ہم اور ہمارا ملک انتہائی مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ حالات کی سیاہ رات نے نہ جانے کب سے تاریکی کی چادر میں لپیٹ رکھا ہے اور ابھی تک اس سے نکل نہیں پائے ہیں۔ خیال تھا کہ انتخابات شاید بحرانی کیفیت سے نجات دلائیں‘لیکن جو نتائج نکل سکے‘ وہ سولہ ماہی اتحادی حکومت سے کوئی مختلف نہیں۔ حکومتیں بن چکیں‘ اور جس طرح ان کی ساخت سے ظاہر ہوتا ہے‘ کھوکھلی جائزیت ریاستی طاقت کے بغیر شاید چند ہفتے بھی نہ چل پائے۔ ہمارے سامنے اندرونی مسائل کا کوہِ ہمالیہ سے بھی اونچا پہاڑ کئی دہائیوں کی غلطیوں‘ گمراہیوں اور نفرتوں سے لبریز سیاسی کشمکش کے سبب وجود میں آچکا ہے۔ کوئی ادارہ مؤثرکام کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ نظامِ عدل سے لے کر نیچے کی سطح پر عام سرکاری اداروں میں جو کچھ ہورہا ہے‘ وہ نہیں ہونا چاہیے۔جو ان کے قانونی دائرہ کار میں بنیادی فرائض کے امور ہیں‘ انہیں نبھانے کی استعداد زوال پذیر ریاست کی عکاسی کرتی ہے۔
ہر سیاسی جماعت کے لوگ یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ ہماری معیشت کی تباہی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ہے مگر اس کی ذمہ داری اپنے سیاسی مخالفین پر ڈالتے ہیں۔ صرف معیشت ہی نہیں‘ ریاستی ادارے بھی اپنی فعالیت کھو بیٹھتے ہیں‘ اگر کوئی ملک اپنی داخلی سیاسی جنگوں سے نجات نہ حاصل کرپائے۔ 1970 ء کے انتخابات کے بعد جو سیاسی جنگ چھڑی اور جو خطرناک نتائج ہم نے دیکھے‘ اس سے کبھی سبق حاصل نہ کیا۔ جمہوری ملک کی روایت ہوتی تو اقتدار اکثریتی جماعت کو منتقل ہوجاتا اور صوبوں میں جن جماعتوں کی اکثریت تھی‘ وہ حکومتیں بناتیں۔ سب کچھ کھونے کے بعد بھی ہم ہوش میں نہ آئے۔ نیا پاکستان بنانے کا ابتدا میں جذبہ تو تھا مگر تدبر‘ حکمت اور قائدانہ صلاحیت ہمیں نہ مل سکی جس کی توقع تھی۔ پہلے تو صنعتوں‘ کارخانوں‘ مالیاتی اداروں اور نجی تعلیمی اداروں کو سرکاری تحویل میں لے کر تباہ و برباد کردیا‘ا ور پھر ساتھ ہی حزبِ اختلاف کی بلوچستان حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ سرحد حکومت نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ ہم نے اگلے پانچ برس انہی دوسرحدی صوبوں میں مسلح جدوجہد کا سامنا کیا۔ میرے نزدیک اداروں کی تباہی کا آغاز تو اسی دور میں ہوچکا تھا۔ مگر باقی کسر 1977ء کی انتخابی دھاندلی‘ عوامی تحریک اور پھر تیسری آمریت کے دس سالوں نے پوری کردی۔ اپناملک تو نہ سنوار سکے‘ لیکن افغانستان کو آزاد کرانے کی جنگ میں کود پڑے۔ وہ دور ختم ہوا اور دوسرا جمہوری دور آیا تو پرانی سیاسی جنگ کے اثرات نمایاں تھے۔ سیاست میں تقسیم بھٹو خاندان اور ضیاء الحق کے حامی دھڑوں کے درمیان رہی۔ ان میں جس کی بھی حکومت بنی‘ اس نے دوسروں کو دبوچنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ان باریوں کی حکومتوں کا نمایاں عنصر اداروں‘ خصوصاً عدلیہ اور نوکر شاہی کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا تھا۔ دیگر ادارے بھی آئینی اور قانونی غیر جانبداری کھو بیٹھے۔ بالائی طبقے نے کرپشن‘لوٹ مارشروع کردی تو زیر یں سطحوں کے حکومتی اداروںمیں بھی یہ روش ایسا زہر گھول گئی کہ اب تک ان کی بحالی ممکن نہیں ہوسکی۔
ایک اور آمریت آئی او ر ساتھ ہی ایک اور جنگ کا افغانستان میں آغاز ہوگیا۔ ہم بیس سال تک اس جنگ میں امریکہ کے حامی رہے‘ا ور ساتھ ہی طالبان کے رہنمائوں کو بھی پناہ دی تاکہ کوئی دشمن ملک مستقبل میں افغان سرزمین کو ہماری سلامتی اور امن کے خلاف استعمال نہ کرسکے۔ حیرت ہے کہ جنہیں ہم نے امریکی جنگ سے تحفظ فراہم کیا‘ وہی آج ہمارے دشمنوں کو پناہ دیے ہوئے ہیں۔ ہر روز دہشت گردوں کے حملوں میں ہمارے سلامتی کے اداروں کے افسراور جوان شہید ہورہے ہیں۔ داخلی حالات کو دیکھیں تو روزانہ کوئی نہ کوئی دل دہلادینے والی خبر ملک کے کسی نہ کسی کونے سے آتی ہے۔ ڈاکا زنی‘ اغوا برائے تاوان‘ عورتوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات نے معاشرے کو بے چین کررکھا ہے۔ ہر طرف مایوسی اور اضطراب کی کیفیت ہے جس میں روزمرہ بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری نے مزید اضافہ کردیا ہے۔ ہمیں تو کوئی واضح لائحہ عمل نظر نہیں آرہا کہ موجودہ حکومت پاکستان کو اس بھنور سے نکال سکے گی۔ ابھی تو وہی پرانے اعلانات ہیں‘ کچھ نیا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ یہ بھی سب کہتے ہیں کہ مدت سے جمع ہوئے مسائل سے نکلنے کے لیے مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ میرے نزدیک کوئی فیصلہ مشکل نہیں ہوتا‘ اگر اس سے کوئی مسئلہ حل ہوتا ہو۔ اس بارے میں پہلا کام تو پاور سیکٹر میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے کہ بجلی اتنی مہنگی نہ ہو کہ ہماری صنعتیں دیگر ممالک کی مصنوعات کے ساتھ مسابقت میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی موجودہ دور میں بجلی اور پانی کی فراہمی ہے تاکہ صنعت اور زراعت ترقی کرسکیں۔ سروسز سیکٹر اور نالج اکانومی کے لیے ٹیکس کے شعبے میں جو اصلاحات ضروری ہیں اور جہاں جہاں نوکر شاہی نے رکاوٹوں کے لیے ناکے لگارکھے ہیں‘ انہیں ختم کرنا کتنا مشکل فیصلہ ہوسکتا ہے؟ ایک چیز وژن ہے‘ کہ آئندہ آنے والے دنوں‘ مہینوں اور سالوں کے لیے ترقی کے کیا اہداف ہیں‘ ان کے لیے وسائل کی فراہمی کا کیا بندوبست کیا گیا ہے اور اس کی رفتار کا جائزہ لینے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے۔ ابھی تک ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا‘ جیسا کہ کئی ممالک نے اپنی حکمت عملی قومی ترقی کے ویژن کو سامنے رکھتے ہوئے بنائی۔ ابھی تک گزشتہ کئی حکومتیں یہاں ایسا نہ کرسکیں۔تمام تر زورمخالفین کو دبانے‘ قیدمیں رکھنے اور مقدمات کی بھرمار کرکے انہیں کچہریوں اور جیلوں کا چکر لگوانے میں صرف ہوا۔ احتساب کے اداروں کو بدعنوانی اور رشوت ستانی ختم کرنے کے بجائے سیاسی مقاصد کے تابع رکھا گیا۔
معلوم ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہم ابھی تک سیاسی کشمکش اور باہمی لڑائیوں سے چھٹکارا نہیں حاصل کرسکے اور نہ ہی سیاسی تضادات اور تصادم کا لامتناہی سلسلہ رکا ہے۔ ایک طرف ریاستی ادارے اور ان کی موروثی سیاسی گھرانوں کی سرپرستی ہے اور دوسری طرف تیسری طاقت کی عوام کی نظروں میں پذیرائی ہے۔ جب تک ہم اس تضاد کو قومی ہم آہنگی اور اتفاقِ رائے سے تبدیل نہیں کرلیتے‘ ریاست کی طاقت اور سڑکوں پر لوگوں کے ہجوم میں ٹکرائو جاری رہے گا۔ ایسی صورتحال کسی بھی فریق کے حق میں نہیں ہوسکتی۔ داخلی حالات‘ مسائل کے انبار اور ہمارے وسیع تر خطے میں نئی عالمی صف بندیوں اور جنگوں کے خطرات کا تقاضا یہ ہے کہ سب مفاہمت کا راستہ اختیار کریں۔ اس وقت کی معتوب جماعت اور اس کے رہنمائوں کو بھی بھاری ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے تصادم کی فضا کو مزید گرم کرنے کے بجائے اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔عوامی طاقت کے زور پر پرانی طرز کے انقلابوں کا زمانہ گزر گیا۔ میدان کو مزید گرم رکھا گیا تو جو لولی لنگڑی جمہوریت چل رہی ہے‘ ڈر ہے کہ اُس کی بساط نہ لپیٹ دی جائے۔ دوسری جانب جو طاقت کے اصل سرچشمے ہیں‘ انہیں بھی عوام کی رائے کا احترام کرنا ہوگا کہ ان کی حقیقی حمایت کے بغیر ریاستی ڈھانچہ تمام ترگھن گرج کے باوجود وہ قوت حاصل نہیں کرسکتا جو موجودہ حالات کے تناظر میں ہمارے ملک کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ دہائیاں گزر گئیں‘ ہمیں بکھیرنے‘ بگاڑنے اور لڑانے والے تو آتے جاتے رہے ہیں لیکن آپس میں جوڑنے والا کوئی ایک بھی رہنما ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں۔ داخلی اور علاقائی حالات بگڑے تو شاید ہمارے تضادات میں بھی اضافہ ہوجائے اور پھر وقت ہاتھ سے نکل جائے۔