چند دن پہلے صبح سویرے سرسری طور پر خبروں پر نظر ڈالی تو ماچھکہ‘ رحیم یار خان میں پنجاب پولیس کے بارہ سپاہیوں کے قتل کی شہ سرخی نے غمناک کر دیا۔ کوشش کرتے ہیں کہ دن کا آغاز خوشگوار انداز میں ہو‘ سورج طلوع ہونے سے پہلے کسی پارک یا جنگل کا رخ کریں‘ تازہ ہوا اور موسم کی کیفیت جو بھی ہو‘ اس سے لطف اندوز ہوں اور پھر ایک پیالی دیسی چائے یا کالی کافی سے زندگی میں کچھ چاشنی کا اضافہ کرنے کے بعد لکھنے پڑھنے کی ترجیحات کا تعین کریں۔ اندوہناک واقعات‘ جن میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے دہشتگردوں کے حملے‘ سڑکوں پر بے گناہ لوگوں کو بڑی گاڑیوں کے پہیوں کے نیچے روندنے اور معصوم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات شامل ہیں‘ کئی دن ہمیں پریشان رکھتے ہیں۔ ہماری سیاسی صورتحال‘ کئی سالوں سے جاری سیاسی جنگ کے نئے محاذوں اور تازہ دم دستوں کی میڈیا پر کارروائیوں اور ہر طرف پھیلی کرپشن کی داستانیں ہی ہماری قومی زندگی کی بڑی تصویر بن کر رہ جائیں تو کون باشعور شہری اس قدیم دھرتی پر سکھ کا سانس لے سکتا ہے۔
ہمارے کئی دوست دہائیوں سے اس ملک کے حالات سے تنگ آکر یورپ اور شمالی امریکہ میں جا بسے ہیں اور ہمیں بھی دعوت دیتے رہے ہیں کہ یہاں کچھ نہیں سدھرے گا کیوں اپنا وقت اور زندگی برباد کر رہے ہو نکل آئو اور چین سے رہو۔ ہمارا دریا اور وادیٔ سندھ سے جو رشتہ ہے اسے نبھانے کے لیے ہم سب کچھ برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ مگر اس ملک کے صحرائوں‘ پانیوں‘ موسموں‘ پہاڑوں اور معاشرے کی رنگ رنگینیوں کے درمیان جو لطف آتا ہے‘ وہ باہر کہاں۔ امریکہ میں ایک دہائی سے کہیں زیادہ مختلف اوقات میں وقت گزارا ہے۔ کبھی دل نے ہار نہیں مانی اور ہم اپنی محبتوں کی طرف ہر بار لوٹ آئے۔ مایوس اب بھی نہیں سب ڈاکو ایک دن اپنے انجام کو ضرور پہنچیں گے‘ جو صرف کچے کے علاقے میں نہیں۔
کچے کے دریائی علاقوں کے بارے میں‘ جو دریائے سندھ کے دونوں طرف پھیلے ہوئے ہی‘ کئی بار کچھ لکھنے اور کہنے کی جسارت کی ہے۔ ہمارا رشتہ کچے سے بچپن سے رہا ہے۔ نہ جانے کتنی مرتبہ اوائلِ عمری میں دریار کو کشتی کے ذریعے عبور کرکے ساری مسافت پیدل طے کی ہے۔ آج کے کچے کی زمینیں اور پیداوار وہ نہیں رہی۔کبھی ہم یہاں گھنے جنگلوں سے کئی گھنٹے سمت کا تعین کرکے بھوکے پیاسے چلتے رہتے تھے۔ اب ہر طرف موسم کے مطابق ہرے بھرے کھیت ہیں۔ اس علاقے میں زیادہ تر گنے کی فصل کاشت ہوتی ہے جہاں ڈاکوئوں نے پولیس پر حملہ کیا ہے‘ ساتھ ہی کچھ فاصلے پر تین شوگر ملیں ہیں‘ جو فصل خریدکرتی ہیں۔ تیس چالیس کلومیٹر دور سندھ میں بھی شوگر ملیں ہیں جہاں کچے کے علاقے کا گنا سپلائی ہوتا ہے۔
زیادہ تر بلوچ قبائل اور سرائیکی وسیب کی قومیں صدیوں سے دریا کے کنارے چھوٹے چھوٹے گائوں‘ جو زیادہ تر مٹی کی دیواریں اور چھپر رکھنے والے گھروں پر مشتمل ہوتے ہیں‘ میں آباد ہیں۔ ایسی آبادیوں کا سلسلہ ڈیرہ غازی خان‘ مظفرگڑھ‘ راجن پور اور رحیم یار خان سے لے کر صوبہ سندھ کے شمالی اضلاع کشمور اور گھوٹکی تک پھیلا ہوا ہے۔ جس زمانے میں ہم دریا عبور کرکے ضلع رحیم یار خان کے ایک ہائی سکول میں میٹرک کر رہے تھے‘ ہر طرف امن اور سکون تھا۔ کبھی کسی ڈاکو اور ڈاکے کے بارے میں سنا تک نہ تھا۔
کچے کے علاقوں کی سماجی اور معاشی حرکیات نئی زرعی ٹیکنالوجی‘ جیسے چھوٹا ڈیزل انجن‘ جو پیٹر کے نام سے مشہور ہے‘ نے یہاں انقلاب برپا کیا ہے۔ اس سے قبل سیلابی پانی پھر جانے کے بعد لوگ صرف گندم کاشت کر سکتے تھے‘ اور محدود پیمانے پر کنوئوں اور کروڈ آئل سے چلنے والے بھاری بھرکم انجن کے ذریعے ٹیوب ویلوں سے کھیتیاں سیراب کرتے تھے۔ زمین کی قدرتی زرخیزی دیکھی تو شوگر مل مالکان نے دھڑا دھڑا بنجر‘ غیر آباد قدرتی جنگلات کے رقبے پٹے پر لینا شروع کر دیے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے ان ٹھیکوں کی رقم میں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ زمیندار جنہوں نے زمینیں چھوڑ رکھی تھیں اور اکثر مقامی لوگوں کی گزر اوقات مویشی پال کر ہوتی تھی‘ زمینیں لیز پر دے کر امیر ہونے لگے۔ مال مویشی پالنے والے اپنا پرانا پیشہ برقرار نہ رکھ سکے۔ بے زمین لوگ یا تو دیہاڑی دار زرعی مزدور بن گئے‘ جو گنے کے کھیتوں میں کام کرنے لگے یا شہروں کی طرف نکل گئے۔ ایک اور بات یہاں بیان کرنا ضروری ہے۔ کچھ زمینیں جو حکومت پنجاب یا وفاقی حکومت کی تھیں‘ اور جن کو عام لوگ کاشت کرکے گزارا کرتے تھے‘ وہ بڑے اور طاقتور زمینداروں نے ان سے چھین کر ان پر قبضہ کر لیا اورآگے ملوں اور مقامی لوگوں کو ٹھیکے پر دے کر ہر سال کروڑوں کمانے لگے۔ کچے کی آبادی میں بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح بے پناہ اضافہ ہوتا رہا۔ کچے کے لوگوں کی اکثریت نے بہت محنت کر کے بنجر زمینوں کو آباد کیا ہے اور جن کے پاس چھوٹے ٹکڑے ہیں وہ بھی خوشحال نظر آتے ہیں۔ ان علاقوں میں کہیں کہیں بجلی بھی آگئی‘ ادھر اُدھر کچھ سڑکیں بھی بن گئیں کیونکہ گنا ملوں تک پہنچانا ضروری تھا۔ مواصلات کے ذرائع میں موٹر سائیکل اور سیل فون نے موبیلٹی میں جو انقلاب برپا کیا ہے وہ آپ کچے میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ نہ سڑک کی ضرورت نہ موٹر وے کی حاجت‘ موٹر سائیکل اپنا راستہ خود بناتی ہے۔ یہ ڈاکوئوں کے طاقتور ہتھیار ہیں۔
دو اور بھی عناصر ہیں جن کی وجہ سے کچے میں ڈاکوئوں کے پاس اسلحہ اور گولہ بارود کے ڈھیر جمع ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں بدامنی اور شر پسندی اور افغانستان کی جنگوں کے نفسیاتی اثرات اور مہلک ہتھیاروں کی آسان فراہمی نے ڈاکوئوں کے حوصلے بلند رکھے ہیں۔ جب کبھی پولیس پر حملہ ہوتا ہے تو آپ قومی اخبارات میں خبریں پڑھتے ہیں اور ٹیلی وژن پر بھی کچھ معلوم ہو جاتاہے۔ اگر آپ دریا کے قریب کسی شہر‘ گائوں اور قصبے میں رہتے ہیں تو اغوا برائے تاوان اور اب زیادہ تر بھتہ وصول کرنے کے واقعات روزانہ کی بنیاد پر سنتے ہیں۔ ہمارا اب وہاں جانا کبھی کبھار ہوتا ہے مگر جاتے ہی ایسی دل خراش باتیں سنتے ہیں کہ جی چاہتا ہے کہ فوراً واپسی کا بندوبست کریں۔
ان اضلاع کی انتظامیہ اور خبر رکھنے والے ہر ریاستی ادارے کو ایک عرصہ سے معلوم ہے کہ جرائم پیشہ لوگ کچے میں کیا کارروائیاں کر رہے ہیں۔ یہ صرف اسی وقت حرکت میں آتے ہیں جب کوئی بہت بڑا واقعہ رونما ہوتا ہے۔ پنجاب کی موجودہ اور اس سے قبل کی تمام حکومتیں کچے کے علاقوں کو ڈاکوئوں کے رحم وکرم پر چھوڑنے کی ذمہ دار ہیں۔ وہ اس لیے کہ علاقے کی معاشی اور سماجی حرکیات کا کبھی تجزیہ تو درکنار‘ ادراک تک نہ کر سکیں۔ محض تادیبی ردعمل ہی دکھایا جاتا ہے۔ سب حکمران ٹولے لاہور سے اچانک وارد ہوتے ہیں‘ تصویریں بنوا کر اپنے ٹھنڈے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں‘ جہاں بیٹھ کر بیانات جاری کرتے رہتے ہیں۔ تعلیمی ادارے کچھ موجود ہیں مگر زیادہ کی ضرورت ہے۔ اور سب سے زیادہ ضرورت سڑکوں‘ صحت کے نظام تک رسائی اور مقامی لوگوں کے نوجوان طبقے کے لیے ہنرمندی کی تعلیم کی ہے۔ جب تک ہم سماجی اور معاشی حالات اور اسباب کو نہیں سدھارتے‘ کچے میں ڈاکو پیدا ہوتے رہیں گے۔