کوتاہ نظری کا شکار کوئی ہو تو موجیں ہی موجیں‘ کہ ایسے میں نہ ماضی کی طرف دھیان جاتا ہے‘ نہ سر پر منڈلاتے خطرات کا احساس ہوتا ہے۔ اس وقت صرف عقل کے اندھے ہی اس بات سے انکار کر سکتے ہیں کہ ہم دہشت گردی‘ انتہا پسندی‘ لاقانونیت‘ کرپشن اور سیاسی عدم استحکام کے پنجوں میں پھنسے ہوئے نہیں ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ اقتصادی ہے جس میں اندرونی اور بیرونی قرض کا بوجھ اس قدربڑھ گیا ہے کہ ہر طرف ہم نے دستِ سوال دراز کیا مگر پرانے دوستوں نے بھی کچھ سمجھانے بجھانے اور قیمتی مشوروں اور نصیحت کے انبار لگانے کے علاوہ معذوری ظاہر کر دی ہے۔ خبروں کے مطابق اب مشرقِ وسطیٰ کے بینکوں سے چار ارب ڈالر ادھار مانگے جا رہے ہیں کہ کہیں دیوالیہ ہونے کا اعلان نہ کرنا پڑ جائے‘ مگر ناخواندہ افراد بھی جانتے ہیں کہ قرض ادا کرنے کیلئے لیا جانے والا قرض اس بوجھ کو مزید بڑھائے گا‘ اور ملک کی معاشی کمر جو خمیدہ ہو چکی ہے‘ ٹوٹ جانے کا خدشہ بڑھ جائے گا‘ اور پھر خود اُوپر اٹھنا محال ہو جائے گا۔ کوئی اٹھانے کے لیے آئے گا تو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی‘ یا پھر ہم داخلی خلفشار کا اتنا شکار ہو جائیں گے کہ قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔ آئے روز جو خبریں ہمارے سامنے آتی ہیں‘ وہ خلفشار کے زمرے ہی میں آتی ہیں۔
بلوچستان‘ خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر کے کئی علاقے ہیں جہاں بجلی کے بل کوئی ادا نہیں کرتا‘ یا پھر معمولی سی فکسڈ رقم رکھی گئی ہے جو وہ ادا کرتے ہیں۔ اس کا بوجھ قومی خزانے پر ہے‘ اور اسے سہارنے کے لیے ملک کے دیگر حصوں کے شہریوں کو اپنا پیٹ کاٹنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے خیبر پختونخوا کے ایک ضلع میں لوگوں نے سڑکیں بند کر دیں کہ چونکہ بجلی ان کے علاقے کے پانی سے بنتی ہے‘ اس لیے انہیں بجلی مفت فراہم کی جائے۔ 28 اگست کو ملک کے تاجروں نے ٹیکس نیٹ میں آنے سے بچنے کے لیے ہڑتال کی۔ بڑے شہروں میں اکثر دکانداروں کی روزانہ کی سیل لاکھوں میں ہے‘ لیکن وہ دھڑے بندی‘ دھونس اور یونین کا دبائو ڈال کر برائے نام ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ سارا بوجھ تنخواہ داروں پر آن پڑا ہے‘ جو بنیادی طور پر متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ حکمران طبقات سے لے کر بڑے تاجروں‘ سمگلروں اور طاقتور پیشوں سے تعلق رکھنے والوں سے کمزور سی ریاست ٹیکس وصول نہیں کر سکتی‘ جو حکمرانی کے فرائض کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
کس کس مسئلے کا رونا روئیں۔ ملک کئی بحرانوں کا شکار ہے‘ اور ملک کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں ہے انہیں آپ گزشتہ نصف صدی سے جانتے بھی ہیں‘ پہچانتے بھی ہیں‘ مگر آپ جتنا بھی ووٹ بیلٹ باکس میں ان کے خلاف ڈالیں‘ ہمیشہ جیت کا اعلان انہی کا ہوتا ہے۔ انہی مہربانوں کی مہربانیوں سے ہی بجلی کی پیداوار کے نجی کارخانے لگے‘ جن کی شرائط قیمتِ خرید اور استعدادی پیداوار کے مطابق ادائیگیوں کی سہولت‘ اور وہ بھی ڈالروں میں‘ جس سے ہماری صنعتیں تباہ‘ عوام بے حال اور ریاستی خزانے خالی ہوئے ہیں۔ ملک کے طول وعرض میں صرف بجلی کے بل بھرنے کی افتاد پڑی ہوئی ہے‘ لیکن مجال ہے کہ کوئی ٹس سے مس ہو۔ دن رات فقط ایک ہی منترا ہے کہ ایک معتوب پارٹی کو کس طرح فکس کیا جائے‘ اور اقتدار کو طول دینے کے لیے کیا کیا آئینی اور غیر آئینی حربے استعمال کیے جائیں۔ یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ اور زیادہ سخت الفاظ ہم استعمال کرنا مناسب بھی خیال نہیں کرتے کہ ہم اندر سے کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ جن کے ہاتھوں میں اقتدار تھمایا گیا‘ وہ صرف سازشوں کا تانا بانا بننے اور دھڑے بندیوں کی حسبِ منشا تشکیل کے ماہر ہیں‘ فنِ حکمرانی اور مفادِ عامہ کی استعداد سے ہمیشہ تہی دامن تھے۔ بدعنوانی کی سب کہانیاں اب تاریخ کے بند بستوں کی زینت ہیں‘ زوال کی کہانی جب لکھی جائے گی تو شاید کوئی مورخ ان پر ڈالی گئی گرد ہٹا کر دنیا کو ہماری حالت زار اور بے بسی سے آگاہ کر سکے۔
ہمارے خطے کے گرد ونواح کے حالات ہوں‘ مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی اور غزہ میں دنیا کے سامنے فلسطینیوں کی نسل کشی اور معصوم لوگوں کا قتلِ عام ہو یا روس اور یوکرین کی جنگ‘ ہم ان کے اثرات سے نہیں بچ سکتے۔ ہمارے ملک میں خوراک اور توانائی کی قیمتوں کا براہِ راست تعلق عالمی حالات اور جنگوں سے ہے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا تعلق بھی مشرقِ وسطیٰ کی چند کلیدی ریاستوں کی تباہی اور وہاں کھنڈرات کی دھول سے اٹھتی ہوئی دہشت گردی کی تحریکوں سے ہے۔ اور پھر شاید ہمارے حکمرانوں کو اپنے مخصوص دھندوں سے فرصت نہ ملی ہو‘ کہ ذرا غور سے دیکھ سکیں کہ چین اور امریکہ کی بڑھتی ہوئی کشیدگی سے ہماری سلامتی اور اقتصادی بحالی کس طرح متاثر ہو سکتی ہے۔ بدلے ہوئے علاقائی اور عالمی ماحول میں ہماری اہمیت اور جگہ اب وہ نہیں رہی جس کا دعویٰ ہم عشروں سے کرتے آئے تھے۔ اب چاہیں بھی تو کسی کی جنگ میں کودنے کی ہمت نہیں رہی۔ شاید یہ قدرت کا انتقام ہے‘ یا پھر ہماری تزویراتی میدانوں میں تصوراتی سوچ کا انجام کہ اب ملک کے اندر کئی محاذ کھلے ہوئے ہیں اور ہم روزانہ اپنے بہترین افسروں‘ جوانوں اور پولیس اہل کاروں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے پر مجبور ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہونے والے گزشتہ ہفتے کے واقعات کی کڑیاں اندر کے حالات اور بیرونی ممالک سے جڑے ہوئے معاملات میں آپ کو آسانی سے نظر آ سکتی ہیں۔ اس لحاظ سے ہماری سیاست اور یہ بندوبستی نظام ہو یا خارجہ تعلقات اور ہماری تزویراتی ترجیحات اور حکمران ٹولوں پر مخصوص انداز میں نظر انتخاب‘ سب میں جمود‘ شخصی مفادات‘ خود پسندی اور خود فریبی کے علاوہ کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔
آپ میں سے کچھ ضرور سوچتے ہوں گے کہ مسائل کا تو ہم نے آپ کے سامنے انبار لگا دیا ہے‘ لیکن حل کیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب کسی مسئلے کی نشان دہی کی جاتی ہے تو حل بھی اس کے اندر ہی ہوتا ہے۔ اصل مسئلہ جس نے ہمیں مفلوج کر رکھا ہے‘ اور ہم آگے بڑھنے کا حوصلہ‘ ہمت اور اجتماعی استعداد کھو بیٹھے ہیں‘ وہ بنیادی نوعیت کا ہے‘ کہ ہم آئین کے مطابق ریاست چلائیں گے‘ یا کچھ لوگوں کے ذاتی مفادات اس پر حاوی ہوں گے۔ جن ممالک نے یہ فیصلہ کر لیا ہے‘ ان کی ترقی کی رفتار‘ داخلی امن اور استحکام نہ رکے ہیں اور نہ وہ بحرانوں کا شکار ہوتے ہیں۔ عالمی تناظر میں اگر مشکلات پیدا بھی ہوتی ہیں‘ ان کے عوام کو جواب دہ قیادت اور عوام کی مرضی سے بنی حکومت حالات کو سنبھال لیتی ہے۔ گزشتہ ڈھائی سالوں میں تو ہمارے حکمرانوں اور طفیلی سیاسی دھڑوں کی طاقت صرف ایک ہی سمت صرف ہو رہی ہے کہ اس بندوبستی نظام کی رونق کیسے قائم رکھی جائے۔ ہم تو جانتے ہیں کہ رونق اگر کہیں ہے تو حکومتوں سے وابستہ سیاسی گروہوں‘ تابع فرمان نوکر شاہی اور گماشتوں کے لیے۔ عوام کے لیے فکرمندی‘ معاشی بدحالی اور روزانہ کہیں نہ کہیں لاشیں اٹھانے کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ اپنی زندگی میں نہ جانے کتنی حکومتیں دیکھیں‘ اور کیسے کیسے سیاسی شعبدے باز اور فن کار خوشامدی مشاہدے میں آئے‘ مگر آج جیسی مثال کبھی دیکھی نہ سنی۔ ہمیں تو آئندہ کا سوچ کر خوف آتا ہے‘ اور خدشات مزید بڑھ جاتے ہیں کہ ملک کے اندر اور باہر رونما ہونے والے خوفناک واقعات کے باوجود مسندِ اقتدار پر بٹھائے ہوئے خواتین و حضرات بڑھکوں‘ نعروں اور گھسے پٹے فقروں کے علاوہ کچھ اور سوچنے کی استعداد سے محروم نظر آتے ہیں۔ ہم بہت مشکل میں ہیں‘ اگر نہیں‘ تو وہ مشکل میں نہیں جن کے ٹھکانے اور خزانے کہیں اور ہیں۔