاشرے کا نصف صدی سے زیادہ عرصے سے احاطہ کیا ہوا ہے۔ آپ سب جماعتوں کے منشوروں کو اکٹھا کر کے دیکھ لیں ‘ بغور پڑھیں‘ زبان اور الفاظ کے پیپر پھر میں نہ جائیں تو معلوم ہوگا کہ سب ایک جیسے ہیں ۔وعدوں ‘اعلانات اور ناقابلِ عمل نعروں کا ملغوبہ ہیں۔ایک لحاظ سے یہ سیاسی تقسیم دو طرفہ ہے۔ ایک طرف تو ہماری دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں جن کی لیڈرشپ اور مرکزی ساخت موروثیت پر مبنی ہے اور کئی بار حکومتیں کر چکی ہیں ۔دوسری طرف ایک معتوب جماعت ہے جسے بطور ایک جماعت اور ایک نشان کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں مل سکی۔ قانونی اور آئینی ماہرین ہی بہتر سمجھتے ہیں کہ انصاف اور آئین کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ایسا کرنا کیوں ناگزیر تھا۔ ہماری نگاہ تو صرف سیاسی ماحول پر ہے کہ لوگ اس بارے میں کیا سوچتے ہیں اور ان کی نظر میں وجوہات کیا ہیں۔
اچھی بات ہے کہ تحریک انصاف نے تمام تر مشکلات ‘ رکاوٹوں اور قانونی اور غیر قانونی پیچیدگیوں کے باوجود میدان نہیں چھوڑا۔ گزشتہ انتخابات کی سب سے بڑی پارٹی مبینہ دباؤ کے پیش نظر بائیکاٹ کر دیتی تو ا نتخابات کی جائزیت پر بہت کاری ضرب لگتی ۔سینکڑوں منفرد انتخابی نشانات اور ماحول میں اپنے خلاف کشیدگی کی شدت کے باوجود آزاد امیدواروں کی حیثیت میں بھی روایتی سیاسی جماعتوں کا مقابلہ پرچی کی حد تک زبردست انداز میں کرنے کی استعداد اس پارٹی میں باقی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ شفافیت کے بارے میں عوام کے ذہنوں میں جو شکو ک و شبہات ہیں وہ دور ہونے چاہئیں۔ نو دن باقی ہیں‘ اس دوران دیکھیں گے کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اپنی مہم کیسے چلاتے ہیں اور کتنے آزاد ہیں اور آزاد شہریوں کے ووٹ کو آٹھ فروری کو کتنی عزت اور توقیر ملتی ہے۔ ملک ابھی ایک چوراہے پہ کھڑا ہے ‘کوئی سمت مقرر نہیں اور اس کے سفر کا دوبارہ آغاز کوئی بھی سمت اختیار کرسکتا ہے ۔
انتخابات کی آزادی‘ شفافیت اور سب کو یکسا ں موقع فراہم کرنے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن آف پاکستان اور اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ ہماری نوکر شاہی کی بھی ہے۔ یہ سب آئینی اور ریاستی ادارے ہیں۔ ہم صرف استدعا ہی کر سکتے ہیں کہ یہ ملک ہم سب کا ہے۔ ہم نے تو یہاں جینا اور مرنا ہے۔ اُڑتے پھرتے سیاسی پرندوں کی بات اور ہے۔ جہاں کہیں ان تین اداروں نے انتخابات کرانے کی ذمہ داری قومی احساس اور اس کے دور رس سیاسی اور اقتصادی نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے پوری کی ہے‘ ان ملکوں میں سیاسی استحکام پیدا ہوا ہے‘ ترقی کا عمل آگے بڑھا ہے‘ غربت میں کمی واقع ہوئی ہے اور عوام اور ریاست کے درمیان رشتہ مضبوط ہوا ہے۔ میری نظر میں ہمارے ملک اور عوام کے مستقبل کو مخدوش بنانے کی اس سے بڑی کامیاب سازش نہیں ہو سکتی کہ بار بار آزمائے ہوئے سیاسی گھرانوں کو قابلِ اعتراض حربوں اور ترجیحی سلوک کے ساتھ قانونی جائزیت کی خلعت پہنانے کے لیے ریاست کے مفادات کو قربان کیا جائے۔یہ مفاد اس پر منحصر ہے کہ انتخابات کی ہم میں سے سب کو یکساں آزادی ہو۔ مقدمے بازی ‘ پکڑ دھکڑ اور گھر یا جیل سے باہر نکلتے ہی کسی نئے مقدمے میں گرفتاریوں سے پاکستان کے عوام اور دنیا میں انتخابات کی شفافیت کے بارے میں مثبت تاثرپیدا نہیں ہوگا۔جس خدشے کا اوپر ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی بھی مسلط کردہ سیاسی اتحاد ملک میں تقسیم کو مزید بڑھا دے گا ‘ اوراستحکام پیدا نہیں کر سکے گا ۔حقیقی عوامی حمایت سے کھوکھلی قیادت کو نعرے بازی کے لیے قومی میڈیا اور سرکاری ذرائع سے تیار کردہ جلسہ گاہیں تو میسر ہوں گی لیکن عوام کے دل اور دماغ ان کی طرف نہیں ہوں گے۔ دہرانا چاہتا ہوں کہ ابھی وقت ہے کہ انتخابات کی ساکھ کو مزید مجروح ہونے سے بچایا جائے۔ انتخابات کی روح یہ ہے کہ عوام کو اعتمادہو کہ ان کے نتیجے میں بننے والے حکومت انہی کے منتخب کردہ نمائندوں پر مشتمل ہے۔ اگر اعتمادنہ رہا تو پھر وہی ہوگا جو ہم دیکھتے آئے ہیں اور دیکھ رہے ہیں۔