جب کسی معاشرے سے انسانیت کی روح پرواز کر جائے‘ وہاں انسانوں کا کیا ذکر کرنا۔ انسان تو بہت ہیں‘ کروڑوں‘ بلکہ جس تیز رفتاری سے تعداد میں بڑھے ہیں‘ کوئی دوسرا ملک مقابلے پر آہی نہیں سکتا‘ مگر انسان کی قدر اسی تناسب سے گرتی گئی ہے۔ آبادی اور وسائل کا توازن نہ رہے‘ آبادی کے پھیلاؤ کو حکمران قومی مسئلہ خیال کریں‘ نہ وہ جو ہماری عاقبت کی باتیں زیادہ اور اس دھرتی پر زندگی گزارنے کی شاذ و نادر ہی کرتے ہیں تو انسانوں کی حالت قابلِ رحم ہی ہوگی۔
آج ان راندۂ درگاہ انسانوں کی بات کرتے ہیں جنہیں ہمارے معاشرے اور حکومتوں نے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ۔ دھتکارے ہوئے‘ نشے کی لت میں مبتلا‘ پارکوں‘ بازاروں اور زیادہ تر مزاروں کے اردگرد سڑکوں کے کنارے زندگی گزارتے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ اسلام آباد کا وہ علاقہ جہاں ہماری رہائش ہے‘ ایسے لوگوں سے بہت دور‘ ناقابلِ رسائی ہوگا کہ شہرِ اقتدار ہونے کے حوالے سے حکومتوں‘ نوکر شاہی اور اداروں کی کارکردگی بہتر ہو گی۔ گزشتہ چند برسوں میں بہت کچھ تبدیل ہوتے دیکھا ہے۔ ہماری گلی کے سامنے ایک پارک ہے جس میں دو دہائیوں سے‘ یعنی جب سے یہ بنا ہے‘ صبح سویرے واک کے لیے جانا معمول ہے۔ شروع میں تو ہم فاطمہ جناح پارک جایا کرتے تھے مگر جب وہاں عمارتیں اور ریستوران بن گئے تو دل اُچاٹ ہوگیا۔ مقامی پارک میں اپنائیت بھی ہے کہ جب کبھی اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی تو مزاحمت کی‘ پودے بھی لگوائے جو اَب تن آور درخت بن چکے ہیں‘ اکثر ان کی دیکھ بھال کے سلسلے میں حکام سے رابطہ بھی کرتے رہتے ہیں ۔ پارک کے سامنے مرکز ہے جہاں بھکاری‘ نشئی‘ ردی اکٹھی کرنے کے بہانے توڑا اٹھائے‘ عورتیں شیر خوار بچوں کو بغل میں دبائے اور پیشہ ور بھکاریوں کے ہر عمر کے چھوٹے بچے قافلوں کی صورت بھیک مانگتے آپ کو نظر آئیں گے۔ ہر ٹریفک چوک پر بھی یہی منظر ہوتا ہے۔ یہ صرف اسلام آباد کی حالتِ زار نہیں ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر کی داستان ہے۔
ملک میں نشے کے عادی افراد کی تعداد کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان سے سپلائی بہت زیادہ ہے اور اس کاروبار میں قومی‘ علاقائی اور بین الاقوامی مافیا بہت طاقتور ہو چکا ہے۔ صرف افیون اور ہیروئین کی تجارت نہیں ہو رہی‘ اس میں متھا میٹافین بھی شامل ہے۔ کوئی سرحد‘ چیک پوسٹ اور کوئی رکاوٹ ڈرگ ٹریفکنگ کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ طالبان کی کمزور حکومت نے بھی پوست کے کاشتکاروں کے سامنے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں کہ بین الاقوامی پابندیوں اور گرتی ہوئی معاشی صورتحال کے پیشِ نظر متبادل فصلیں کچھ زیادہ پیداوار نہیں دے سکتیں۔ آپ خود سوچیں کہ افغانستان سے ''پاؤڈر‘‘ اور دیگر ڈرگز کے بدلے پاکستان‘ ایران اور وسطی ایشیائی ممالک سے کیا کچھ بدلے میں نہیں دیا جاتا۔ جب میں بچوں‘ عورتوں اور نوجوانوں کو نشہ کرتے دیکھتا ہوں تو غصہ نہیں‘ ترس آتا ہے کہ زر و دولت کے پجاری لاکھوں انسانوں کی زندگیاں برباد کررہے ہیں۔ پندرہ‘ بیس برس قبل کوئٹہ میں ایک سماجی تنظیم کے بارے میں تحقیقی رپورٹ لکھنے کا موقع ملا تو شہر کے وسط میں واقع ''حبیب نالے‘‘ کے ایک حصے کو دیکھا۔ وہاں تک رسائی اس لیے ممکن ہو سکی تھی کہ وہ تنظیم وہاں سے نشئیوں کو اٹھا کر بحالی اور ان کی تربیت کا کام کرتی تھی اور اب بھی اس نے اس نیک کام کو جاری رکھا ہوا ہے‘ ورنہ نشے کے عادی افراد اور منشیات کے خریداروں کے سوا کوئی وہاں قدم رکھنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ حبیب نالہ غالباً برسات کے پانی کی نکاسی کے لیے کھودا گیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ پانی کی قدرتی گزر گاہ ہو۔ اب اس کے اندر سیوریج کا بدبو دار پانی بہتا ہے۔ اس گندے نالے کے دونوں کناروں پر پلاسٹک سے ڈھکی منشیات کی دکانیں دیکھیں۔ وہاں چائے اور کھانے پینے کی اشیا بھی دستیاب تھیں اور نشے کے عادی افراد کی آمدورفت جاری تھی جس طرح عام بازاروں میں گاہک آتے جاتے ہیں۔ کافی وقت گزارا‘ نشئیوں کے کچھ انٹرویو کئے اور تصاویر اتاریں‘ جو اَب بھی کہیں موجود ہوں گی۔ صوبائی حکومت کے مرکز کے عین وسط میں یہ کھلا بازار اب بھی سنا ہے اپنی رونقیں قائم رکھے ہوئے ہے۔ آپ خود ہی سمجھ دار ہیں کہ منشیات کے اس دھندے کے خلاف کیوں کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اگر ہوتی ہے تو اس طرح جس طرح کئی برسوں کی گندگی کے بعد دیہات میں ہفتۂ صفائی منایا جاتا ہے۔
منشیات کا ایسا کھلا کاروبار ایک دفعہ پشاور کے کارخانو بازار میں سری لنکا کے ایک دوست اور مشہور مورخ کے ساتھ دیکھا تھا۔ اسے تو یقین نہیں تھا کہ منشیات سرعام گڑ‘ چاول اور چینی کی طرح مخصوص بازاروں میں دستیاب ہو سکتی ہیں۔ کبھی خیال تھا کہ منشیات کا کاروبار اور نشئیوں کے مراکز صرف سرحدی شہروں کے قریب ہوتے ہیں۔ اب دیہات میں جاتا ہوں تو لوگ نام لے کر بتاتے ہیں کہ فلاں منشیات فروشی کرتے ہیں اور نشے کے عادی افراد کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ پاکستان کے ہر گاؤں کا المیہ ہے۔ منشیات کی لت کے ساتھ چوری اور دیگر جرائم میں اضافہ ہونا فطری بات ہے کہ آخر عادت سے مجبور ان لوگوں نے روزانہ منشیات خریدنی ہوتی ہیں‘ اور اس کے لیے نقدی ضروری ہے۔
اب اسلام آباد بھی محفوظ نہیں رہا۔ اپنے قریبی پارک میں روزانہ ایک عرصہ سے وہی کچھ دیکھ رہا ہوں جو کبھی کوئٹہ کے حبیب نالے میں دیکھا تھا۔ جمعہ کی صبح کو طلوعِ آفتاب کے وقت عجیب بھیانک منظر تھا۔ پارک کے باہر فٹ پاتھ پر ایک خاندان براجمان تھا۔ ایک عورت اور دو تین بچے چادر اُوڑھے سگریٹ بنا رہے تھے۔ ساتھ ہی ایک خاتون اور تقریباً آٹھ نو سال کا بچہ پاؤڈر بھری سگریٹ کے کش لگا رہے تھے۔ پارک کے اندر داخل ہوا تو دُور کونے میں سات آٹھ افراد جن میں بچے اور عورتیں بھی تھیں‘ چوکڑی مارے دھوئیں کے بادل اُڑا رہے تھے۔ ایک اور جگہ چار افراد کا یہی عالم تھا۔ ایک جگہ تین افراد تھے جن میں سے ایک خواجہ سرا تھا جسے میں عورت سمجھ بیٹھا تھا۔ ہمارے ساتھ سیر کرنے والوں کو کبھی جوش آتا ہے تو پولیس کو بلالیتے ہیں اور وہ نشیئوں کو ہانک کر سڑک کے دوسرے کنارے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد کو گرفتار کرکے کہاں رکھیں؟ تھانے جا کر دیواروں کے ساتھ سر ٹکراتے ہیں۔ اپنے لیے کوئی نئی مصیبت پیدا نہیں کرنی۔ اس دفعہ سیر کرنے والوں میں سے کچھ نے عوامی ایکشن کیا اور انہیں ڈرا دھمکا کر وہاں سے بھگا دیا اور تاکید کی دوبارہ وہاں دکھائی نہ دیں۔ یہ ہم کئی بار کر چکے ہیں۔ سنا ہے کہ اسلام آباد کے ہر پارک کا یہی حال ہے‘ خاص طور پر وہ جو مرکز کے قریب ہیں‘ جہاں منشیات فروش آسانی سے اپنا کاروبار جاری رکھ سکتے ہیں۔
یہ زمینی حقائق ہیں‘ آنکھوں دیکھا حال ہے‘ آپ بھی اپنے اردگرد ضرور دیکھتے ہوں گے۔ اس لیے تو ہم کہتے ہیں کہ ہماری حکومتیں ناکام‘ معاشرہ زوال پذیر اور عوام مایوس اور ناامید نظر آتے ہیں۔ اشرافیہ‘ نوکر شاہی اور سیاست میں طاقتور لوگ بھی سب کچھ جانتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں معاشرے میں لگی اس آگ سے اپنے بچوں کو بچا کر رکھیں گے۔ تباہ تو غریب طبقہ ہورہا ہے تو وہ کیوں پروا کریں۔ اور پھر یہ جو اربوں روپے کا کاروبار اس علاقے میں پھیلا ہوا ہے‘ جنہوں نے اسے پھیلا رکھا ہے وہ بہت طاقتور ہیں۔ ہم کمزور لوگوں کی آواز کسی کا کیا بگاڑ سکتی ہے۔