یہ اصطلاح شاید ہی آپ نے کبھی سنی یا پڑھی ہو مگر علمِ سیاسیات کے میدان میں آج کل سیاسی تقسیم‘ جو کئی ممالک میں جڑ پکڑ چکی ہے‘ کو سمجھنے کے لیے یہ اصطلاح استعمال ہو رہی ہے۔ موجودہ دور کے سیاسی معاشروں میں پولرائزیشن یا قطبیت ایک تلخ حقیقت ہے۔ سیاست کا بنیادی اصول تو یہ ہے کہ لوگ جب ایک جغرافیائی حدود میں ایک سیاسی اکائی کی صورت میں رہتے ہیں تو ان کے درمیان اختلاف اور مفادات کا ٹکراؤ ایک فطری بات ہے۔ کچھ عناد اور مخاصمت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ سیاست کا کام امن اور استحکام پیدا کرنا ہے اور اس کے لیے آئین‘ قانون‘ ریاستی اداروں‘ میڈیا اور سیاسی جماعتوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ قومی مقاصد کیا ہونے چاہئیں‘ ملکی ترقی کیسے ہو‘ نظم و نسق کو کیسے چلایا جائے‘ وسائل کا حصول اور ان کی تقسیم ملک کے اندر کس طور ہو‘ اور سب سے بڑی بات کہ حقِ اقتدار کا تعین کیسے کیا جائے اور کون سی پارٹی اس کی زیادہ اہل ہے‘ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا ہر جواب سیاسی اختلاف پر منتج ہوتا ہے۔ جب یہ فطری امر ہے‘ بلکہ زیادہ معاشروں کا مثبت عکس‘ تو پھر اسے صدقِ دل سے تسلیم کرکے مخالف جماعتوں اور دھڑوں کو برداشت کیا جائے۔ جہاں جمہوری کلچر مضبوط ہوگا‘ وہاں آپ باہمی احترام‘ رواداری اور سیاسی ہم آہنگی کا فروغ پائیں گے‘ اور جہاں آمرانہ‘ قبائلی اور جاگیردارانہ کلچر ہوگا‘ وہاں سیاسی تقسیم اور مخاصمت غالب ہو گی۔ آج کل کچھ مغربی معاشروں میں بھی نظریاتی تقسیم نے ایک بار پھر لبرل لیفٹ اور کنزرویٹو رائٹ کو کئی اہم سماجی‘ معاشی اور عالمی امور پر ایک دوسرے کے خلاف لا کھڑا کیا ہے۔
اس سیاسی تقسیم کی وجہ سے پاکستان میں سیاسی مخالفین اچھے سلوک کے مستحق خیال نہیں کیے جاتے۔ ہمارے ہاں آزادی کے پہلے دو عشروں میں سیاسی اختلافات زیادہ تر نظریاتی تھے‘ جن پر ہر فورم پر مکالمے کا رواج تھا۔ دنیا میں بھی تب نظریاتی تقسیم کی شدت کے باوجود کم از کم جمہوری ممالک میں اور جہاں یہ نظام ابھی نیا نیا رائج ہوا تھا‘ مخالفوں کو ذاتی دشمنوں میں شمار کرنے اور انہیں صفحۂ ہستی سے مٹانے کا رواج کم تھا۔ مشرقِ وسطیٰ کے انقلابی اور اشتراکی ممالک میں سیاست کے اصول یکسر مختلف تھے۔ وہاں نظریاتی اور سیاسی اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ فسطائیت میں بھی حکومت کے خلاف کسی کو بات کرنے کی ہمت نہیں پڑتی۔ یہاں بھی ایک ایسا دور گزرا ہے جب سیاسی مخالفین نشانے پر رہے ہیں۔ وہ زمانہ اپنے ساتھ بہت کچھ لے گیا۔ اس کے بعد جو ہوا اس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ سیکھنا ہم نے نہ تھا اور نہ کبھی ایسا ہوگا۔ ہمارے موجودہ حکمران‘ جو پہلے والوں کی جگہیں سنبھال چکے ہیں‘ مخالفین کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بھٹو‘ ضیا دور کی کشمکش‘ دو مخالف سیاسی جماعتوں اور اتحادیوں کی شکل میں چار دہائیوں تک چلتی رہی۔ ایک دوسرے کے خلاف سیاسی دھڑے تو سیاسی حالات کے مطابق تبدیل ہوتے رہے ہیں مگر سیاسی فرقہ پرستی میں کوئی کمی نظر نہیں آتی۔
اکثر سیاسی مفاہمت کی بات ہوتی ہے مگر یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ وقتی معاہدے‘ اتحاد اور ''میثاقِ جمہوریت‘‘ ہوں یا آج کل کی اتحادی حکومتیں‘ سب اپنے سے طاقتور سیاسی اور غیرسیاسی مخالف سے نمٹنے کی حکمت عملی کے سوا کچھ نہ تھا۔ ایسے اتحاد بھی بنتے اور بگڑتے رہے کہ مفاہمت سیاسی سودے بازی نہیں بلکہ بنیادی آئینی اور سیاسی روایات کو قائم رکھنے کا عمرانی معاہدہ ہوتی ہے۔ وہ ہم صرف آئین کی صورت میں اور اس کے اندر رہتے ہوئے پُر امن اقتدار کے حصول‘ منتقلی اور اس کے استعمال میں دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو بھی مفاہمت ہو گی وہ ایک دوسرے کے ناجائز مفادات کے تحفظ‘ اقتدار کے حصول کے لیے دھڑے بندی اور سیاسی مخالفوں کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے سیاسی اتحاد کو ہم مفاہمت نہیں‘ سیاسی گٹھ جوڑ سمجھتے ہیں۔ ایسے گٹھ جوڑ ہماری تاریخ میں کئی بار بنے‘ اور طاقت کا توازن تبدیل ہوتے ہی ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ ہماری جمہوری ترقی‘ سیاسی استحکام اور معاشی خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی فرقہ پرستی ہے۔ اس کے تین چار مظاہر ہم بار بار دیکھتے آئے ہیں۔ اول اقتدار میں رہنا روایتی سیاسی جماعتوں کے لیے ناگزیر ہو گیا ہے کہ اگر آئین اور قانون کی حکمرانی کبھی قائم ہوئی تو اس کے احتساب سے صاف بچ نکلنا آسان نہ ہو گا۔ اس مقصد کے لیے وہ ہر حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار رہے ہیں۔ اگر انتخابات میں دھاندلی کرنا‘ کرانا ممکن ہو تو وہ ہر وسیلہ استعمال کرتے ہیں۔ اس حوالے سے کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں۔ ڈر تو فطری بات ہے کہ سیاسی مخالفین اقتدار میں آگئے تو جیل نہ جانا پڑ جائے۔ کئی دہائیوں سے اب روایت یہ پڑ چکی ہے کہ سیاسی مخالفین کے خلاف جائز اور ناجائزمقدمات بنا کر انہیں ہراساں کریں اور قومی اداروں کو برباد کرکے انہیں بلاجواز جیلوں میں ایڑھیاں رگڑنے پر مجبور کریں۔ تھوڑا سا غور کریں گے تو آپ کو کوئی سیاسی جماعت‘ جو اقتدار میں رہی ہو‘ نظر نہیں آئے گی جو اس روایت پر قائم نہ رہی ہو۔
جیسے اوپر عرض کیا ہے کہ میرے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قطبیت اور اس سے جڑی سیاسی فرقہ پرستی ہے‘ اس کی بنیاد اخلاقی اور سیاسی کرپشن ہے۔ ہمارے معاشرے کے زوال کی صورتحال یہ ہے کہ ہماری غالب اشرافیہ اور حکمران طبقات اسے اب مسائل میں شمار نہیں کرتے۔ یہ اُسے اپنی ہمت‘ استطاعت‘ توفیق اور دانشمندی سمجھتے ہیں۔ سیاسی دھڑے بندی میں شدت فرقہ پرستی کی شکل اختیار کرے تو پھر کسی کا احتساب نہیں ہو سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر سیاسی گروہ اور اس کے پیروکار سیاسی مخالفین کو بددیانت اور کرپٹ سمجھنے کے علاوہ ان میں دنیا کا ہر عیب اور برائی دیکھتے ہیں‘ مگر اپنے رہنماؤں کو صرف دشمنوں کی سازش کا شکار سمجھتے ہیں۔
سیاسی فرقہ پرستی ہمارے ملک میں اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اگر مخالف جماعت انتخابات جیت بھی جائے تو اس کے حق کو ماننے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اسے اقتدار سے ہٹانے کے لیے جہاں سے بھی‘ جس کی بھی اور جس طرح بھی ممکن ہو اعانت حاصل کرنا کامیاب سیاست کہلاتی ہے۔ اس لیے تو ہر عام انتخابات کے بارے میں سوال اٹھائے جاتے ہیں کہ کچھ جماعتوں نے باجماعت دھاندلی کی ہے۔ دھاندلی کی روایت کو توڑنا ہے تو پھر آئین کی بالا دستی‘ عدلیہ کی آزادی اور شفاف انتخابات کے انعقاد کو ممکن بنانا ہوگا۔ سیاسی فرقہ پرستی کی لعنت عوامی سطح پر اپنی جگہ بنا چکی ہے کہ ہر شخص جانبدار ہے اور کسی جماعت کے حق میں اور کسی کے خلاف ہے۔ اس کی ایک بھیانک صورت سیاسی تشدد‘ ہراسگی اور حکومتی اداروں کا استعمال کرکے مقدمے بازی کرنا ہے تاکہ مخالفوں کو سانس تک نہ لینے دیا جائے۔ انہیں اتنا زچ کریں کہ سیاست سے توبہ کرکے کسی کونے میں بیٹھ جائیں۔ جس طرح معیشت میں افراطِ زر کی ایک حد کے بعد عوام کی قوتِ خرید کم ہو جاتی ہے‘ اس طرح جب کوئی حکومت یا سیاسی اتحاد تشدد اور ہراسگی کو حد سے زیادہ مخالفین کے خلاف استعمال کرے تو اس کے اثرات وہ نہیں رہتے جو ان کے سامنے ہوتے ہیں۔ عوامی رائے سازی کے وسائل تبدیل ہو چکے ہیں۔ پیغام رسانی اونچی دیواروں سے بھی جب ممکن ہو جائے تو کوئی بات کروڑوں کانوں تک پہنچ جائے تو سچ پر کسی کی اجارہ داری نہیں رہتی۔ چنانچہ بیانیوں پر مفاہمت کی ضرورت ہے‘ اور وہ صرف آئین کی بالا دستی‘ عدلیہ کی آزادی اور جمہوری روایات میں رہ کر ہی ممکن ہے۔