کئی زمانے گزر گئے‘ مگر کچھ اچھی روایات ہمارے معاشرے میں ابھی تک قائم ہیں۔ ہم اس خطے کے لوگ روایت پسند ہیں‘ قدیمی معاشروں کی شناخت اُن کے اچھے رسم و رواج‘ ثقافتی رنگوں اور تہواروں سے ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ صنعتی معاشروں میں روایات مشینوں اور مشینی زندگی کے نذر ہو چکی ہیں۔ وہاں صرف ذات‘ انفرادیت اور نجی خلوت کے نام پر لوگ تنہائیوں میں سکون تلاش کرنے کی جستجو میں ہوتے ہیں۔ تفریح کے مواقع باہر ہر طبقے کے لیے بہت ہیں‘ مگر ہجوم اور شغل میلوں کے ہنگاموں میں بھی لوگ تنہائی محسوس کرتے ہیں۔ گہماگہمی میں بھی انسان اکیلا ہوتا ہے۔ متعدد مواقع پر ایسی زندگی کا وسیع تجربہ ہوا ہے لیکن جو رونق اپنے گائوں‘ محلوں اور شہروں میں ہے‘ وہ مغرب کی تیز زندگی میں کم ہی نظر آئی ہے۔ رمضان کے مہینے میں مسلمان ہر چھوٹے بڑے مغربی شہر میں افطار کا بندوبست کرتے ہیں‘ جو صرف روزہ داروں تک محدود نہیں ہوتا‘ کوئی وہاں سے گزرتا شخص بھی کھانا لے جا سکتا ہے۔ مسجدوں میں بھی وہاں مغرب سے بھی پہلے لوگ گھروں سے کھانا پکا کر لے جاتے ہیں۔ غیر ملکی طالب علموں کے لیے تو ہر روز عید کا دن ہوتا ہے۔ کچھ مسلمان گروہ تو غیر مسلموں میں زیادہ کھانا تقسیم کرتے ہیں۔ مل کر کھانے میں ویسے بھی مذہبی شناخت کا اخلاقی اعتبار سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا‘ اور نہ ہی کوئی فرق روا رکھا جاتا ہے۔ یہی روایت میں بچپن سے دیکھتا آیا ہوں۔ برا نہ مانیں تو یہ قصہ تقریباً ستر برس پہلے کا ہے۔ ہمارے گھر کے سامنے جامع مسجد میں مولوی حیات موذن بھی تھے اور نماز کی امامت بھی کرتے تھے۔ صبح بچوں کو کلام پاک کا درس دیتے‘ اور شام کو ماہِ رمضان میں مٹی کے بہت بڑے مٹکے میں گڑ کا شربت تیار کرتے۔ اُس میں پانی رات کو بھر کر رکھتے تاکہ اگلی شام تک ٹھنڈا رہے۔ گرمیوں کے وہ سال ابھی تک یاد ہیں۔ اُس زمانے میں برف نہ ہم نے دیکھی تھی اور نہ اس کے بارے میں اپنے آبائی علاقے میں سنا تھا۔ گڑ کے شربت سے گرمیوں کی شام کو پیاس بجھانے کا لطف اور ذائقہ کبھی نہیں بھول پائوں گا۔ تقریباً ہر گھر سے رمضان کے مہینے میں اچھے سے اچھا سالن تیار ہوتا‘ اور ایک پلیٹ اور دو تین روٹیاں افطار سے پہلے مسجد میں بھیج دی جاتیں۔ بچوں کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ ہوتی تھی۔ اذان ہوتے ہی سب لوگ ہلکی سی افطاری گڑ کے شربت سے کرتے اور نماز کے بعد اکٹھے کھانا کھاتے۔ اس میں سماجی ہم آہنگی کی جھلک دکھائی دیتی۔
ہماری اس پرانی مسجد اور دیگر مساجد میں یہ قدیم روایت ابھی تک قائم ہے۔ خود سے کبھی رمضان میں جانے کا گزشتہ کئی سالوں سے اتفاق نہیں ہوا‘ مگر دوستوں اور عزیزوں کے ذریعے خبر تو رکھتے ہیں۔ گڑ والے شربت کا تو نام بھی کوئی نہیں لیتا‘ اب رنگ برنگی بوتلوں میں برف کے پانی میں بنائے جانے والے شربت کے علاوہ سوڈے کی بوتلوں کی بھی بھرمار ہوتی ہے۔ وہاں افطار کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہو چکی ہے‘ مگر کھانا بدستور اردگرد کے محلوں سے اُسی طرح آتا ہے اور اکٹھے افطاری کی روایت قائم ہے۔ کچھ لوگ وقتاً فوقتاً دیگیں پکو ا کر مسجدوں میں افطار کے وقت لے آتے ہیں اور گھروں میں بھی تقسیم کرتے ہیں‘ اور پھر روزہ قربانی ہی تو سکھاتا ہے۔ شاید یہ باتیں آپ کو معمولی محسوس ہوں‘ و یسے تو معمولی سی ہیں‘ عام روزمرہ کی زندگی کی‘ مگر ماہِ رمضان کی شاموں میں ان کی لذت صرف وہی محسوس کر سکتے ہیں جو خود بھی افطار میں شریک ہوتے ہیں اور غریب افراد کو شوق سے کوئی اچھا کھانا کھلا کر خوش ہوتے ہیں۔ ہماری روایتی مساجد میں امیروں اور غریبوں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ سب برابر‘ اور جب سب ایک ہی دستر خوان پر کھا رہے ہوتے ہیں تو وہ لمحے مجھے کسی اور دنیا میں لے جاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر انسانوں کی پیدا کی ہوئی تفریق اور تقسیم کی مصنوعی لکیریں مٹتی محسوس ہوتی ہیں۔ ایسے مواقع پر اپنی تہذیب پر فخر ہونے لگتا ہے۔ ذاتی طور پر پشتون قبائلی علاقوں کی روایت مجھے زیادہ پسند ہے کہ زمیندار اور خان بھی اپنے مزاعوں اور کام کرنے والوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر کھانا اور ہر روز تو کہیں ممکن نہیں‘ مگر کم از کم افطاری کے تقدس کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فرق مٹ جانا چاہیے۔
خوشی کی بات ہے کہ ہماری جدید ترقی پسند جامعات میں بھی اجتماعی افطار کی روایت مضبوط ہے‘ بلکہ اس کا سلسلہ زیادہ وسیع ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ برسوں سے اس ماہ ایک زبردست نظارہ دیکھتا آیا ہوں۔ مسجد سے ملحق بڑے دالان میں عصر کی نماز کے بعد صفیں بچھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ پھر صفوں پر قطار اندر قطار رنگ برنگے پلاسٹک کے گلاس خوب صورت ترتیب میں رضاکار رکھ دیتے ہیں۔ پلیٹیں بھی ساتھ اور کئی رنگوں میں شربت اور سکنجبین کے جگ نظر آتے ہیں۔ کجھوروں کے بغیر تو کوئی افطاری نہ شروع ہوتی ہے نہ مکمل۔ یہاں ہر روز ایک دو مخیر حضرات چند پکی ہوئی دیگوں کا اہتمام کرتے ہیں‘ یا پھر عطیات سے یہ بندوبست کیا جاتا ہے۔ سینکڑوں طالب علموں کو اکٹھا افطار کرتے دیکھتا ہوں تو مولوی حیات علی کی افطاری کے دن یاد آ جاتے ہیں۔ دیگر وسیع لانوں اور کھیل کے میدانوں میں اسی طرح سینکڑوں کی تعداد میں ہر جنس کی ٹولیاں اکٹھے افطار کرتے دیکھتا ہوں۔ ابھی سورج غروب ہونے میں ایک گھنٹہ باقی ہوتا ہے کہ یہ نوجوان کھانے پینے کی چیزیں لیے ڈیرے جمانا شروع کر دیتے ہیں۔ عجیب منظر ہوتا ہے۔ ایک طرف ہزاروں پرندے چہچہا تے ہوئے سورج کی آخری کرنوں سے لطف اٹھانے میدان کے ایک کونے میں جمع ہو رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف انسان افطاری کے انتظار میں اپنے اپنے دستر خوان لگا رہے ہوتے ہیں۔ ہم مسافروں کی طرح دونوں کو دیکھتے رہتے ہیں‘ اور کرکٹ گرائونڈ کے چکر پورے کرنے کی فکر میں متحرک رہتے ہیں۔
یہاں ہمارے دوستوں کا افطاری گروپ تو نہیں مگر واکی ٹاکی گروپ ضرور ہے‘ جو واک سے زیادہ باتوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ کھانے پینے میں۔ کھانے میں گوشت کے سو ا کوئی ڈش ان بزرگوں کو پسند نہیں۔ بزرگوں والی بات صرف ان کی عزت و توقیر کے لیے‘ عمر کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔ کسی نہ کسی بہانے وہ بھی کئی مرتبہ افطار کے وقت پکوڑے‘ جلیبیاں‘ سموسے اور مٹھائیاں لے آتے ہیں۔ واک کے بعد ہماری روزانہ کی مجلس ایکسرسائز بنچوں پر لان میں ہوتی ہے‘ اور وہاں افطاری کا بندوبست ہوتا ہے۔ روزانہ تو نہیں مگر ہفتے میں ایک دو دن تو ابھی تک ایسا ہوتا ہی رہا ہے‘ کوئی نہ کوئی سرپرائز کا پیغام بھیج کر سموسے‘ پکوڑے اور جلیبیاں لے آتا ہے۔ اتنی جلیبیاں تو درویش نے پورے سال میں نہیں کھائیں جتنی ابھی تک نصف رمضان میں کھا چکا ہوں۔ تازہ کراری جلیبیاں کسے پسند نہیں‘ اور افطار کے وقت تو ہاتھ روکنا ایسا ہی محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی ریلوے انجن کو دونوں ہاتھوں سے روکنے کی کوشش میں ہو۔ دوستوں‘ ہمسایوں اور عزیزوں کے ساتھ مل بیٹھنے اور افطاری کرنے میں جو مزہ ہے وہ بڑے بڑے کھانوں میں کہاں۔ معاشرہ جان دار ہے‘ اور ہماری ثقافت کے کئی خوش نما رنگ ہیں۔ ان میں افطاری کا ایک اپنا مقام ہے۔