پاکستان کی تاریخ کی دو بڑی عوامی تحریکوں میں تین قدریں ہم نے مشترک دیکھی ہیں۔ اقتدار مرکز اور صوبوں میں ایک طاقت کے ہاتھوں میں تھا۔ ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو‘ دونوں مقبولیت کے دعویدار تھے‘ جو ایک وقت تک درست بھی تھے۔ ایوب خان کا مارشل لاء لگا تو مجھے یاد ہے کہ اوپر سے ایک حکم آنے پر زیریں سطحوں پر فوراً عمل درآمد ہوتا تھا۔ خوف اور امید کے پہلو لوگوں کے رویوں سے نمایاں تھے۔ اس وقت میں تیسری جماعت میں تھا۔ اپنے چھوٹے سے قصبے میں پہلی تبدیلی یہ دیکھی کہ ہر طرف لوگ گلی کوچوں اور بازاروں کی صفائی میں مصروف تھے‘ دکانوں کے اندر اور باہر رنگ وروغن کر رہے تھے‘ جس کے اسباب اس وقت تک آسانی سے دستیاب نہیں تھے۔ دکانوں کے لکڑی کے دروازے مختلف رنگوں سے سجنے لگے۔ اشیائے فروخت کی قیمت مقرر کردہ نرخوں کے مطابق تھی‘ اور ہر چیز کا نرخ کارڈ بورڈ کے ٹکڑوں پر لکھا ہوتا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے نیا زمانہ شروع ہو چکا ہے۔ اس سے قبل سیاست کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا‘ نہ کوئی اخبار‘ نہ رسالہ۔ علاقے میں صرف ایک ہمارے استادِ محترم تھے جن کے پاس ریڈیو ہوا کرتا تھا جو بڑی بیٹری سے چلتا تھا۔ ہمارے پڑوس میں ہی وہ رہتے تھے‘ مگر اکثر اپنی زمینوں پر کہیں دور اُن کا قیام ہوتا تھا۔ اس لیے کبھی کبھار ہی ملکی خبروں کے بارے میں کچھ معلوم ہو پاتا۔ اچھی طرح یاد ہے کہ لوگ خوش تھے‘ ایک نیا جذبہ تھا‘ مگر میں دیہی معاشرے کی بات کر رہا ہوں جہاں سیاسی شعور نہیں تھا۔ شہروں اور ان کے باسیوں کے تاثرات سے لاعلم تھے۔ ہمارے علاقے کے بڑے زمیندار‘ جو سیاست میں نمایاں تھے‘ شروع میں اُن کا غلبہ نظر آیا جو ایوب خان کے ساتھ تھے۔ اس دور میں ریفرنڈم اور بنیادی جمہوریتوں کے دو انتخابات اور بعد میں صدارتی انتخاب بھی ہوا۔ مقامی سطح پر خوب مقابلے بازی تھی۔ اچھی طرح یاد ہے کہ یونین کونسلوں کے امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ ہوا کرتا تھا‘ اور عام لوگوں کی ایسی شراکت بعد کے کسی دور میں دیکھنے میں نہ آئی۔
کچھ سالوں بعد جب کالج پہنچے تو پاک بھارت جنگ ہو چکی تھی اور تاشقند معاہدہ بھی طے پا چکا تھا مگر ایوب خان اور مغربی پاکستان کے گورنر‘ نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان کا طنطنہ عروج پر تھا۔ سیاسی‘ سماجی اور فکری طور پر ضلعی شہر اور کالج کی فضا ایسی لگی کہ زندگی میں ایک انقلاب سا برپا ہو گیا۔ خیال وشعورکی کئی نئی جہتیں موسم بہار میں پھوں کی طرح کھلنے لگیں۔ نظریات سے آگاہی‘ شعر وادب‘ تقریری مقابلوں میں شرکت‘ اخبار ورسائل اور لائبریری میں ڈھیروں کتابیں اورکلاس رومز کا ایسا ماحول کہ ہم ایک مختلف دنیا میں خود کو پاتے تھے۔ ایوب خان کے دور میں زبردست معاشی اور سماجی ترقی ہوئی اور تعلیمی شعبے میں بے حد وسعت دیکھنے میں آئی۔ اس وقت کالجوں کے پاس وسیع رقبہ تھا‘ شاندار نئی عمارتیں‘ صاف ستھرا ماحول اورکالے گائون میں ملبوس اساتذہ‘ وقت پر کلاسیں اور پُرمغز گفتگو کالجوں کی علمی ثقافت کی رونق تھی۔ کچھ کتابیں تو اتفاقاً میٹرک کے دوران پڑھ لی تھیں جن میں ڈیل کارینگی کی کتابیں سرفہرست تھیں‘ لیکن کالج میں تو جی چاہتا تھا کہ پورا دن لائبریری ہی میں رہیں۔ اُسی زمانے میں مولانا مودودی‘ نیاز فتح پوری اور علامہ غلام احمد پرویز کی تصانیف سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ ابھی کالج میں دو سال ہی گزرے تھے کہ ملتان‘ لاہور اور راولپنڈی کے طلبہ کے مظاہروں کی خبریں آنے لگیں۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ ایوب خان دور میں کالجوں میں ہر سال طلبہ یونینز کے انتخابات ایسی باقاعدگی سے ہوتے تھے اور ان میں مقابلے کی فضا ایسی تھی کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہماری نسل کا سیاسی شعور اور ملکی معاملات میں دلچسپی اس وقت کے تعلیمی اور ثقافتی ماحول کی مرہونِ منت تھی۔
طالب علموں کی اکثریت کا تعلق دیہات سے تھا اور زیادہ تر نچلے درمیانی طبقے یا غریب گھرانوں سے تھے۔ تعلیم تقریباً مفت تھی اور اگرچہ ہمارے جیسے اضلاع میں صرف ایک کالج ہوا کرتا تھا لیکن سب کو داخلہ مل جاتا اور سب کو ہاسٹل میں رہائش کی سہولت بھی میسر تھی۔ ایوب خان کے خلاف تحریک‘ جیسا کہ اس سے پہلے کے مضمون میں ذکر کیا گیا‘ طلبہ نے شروع کی تھی۔ کراچی سے لے کر چٹاگانگ تک نئے سیاسی اور نظریاتی شعورکی شمعیں روشن تھیں۔ اس وقت ویتنام کی خوفناک جنگ کے شعلے تو کہیں دور بھڑک رہے تھے مگر اس پر مباحث اور گفتگو ہماری محفلوں میں ایسے ہوتی کہ جیسے ہم خود شعلہ بار ہوں۔ اشتراکی‘ اسلامی‘ لسانی اور قومی افکار نمایاں تھے۔ اس کا ایک عالمی پس منظر بھی ہمیں سامنے رکھنا ہو گا۔ وہ سرد جنگ کا دور تھا‘ دنیا کی تقسیم اشتراکی اور سرمایہ دار ریاستوں اور ان کے نظریات کی بنیاد پر تھی۔ ہم اس میں امریکی اور مغربی ممالک کے اتحادی تھے۔ اس دور کی فوجی حکومتیں بھی سرد جنگ کی پیداوار تھیں۔ ان کا قیام‘ تشکیل اور وجود بھی طلبہ تنظیموں میں سب سے بڑا قابل بحث موضوع تھا۔ اگرچہ اس بات پر تو نظریاتی اختلافات بنیادی نوعیت کے تھے کہ ملک کے مستقبل کے لیے کون سا نظریہ اور نظام ہو مگر سب متفق تھے کہ ایوب خان کا بوریا بستر گول کرنا ضروری ہے۔ مظاہروں میں ہم سب اکٹھے تھے۔ ان میں ایوب خان کے خلاف نفرت انگیز نعرے لگتے اور یہ اس وقت شروع ہوئے جب ملتان میں ایک جلوس پر گولی چلی اور جودت کامران اس کا نشانہ بنے۔ ملک کے بڑے شہروں میں نظر یاتی تفریق بہت گہری تھی اور اکثر جگہوں پہ طلبہ تنظیمیں اپنا جلوس علیحدہ نکالتیں اور کچھ تو آپس ہی میں برسر پیکار رہتیں۔
اس دور میں طاقت کی مرکزیت ایک ہاتھ میں تھی اور اس کی مخالفت میں ہر نو ع کے سیاسی اور نظریاتی گروپ ملک کے طول وعرض میں سرگر م عمل تھے۔ مشرقی پاکستان میں لسانی قومیت پرستی کا رنگ غالب تھا۔ اس طرح بلوچستان اور صوبہ سرحد میں اور کسی حد تک سندھ میں بھی‘ مغربی پاکستان کے بڑے شہروں کی کشمکش نظریاتی تھی۔ طلبہ کی تحریک نے زور پکڑا تو پھر جب تک دوسرا مارشل لاء نہ لگا‘ تھمی نہیں۔درمیان میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو پہلی پریس کانفرنس میں کہا کہ ان کی پارٹی کا ہراول دستہ طلبہ ہوں گے۔ ترقی پسند اور روشن خیال طلبہ‘ جو تحریک میں اہم کردار ادا کر چکے تھے‘ اس پارٹی میں شامل ہوئے۔ ہمارے کالج میں بڑے قریبی دوست مسیح اللہ خان جامپوری نے بھٹو صاحب کو خط لکھ کر اپنی شمولیت کا ارادہ ظاہر کیا۔ جبر کے اس دور میں پرنسپل صاحب نے انہیں بلا کر سمجھانے کی کوشش کی‘ ڈرایا دھمکایا اور ہاسٹل سے نکال دیا۔ کچھ دن بے گھری کے اس دور میں میں بھی ان کے ساتھ رہا۔ ان کے مقابلے میں دوسرا بڑا گروہ ہر تعلیمی ادارے میں اسلامی جمعیت طلبہ اور پھر صوبائی سطح پر قومیت پرست طلبہ کے دھڑے تھے۔ سیاسی جماعتیں بھی نظریاتی باتیں کرتی تھیں جن میں اسلام‘ اشتراکیت‘ جمہوریت اور قومی حقوق کے منشور سرفہرست تھے۔ ایک طاقتور شخصیت اور اس کی پارٹی‘ کنونشنل مسلم لیگ کے خلاف دیگر تمام جماعتیں‘ دانشور‘ ادیب‘ شاعر اور اس تحریک کے سرخیل نوجوان طلبہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ سب اپنے اپنے مخصوص راستوں پر سفر کر رہے تھے مگر منزل ایک تھی کہ ایوب خان کو اقتدار سے ہٹایا جائے۔ آخرکار تحریک کامیاب ہوئی... (جاری)