وزیراعظم شہباز شریف نے آخرکار قوم سے خطاب کر ہی ڈالا۔ کچھ دن تو ہم سنتے رہے کہ ان کی تقریر کل ہو گی۔ جہاں امکان اور ممکنات کی بات آئے‘ ہم دھیان کم ہی دیتے ہیں۔ خیال تو یہی ہے کہ لوگ اب مانوس چہروں‘ پرانے لب ولہجے اور بار بار دہرائی گئی تقدیر بدلنے کی باتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ ایک مطلب تو ایسے نعروں کا واضح ہے کہ حکمران ٹولہ ہماری تقدیر سے خوش نہیں‘ نہ ہی ملک کی تقدیر سے‘ اسی لیے ہر اقتدار میں آنے جانے والا تقدیر بدلنے کی باتیں کرتا ہے۔ یہ کوئی مبالغہ نہیں‘ آپ خود اپنے حافظے پر تھوڑا زور دیں‘ اگر زور اور حافظہ ابھی باقی ہے‘ کہ کیا ہم یہ سب کچھ گزشتہ پچپن برسوں سے نہیں سن رہے؟ قوم کی تقدیر بدلے یا نہ بدلے‘ ہم نے حکمران طبقات کی تقدیر کو ایسے بدلتے دیکھا ہے جیسے الہ دین کے چراغ کی کہانیوں میں‘ بچپن میں پڑھا تھا۔ ایک زمانہ تھا کہ جب ملک کا وزیراعظم خطاب کرتا یا اسمبلی میں بجٹ پیش کیا جاتا تو ساری قوم سکرینوں کے سامنے بیٹھ جاتی۔ جن کے پاس یہ سہولت نہ ہوتی وہ ڈیروں‘ ڈھابوں اور دوستوں کے ہاں چلے جاتے۔ گھنٹوں تبصرے ہوتے۔ ان مواقع پر لوگوں کو ہم نے خوش دیکھا ہے کہ قومی ماحول امید افزا تھا۔ سیاستدان قوم کے سامنے بات کرتے تو اس کی لاج رکھتے کہ پوری قوم کے ساتھ کچھ وعدے کیے جا رہے ہوتے تھے۔ ہر بات خلوص اور سنجیدگی سے کی جاتی۔ لوگ ان کی باتوں پر اعتبار کرتے۔ اب تو یاد ہی نہیں کہ کس زمانے کی بات کر رہا ہوں۔ جس نوعیت کی بھی اس ملک میں حکومت تھی باریوں والی سرکاروں سے پہلے اعتماد کسی حد تک موجود تھا۔ جب ایوانوں اور عوام کے ساتھ سچائی کے رشتے کانچ کی چوڑیوں کی طرح ٹوٹنے لگے تو عام آدمی کی حکمرانوں کی تقریروں میں دلچسپی دم توڑتی گئی۔
یہ محسوس کرتے ہوئے کہ لوگوں کا اعتماد اُٹھ چکا‘ تو حکمران طبقات کے افلاطونوں نے بیانیے کی ترکیب کہیں سے وضع کی۔ کبھی غور کریں تو بیانیے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ خوبصور ت الفاظ اور مربوط انداز میں کچھ جملے تراش کر انہیں بار بار عوام کے سامنے دہرایا جائے‘ بھلے ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ہٹلر کا پروپیگنڈا ایکسپرٹ گوئبلز بالکل یہی کرتا تھا۔ وہ تواتر سے کہتا کہ جرمن قوم کبھی جنگ نہیں ہار سکتی‘ اور یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ ہٹلر جیسا رہنما انہیں نصیب ہوا ہے۔ یہ بھی کہ جرمنی دیگر قوموں‘ ملکوں اور ریاستوں کی صف میں منفرد اور سب سے اعلیٰ ہے۔ آج یہ پُرفریب پروپیگنڈا ساری دنیا میں گہری جڑ پکڑ چکا۔ ہر گھر میں ٹی وی ہے اور ہر ہاتھ میں سمارٹ فون‘ سوشل میڈیا اور اب آنے والے دنوں میں مصنوعی ذہانت کے کرشموں نے ہر طرف سے بیانیوں کی ایسی بھرمار کرنی ہے کہ آپ کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ حکومتیں بیانیوں پر اپنی اجارہ داری نئے قوانین بنا کر قائم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ دیکھا نہیں حکومت پنجاب اور دو خاندانی سیاسی جماعتوں نے اپنی حکمرانی کے خلاف بات کرنے والوں کے منہ بند کرنے کی کیسی ترکیب سوچی ہے کہ کوئی صحافی کھوج لگا کر عوام کو ان کے کرتوتوں کے بارے میں آگاہ نہ کر سکے۔ ایک اور بات جو صرف ہمارے جیسے ممالک میں نام نہاد جمہوری حکومتیں استعمال کرتی آئی ہیں‘ وہ اپنی سیاست میں رنگ بھرنے کے لیے ریاستی وسائل کا بے دریغ استعمال ہے۔ ہتک عزت کے قانون سے خوف زدہ ہوں‘ اس لیے میں نے گزشتہ حکومتوں کی بات کی ہے۔ موجودہ خاندانی حکومتیں بالکل ایسا نہیں کرتیں۔ اتفاقاً اگر آپ ایسا کچھ ہوتا دیکھ رہے ہوں تو یہ آپ کا معاملہ ہے‘ آپ جانیں اور آپ کی محبوب خاندانی حکومتیں۔
وزیراعظم صاحب کی تقریر کچھ دیکھی‘ کچھ سنی اور زیادہ تر حصہ چینل پر تواتر سے دہرائے جانے والے سرکاری بیانیے کی زبانی سنا۔ یہ تو معلوم نہ ہو سکا اور نہ ہی انہوں نے اس پر روشنی ڈالی کہ ان کے کون سے اقدامات تھے جن کی وجہ سے مہنگائی میں کمی آئی ہے۔ لگتا ہے کہ کاشتکاروں کو گندم اگانے اور محنت کرنے کی سرکار کی طرف سے جو سزا ملی ہے‘ اس کی وجہ سے تنوروں پر شاید روٹی کچھ روپے سستی ہوئی ہے۔ اور بھی کئی کارنامے گنوائے گئے کہ دوروں پہ دورے کیے‘ اور اب بیرونی سرمایہ کار دوست ممالک سے بھی آئیں گے اور ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے مطابق اربوں ڈالر ملکی خزانے میں آنا شروع ہو جائیں گے‘ صنعتیں لگیں گی‘ تجارت بڑھے گی‘ بیروزگارکوئی ڈھونڈے سے نہیں ملے گا‘ ہر طرف خوشحالی کی برکھا برسے گی اور ہم سب ترقی کی شاہراہ پر فراٹے بھرتے چلے جائیں گے۔ اچھا ہوا‘ وزیراعظم صاحب نے ہماری تقدیر بدلنے کا وعدہ ایک بار پھر دہرایا۔ آپ اعتبار کریں نہ کریں‘ مگر یہ تو مانیں کہ ہمارے مقدر کی فکر حکمرانوں کو لاحق ہے اور وہ اسے بدلے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ مزید اچھی بات یہ کہ ملک دشمنوں کی نشاندہی بھی کر دی۔ وزیراعظم صاحب نے تو کھلے الفاظ میں کہہ دیا کہ ٹیکس چور‘ رشوت خور سرکاری اہلکار‘ ذخیرہ اندوز‘ منافع خور اور سمگلر ہمارے ملک کے دشمن ہیں۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ وہ آنے والے دنوں‘ مہینوں اور سالوں میں ان دشمنوں کے ساتھ جنگ کرکے ہمیشہ کے لیے ان کا خاتمہ کرتے ہیں یا سمجھوتا۔
اگر وزیراعظم صاحب اور ان کے وفادار بُرا نہ مانیں تو گزارش کروں کہ پاکستان کے مسائل اَن پڑھ لوگوں سے لے کر بھاری سندوں والے ماہرین معاشیات اور سیاسیات تک‘ سب کو معلوم ہیں‘ اور حل بھی ہر مسئلے کے اندر موجود ہے۔ بعید از قیاس ہے کہ انہیں کرسی پر بیٹھنے کے بعد پتا چلا ہے کہ اصل دشمن کون ہیں‘ اصلاحات کون سی درکار ہیں۔ وہ کئی بار ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں‘ اور ایک بار وزیراعظم بھی۔ اب مسائل گنوانے اور دشمنوں کی نشاندہی کا وقت گزر چکا۔ ایسی تقریریں عوام پر گراں گزرتی ہیں۔ ایسی باتوں کو سالہا سال سے دہرانے اور وعدے کرنے کا فائدہ نہیں کہ وعدوں پر عوام کو اعتبار نہیں رہا۔ مشکل اور ساختی نوعیت کے معاشی فیصلے سیاسی مصلحتوں کا شکار رہے ہیں۔ اب اگر دبائو ہے اور کچھ کرنے کے امکانات ہیں تو وہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ ا ب مزید نیچے جانے کی سکت نہیں‘ نہ ہی اس کا حوصلہ یا گنجائش باقی ہے۔ اور پھر نظام کی تشکیل کی حفاظت کے ذمہ داروں کے نزدیک اصلاحات اور مشکل فیصلے کا مزید انتظار نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری تو خواہش ہے کہ حکومتیں جو وعدے کر رہی ہیں وہ پورے کریں۔ سبزباغ دکھانے کی روایت توڑ کر عوام کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم کریں۔ ''میں وعدہ کرتا ہوں‘‘ سنتے سنتے ہمارے بال سفید ہو گئے اور اب تو آہستہ آہستہ ہمارا ساتھ بھی چھوڑتے جا رہے ہیں۔ ماضی میں ہمارا اعتبار انتظار میں تبدیل ہوتا رہا۔ اب عوام کے ساتھ ایک بار پھر 'وعدہ کرتا ہوں‘ کی پُرزور تقریر کی روشنی میں مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ اعتبار کروں یا انتظار۔ اچھی بات ہے کہ انہوں نے ڈیڑھ ماہ کی میعاد بھی مقرر کر دی کہ ہم دیکھیں گے کہ ہماری تقدیر حکومت کے ہاتھوں میں بدل رہی ہے۔ ابھی تو اعتبار اور انتظار کی کشمکش میں گرفتار ہوں۔