ہمارے حکمران باتیں تو بڑی کرتے ہیں کہ بس حکومت ہمارے ہاتھ میں دے دیں پھر دیکھیں ملک کس طرح ترقی کرتا ہے‘ مہنگائی کیسے ختم ہوتی ہے‘ اور ہم کھویا ہوا وقار کیسے دوبارہ حاصل کرتے ہیں۔ اس کو بھی گھسے پٹے بیانیوں میں شمار کرلیں۔ حضور بُرا نہ منائیں تو خود ہی گن لیں کہ سندھ میں آپ کی کتنی بار حکومت رہی ہے‘ پنجاب کے حکمران کون رہے ہیں اور مرکز میں آپ کتنی بار حکومتیں بنا چکے ہیں۔ وقت کے ساتھ ہمارا حافظہ تو کمزور ہوچکا ہے‘ اور شاید بیچارے عوام کا بھی۔ وہ تو اب اس طرف دھیان ہی نہیں دیتے کہ کون اقتدار میں آتا ہے اور کون کب تک رہتا ہے‘ اور کون کس کی تائید کا محتاج ہے‘ عام لوگ توا س زمرے میں ہرگز نہیں آتے۔ ترقی اور خوشحالی تو دُور کی بات ہے‘ اب ملک انارکی کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ لوگوں کی سماجی نفسیات‘ کچھ کہتے ہیں کہ ایسی ہے کہ ریاست کمزور پڑ جائے تو انسانیت اور درندگی کے درمیان فاصلے آناً فاناً مٹ جاتے ہیں۔ دوسروں کا خیال ہے کہ فطرتاًہم برے نہیں‘ ہمارا سیاسی اور سماجی ماحول ہمیں غالب رویوں کے قالب میں ڈھال دیتا ہے۔ ہم جو سیاست کے کچھ سبق حاصل کرسکے ہیں‘ ان میں ایک بات تو یہ نظر آتی ہے کہ قانون کی گرفت کمزور پڑ جائے‘ اس کے تحت حکمرانی کمزور ہوتو ہر شخص زور آور ہو کر من مانی کرنا شروع کردے گا۔ اس لیے کہ ہماری خواہشات کی غلامی جب حاکمیت کے خوف سے آزاد ہو جاتی ہے تو لوگ غاصب اور ظالم بننے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے۔ آپ کو ریاست اور حاکمیت کے وجود کے فلسفوں سے بور نہیں کرنا چاہتا‘ صرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ موجود دور کی مہذب دنیا میں اگر تہذیب اور انسانیت کا کوئی دعویٰ اور بہانہ رہ گیا ہے تو اس کے باوجود ریاستوں نے اقتدار کی مرکزیت قائم کرکے عوام کو قانون کے دائرے میں رکھنے کی استعداد پیدا کی ہے۔ جہاں کہیں یہ صلاحیت کمزور رہی ہے یا داخلی خلفشار‘ سیاسی جنگوں اور سماجی کشمکش کی وجہ سے ختم ہوگئی تو ساتھ ہی ریاست بھی دم توڑ گئی۔ اس وقت آٹھ مسلم اکثریتی ریاستیں ایسی ہیں جو کبھی مؤثر اور طاقتور تھیں‘ اب وہ خانہ جنگی‘ دھڑے بازی اور باہمی کشمکش کا شکار ہو کر اپنی عملداری کھو رہی ہیں۔
دوواقعات کا یہاں ذکر کرنا چاہتاہوں‘ ذہن میں تو بے شمار ہیں‘ کہ جب حاکمیت کا خوف ختم ہوجائے تو لوگ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ عراق پر امریکی حملہ ہوا‘ بغداد آگ اور خون کی لپیٹ میں تھا‘ تو وہاں کے کچھ شہری ہسپتال سے جو ہاتھ لگا‘ لے کر گھروں کو لے جارہے تھے۔ چند دن پہلے پنجاب میں ایک شاہراہ پر کولڈ ڈرنک کمپنی کا ٹرک حادثے کاشکار ہوا یا خراب ہواتو ساتھ کے گائوں سے ہر چھوٹا بڑا لوٹ مار میں مصروف ہوگیا۔ یہ معمولی باتیں نہیں‘ ان سے اخلاقی اور تہذیبی رویوں کی عکاسی ہوتی ہے۔ ہمارے سرکاری اور عوامی عہدوں پر جو بڑے بڑے لوگ اونچے عہدوں پر رہے ہیں‘ انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ جب خود حکمران تھے تو خوف صرف قانون‘ ریاستی اداروں اور عدلیہ کا ہی ہوسکتا تھا‘ مگر کئی بار اقتدار میں آکر وہ تو بہت کچھ سیکھ چکے تھے‘ کہ انہیں کمزور کیسے کرنا ہے۔ موجودہ اتحادی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد جب معتوب جماعت کی حکومت کو ختم کرکے '' ملک بچانے‘‘ کی انہیں ذمہ داری سونپی گئی تھی‘ اب تک وہ خود کو بچانے کے لیے قانون سازی اور اداروں میں فرمانبردار افسروں کو لگانے میں مصروف ہیں۔
گزارش یہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے حکمران گھرانوں نے اپنا اپنا کھیل کھیلنے کے لیے ریاستی استعداد کو کمزور سے کمزورتر کر دیا ہے۔ ظلم کی بات ہے کہ جواس کے خود ذمہ دار ہیں‘ کہتے ہیں کہ ہم سافٹ ریاست بن چکے ہیں۔ یہ ایسی ریاست ہوتی ہے جو اب ہم بن چکے ہیں۔ جہاں قانون اور ریاست کی رِٹ نہیں‘ طاقتور لوگوں اور ہجوم اور ڈنڈا برداروں کی چلتی ہے۔ چند دن پہلے یہ خبر پڑھی کہ حکومت سندھ نے ایک اور 'کھاؤ پیو موج کرو‘ پروجیکٹ چلانے کے جواز کے لیے کہا ہے کہ صوبے میں 80 ہزار ملزم ہیں جو گرفتار نہیں ہو سکے۔ کچے کے ڈاکوؤں کی خبریں تو آپ روزانہ سنتے اور پڑھتے ہیں کہ وہ کیسے سرپرستی کے بغیر اپنا دھندا جاری رکھ سکتے ہیں۔ ان علاقوں میں جا کر ذرا عوام سے پوچھیں‘ وہ آپ کو ان کی پشت پناہی کرنے والوں کے بارے میں بتا دیں گے۔ دور جانے کی بات نہیں‘ ہم تو اب بڑے شہروں کے رہنے والے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کہاں کہاں سرکاری زمینوں پر قبضے ہیں۔ اسلام آباد کا مارگلہ نیشنل پارک ہو یا ایف نائن فاطمہ جنا ح پارک‘ وہاں ریستوران‘ عمارتیں‘ کلب اور مدرسے کیسے بن گئے؟ کسی زمانے میں اس خوبصورت شہر میں سیکٹرز کے درمیان گرین علاقہ چھوڑ ا گیا تھا جو خوش قسمتی سے اب بھی ہے‘ مگر جگہ جگہ آپ کو قبضے نظر آئیں گے جنہیں مقدس اشکال میں ڈھالا گیا ہے‘ اس کے باوجود کہ وہاں کوئی آبادی نہیں۔ اور اگر ہے تو اس کے لیے جگہ مختص ہے۔ یہ صرف پاکستان میں ہی ہو سکتا ہے‘ کسی دوسرے ملک میں اس کی اجازت نہیں۔ قتل و غارت‘ ہنگامہ بازی اور فسادات کے واقعات کے اعلانات جہاں سے ہوتے ہیں اور لوگوں کو مشتعل کرنے اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی ترغیب دی جاتی ہے‘ کیا اس کے بارے میں ہماری حکومتوں کو معلوم نہیں؟ آپ دیہات میں ہوں یا شہر میں‘ سو رہے ہوں یا جاگ رہے ہوں‘ بیمار اور بوڑھے ہوں‘جس حالت میں بھی ہوں‘ کوئی بھی کہیں بھی کھڑے ہو کر کسی وقت لاؤڈ سپیکر پر جتنا وقت چاہے تقریر کر سکتا ہے۔ یہ اب اتنی عام سی باتیں ہیں کہ کسی کو عجیب نہیں لگتیں۔یہ ریاست اور قانون کی حکمرانی کی دھجیاں اُڑانے کے مترادف ہے۔ خوف اب یہ ہے کہ ریاست سے زیادہ‘ کہیں زیادہ ایسے گروہ منظم ہو چکے ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم ریاست پاکستان کی حاکمیت قائم کر کے گروہی اور شخصی من مانیوں کا خاتمہ کریں۔ اس کے بغیر معاشرے میں امن و سکون اور استحکام پیدا نہیںہو سکے گا۔ اس وقت جو داخلی سلامتی کی صورتحال ہے کہ ہمارے سکیورٹی اداروں‘ پولیس اور عام لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ شہروں اور دیہات میں سماج دشمن عناصر نے جو ماحول پیدا کر رکھا ہے ایسے میں خاموشی اور بے عملی ہم سب کو لے ڈوبے گی۔ اعلانات اور اعلامیے ہم بہت دیکھ چکے‘ یہ کسے معلوم نہیں کہ لاقانونیت جنگل کی آگ کی طرح معاشرے میں پھیلتی اور سرایت کرتی ہے۔ موجودہ حکمرانوں کو ہم کئی دفعہ آزما چکے ہیں اور ہمارے دل میں ان پر اعتماد اور اعتبار نہیں رہا۔یہ ایسا ہے کہ جنہوں نے ہمارے سماج میں زہر گھولا ہے‘ انہی سے امید رکھی جائے کہ وہ کوئی تریاق لے آئیں۔ دباؤ اب ہمارے دوست ممالک کی طرف سے ہے جن کی طرف ہم دیکھ کر اپنا مقدر تبدیل کرنے کی توقعات بانٹتے ہیں‘ وہ بھی ادھار دینے‘ سرمایہ کاری کرنے اور کوئی سیاسی اعانت کرنے سے پہلے یہ شرط رکھتے ہیں کہ اپنے گھر کو سنبھالو‘ خود کو ٹھیک کرو۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری ریاست کمزور ہو چکی ہے اور وہ کردار جو اس کے ذمہ دار ہیں وہ بار بار مسندِ اقتدار پر بٹھائے گئے ہیں۔ ایسے میں حاکمیت کا احترام لوگوں کے دلوں میں کیسے پیدا ہوگا‘ اعتماد کیسے بڑھے گا اور ریاست کی فعالیت کیسے ممکن ہوگی؟ بڑھتے ہوئے خوف اور اندیشوں کے سامنے ذہن میں صرف سوالات ہیں۔ کوئی مؤثر جواب ہے تو صرف قانون کی حاکمیت میں ہے۔