دنیا کے چھوٹے بڑے‘ مغربی اور کچھ ہمسایہ ممالک کے معاشی‘ سماجی‘ صنعتی اور جدید ٹیکنالوجی کے میدانوں میں منصوبے اور ان پر کام کرنے کی رفتار دیکھ کر دل میں تو خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے کہ ہم کچھ کریں یا نہ کریں‘ زیادہ تر انسانی آبادیاں خوشحال‘ صحت مند‘ باشعور اور پُرامن ہوں گی۔ میں ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں جو ایک زرعی معاشرے میں پیدا ہوئے‘ کئی میل پیدل چل کر سکول جاتے تھے‘ جنگلوں میں سے گزرنا ہوتا‘ کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر توازن قائم رکھتے‘ سفر طے کرتے‘ لنچ سوکھی روٹی اور پیاز سے کرتے۔ ہم خوش تھے‘ اطمینان تھا۔ اُس سادہ‘ خود کفالتی طرزِ زندگی کے بارے میں سوچتے ہیں تو آج بھی جی اُس کی طرف مائل ہوتا ہے۔ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں ایسے لوگ جدید ترین صنعتی دور میں موجود ہیں جو اس کھوئی ہوئی جنت کو حاصل کرنے کے لیے اپنے بڑے بڑے عہدے‘ کاروبار‘ دولت اور شہری زندگی کو ترک کرکے جنگلوں‘ صحرائوں اور دیہات میں خود اُگائو اور خود کھائو کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے اپنا رشتہ فطرت اور زمین سے جوڑ رہے ہیں۔ شہروں میں بھی ایک نئی سماجی اور سیاسی تحریک‘ جس نے تقریباً نصف صدی پہلے دنیا کو یہ باور کرانے کی ابتدا کی تھی کہ جس رفتار سے‘ جس نوعیت کی صنعتیں لگا کر جو مادیت پرستی کے معیار قائم کر رہے ہیں اس سے اس خوبصورت کرۂ ارض کو ہم تباہ کر دیں گے۔ سیاست دان‘ صنعت کار اور فطرت کا قدرتی حسن تباہ کر کے دولت کا انبار لگانے والے سرمایہ دار یہ بات سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ہر ملک میں ایسے گروہوں کا تعلق حکمران طبقات سے ہوتا ہے اور وہ اپنا کام نکالنے کے لیے انہیں بھی ماحول‘ زمین اور معاشرے کی بربادی کے دھندے میں شراکت دار بنا لیتے ہیں۔ سب کے وارے نیارے‘ مگر عام لوگ اس کی بھاری قیمت نسلوں تک ادا کرتے ہیں۔ آپ صرف اپنے ہی ملک میں گزشتہ تیس‘ چالیس سالوں میں ہونے والی دھاندلیوں اور لوٹ مار کی طرف تھوڑا سا دھیان دیں تو ہر شہر کے اردگرد زرعی زمینوں اور خوبصورت پہاڑیوں پر ترقی کے نام پر سوسائٹیوں کی بھرمار دیکھ کر اس سیاست اور سرمایہ داری کے گٹھ جوڑ کے راز‘ جو اَب راز نہیں رہے‘ کے فیوض و کرامات دکھائی دیں گے۔
مغرب میں جس تحریک کا ذکر کیا‘ اب زور پکڑتی جا رہی ہے۔ لوگ جو حکومتیں منتخب کرنے کا اختیار رکھتے ہیں‘ ان کی ترجیحات زرعی زمینوں‘ فارموں‘ دریائوں‘ ندی نالوں اور قدرتی جنگلات کو ان کی فطری صورت میں قائم رکھنا ہے۔ لندن شہر کا ساٹھ فیصد رقبہ جنگلات اور پارکوں پر مشتمل ہے۔ نیویارک شہر کے وسط میں سینٹرل پارک ہے جس میں ایک اینٹ بھی مزید نہیں لگائی جا سکتی۔ دنیا کے ان اور دیگر شہروں میں کسی پرانی عمارت کی جگہ نئی عمارت کی تعمیر کو ایک سنجیدہ معاملے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کے لیے وسیع مشاورت‘ سیاسی اور سماجی اتفاقِ رائے اور مروّجہ قوانین اور قاعدوں کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ یہ تو معمول کی بات ہے کہ عام طور پر ایسا ہی کیا جاتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سے پاک نئے صنعتی دور کا آغاز نہیں بلکہ حیران کن پیش رفت ہو چکی ہے۔ اس سال امریکہ کی چالیس فیصد سے زائد پیداوار قابلِ تجدید توانائی سے ہوئی‘ ان ذرائع سے جن سے ذرہ برابر آلودگی پیدا نہیں ہوتی۔ یہ بڑھتی ہوئی رفتار خود امریکی حکومت کے لیے غیر متوقع ہے۔ کیلیفورنیا نے یہاں تک قانون بنا دیا ہے کہ اس دہائی کے آخر تک کوئی نیا گھر ایسا نہیں بنے گا جو اپنے لیے شمسی توانائی نہ پیدا کرے۔ آنے والے برسوں میں ترقی یافتہ دنیا کے شہروں میں ڈیزل اور پٹرول سے چلنے والی کوئی گاڑی نظر نہیں آئے گی۔ امریکی حکومت نے گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کو ترغیبات دی ہیں کہ آئندہ چند سالوں میں بڑے بڑے مال بردار ٹرک‘ کمرشل گاڑیاں اور بسیں روایتی ایندھن استعمال نہیں کریں گی۔ اس طرح میڈیکل سائنسز‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ مصنوعی ذہانت اور صحت مند خوراک کی پیداوار میں انقلاب برپا ہو رہے ہیں۔ یہ خیرہ کن تبدیلیاں خلا میں نہیں اور نہ ہی کوئی غیر مرئی طاقت پیدا کر رہی ہے۔ ہمارے جیسے انسان اپنے شعور‘ معاشرے اور فلاحی سیاست کے زور پر آگے بڑھ رہے ہیں۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ حکمران طبقات ہیں اور انہیں سہارا دینے کے لیے حکومتی نظام ہے جس میں نوکر شاہی‘ عدلیہ اور ریاستی ادارے ہیں جو ان کے اثر و رسوخ سے آزاد نہیں۔ وہ زمانہ گزر گیا جب ہم حکمرانوں کو دو یا اس سے زیادہ طبقات میں تقسیم کرتے تھے۔ یہ نیا اتحاد ضیاء الحق کے زمانے میں پیدا ہونا شروع ہوا تھا اور پروان چڑھتا ہوا آج وسیع‘ طاقتور اور گہرا ہوچکا ہے۔ جس میں ایسے کاروباری بھی ہیں کہ جن کے دھندوں کے بارے بات کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ مگر وہ اپنی دولت اور سیاسی طاقت کی بنیاد پر حکمرانوں میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ باریوں کے طویل دور میں بھی وہ کبھی ایک دوسرے سے مختلف نہیں تھے۔ اگر کوئی فرق ان موروثی خاندانوں کے کارندے ظاہر کرتے رہے تو صرف اس حد تک کہ وہ کیا تھے اور کیا سے کیا ہو گئے۔ ان کے درمیان مقابلہ نظریات‘ وژن اور جدید معاشی اور سماجی زاویوں میں نہیں‘ لوٹ کھسوٹ اور دولت کو محفوظ مقامات پر پُراسرار طریقوں سے چھپانے کا تھا۔ ایک نئی قیادت اُن کے خلاف کھڑی ہو گئی۔ عوام‘ خصوصاً نوجوانوں میں نیا شعور پیدا ہوا اور تبدیلی کا بیانیہ سامنے آیا تو روایتی سیاسی دھڑوں میں رقابتیں اور سیاسی دشمنیاں باہم پیار محبت میں تبدیل ہونے لگیں۔ خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں تو اتحاد میں اتنی برکت پیدا ہوئی کہ تیرہ جماعتوں کی مشترکہ حکومت بنی جو گزشتہ دو سال سے اقتدار میں ہے اور اب تازہ انتخابی جائزیت‘ جس کے بارے میں آپ سب جانتے ہیں‘ کے سہارے ہمارے ملک کی رونق ہے۔
دنیا تو نہ جانے کدھر جا رہی ہے‘ ہمارے حکمران طبقات سستی روٹی کے لالچ اور تنوروں کے دھویں سے ابھی تک باہر نہیں نکلے۔ لوٹ مار میں شراکت داری کی وسعت کو دیکھیں کہ نگران حکومتیں بھی اتحادیوں نے مرضی سے بنوائیں اور جو کچھ انہوں نے حزبِ اختلاف کے ساتھ کیا اور پھر کاشتکاروں کی تباہی کے لیے 30 لاکھ ٹن گندم بغیر کسی ضرورت کے درآمد کر لی۔ اس پر سب خاموش ہیں۔ کسے پتا نہیں کہ کون ذمہ دار ہے اور کس نے کیا کمایا ہے‘ مگر ابھی تک ایک پتا بھی نہیں ہلا۔ سستی روٹی کا بیانیہ اب کیسے پورا نہ ہو جب کاشتکار کی گندم سندھ اور پنجاب میں آڑھتیوں‘ سود خوروں اور سمگلروں نے سرکاری متعین کردہ قیمت سے ایک ہزار کم پر خرید کر لی ہے۔ یہ سطور لکھنے تک پنجاب میں ابھی تک محکمہ خوراک نے ایک من گندم بھی نہیں خریدی اور نہ ہی کہیں خریداری کے مراکز میں کوئی تدبیر دکھائی دیتی ہے۔ کاشتکاروں کا نقصان کھربوں میں ہے‘ اور اس لحاظ سے ہمارے خون پسینے کی کمائی کا دن دہاڑے یہ ڈاکا‘ مگر کس سے فریاد کریں‘ کس سے حساب مانگیں اور کہاں انصاف کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔ اور بھی تضادات نے ہمیں گھیر رکھا ہے‘ مگر اب تو یہ عوام اور حکمران طبقات کے مابین ہے۔ زہرہ نگاہ یاد آ رہی ہیں: 'سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے‘۔