آج کل‘ بلکہ کئی مہینوں سے اتحادی حکومت کے ہر درجے کے نمائندے آئینی عدالت کے قیام کو کبھی ضروری اور کبھی مجبوری کا نام دے کر آئین میں اکٹھی پچاس ترامیم ایک پیکیج کی صورت پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور کرانے کی کوشش میں ہیں ۔ ''ضروری‘‘ والی بات تو سمجھ آتی ہے مگر ''مجبوری‘‘ کا تذکرہ ایک بڑی سیاسی جماعت کے لیڈر کے منہ سے‘ جو مبینہ طور پر ظاہر کرتا ہے‘ اس پر کوئی تبصرہ کرنے کی اس درویش میں ہمت نہیں۔ مزید برآں‘ آئینی عدالت کی افادیت پر زور دینا کسی خواہش‘ یا ہو سکتا ہے اگلی منصوبہ بندی کی طرف اشارہ ہو۔ صوبوں میں بھی آئینی عدالتوںکی تشکیل پر اصرار ہے۔
لگے ہاتھوں پہلے تاریخ کی سب سے پرانی آئینی عدالت کا تذکرہ کر لیں تا کہ اندازہ ہو سکے کہ اتحادی حکومت میں جماعتوں کے اصل مقاصد کیا ہو سکتے ہیں اور وہ کیونکر جلد بازی میں آئین اور اس کی بنیاد پر استوار سیاسی نظام کا حلیہ مزید بگاڑنا چاہتی ہیں۔ امریکی سپریم کورٹ کو دنیا کی قدیم ترین آئینی عدالت کہا جاتا ہے۔ چیف جسٹس جان مارشل کو ایک انتہائی پیچیدہ اور مشکل فیصلہ کرنا پڑا۔ جاتے جاتے کانگریس نے جیرڈ ہنری ایکٹ 1801ء پاس کیا جس میں سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد چھ سے پانچ کر دی گئی اور وفاقی سرکٹ کورٹس بنا کر23 ججوںکی تقرری‘ جو اس جماعت کے حامیوں میں سے تھی‘ کر دی۔ مگر عجلت میں تقرری کے لیٹرز اپنی میزوں کی درازوں میں چھوڑ گئے۔ امریکہ کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن نے کچھ ہفتوں بعد اقتدار سنبھالا تو وہ تقرری نامے ملے جو انہوں نے مسترد کر دیے۔ امریکی تاریخ میں ان نامزد کردہ ججوں کو ''مڈنائٹ جج‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان میں سے صرف ولیم ماربری نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو چیف جسٹس مارشل کے لیے مشکل پیدا ہو گئی۔ اگر وہ صدر جان ایڈم کی انتظامیہ کے نامزد کردہ جج کی تعیناتی جائز قرار دیتے تو انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ تھامس جیفرسن نے اس فیصلے پر عمل نہیں کرنا اور ایسے میں سپریم کورٹ کی کوئی وقعت نہ رہتی۔ اور اگر وہ اسے ناجائز قرار دیتے تو گزشتہ کانگریس اور صدر کی توہین اور انہیں تھامس جیفرسن کا حامی ہونے کا طعنہ سہنا پڑتا۔ انہوں نے جوڈیشری ایکٹ کو بار بار پڑھا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ مقننہ‘ جسے امریکی نظام میں کانگریس کہتے ہیں‘ کا بنایا ہوا قانون آئین سے متصادم ہے۔ اس تاریخی مقدمے کو آئینی عدالتوں اور آئینی تاریخ میں ماربری بنام میڈسن (Marbury v. Madison) کہا جاتا ہے۔ اس فیصلے میں جوڈیشل نظرثانی کی روایت کی بنیاد پڑی اور ریاستی اداروں میں تقسیمِ اختیارات‘ جسے انگریزی میں Separation of Power کہا جاتا ہے‘ کی بنیاد پر جمہوریت کی عمارت کھڑی کی جانے لگی۔
معافی چاہتا ہوں‘ کچھ تفصیل میں جانا پڑا کہ ہمارے میڈیا میں بولنے والے ہر وہ بات کرتے ہیں جس سے ان کے اپنے سیاسی بڑوں کی نظروں میں وفاداری کے نمبر لگیں مگر تاریخ اور دیگر ممالک کی آئینی روایات کے بارے میں یا لاعلمی کا شکار ہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی افلاطونی سے کام چلا لیں گے۔ دولتِ مشترکہ کے تمام ممالک‘ جن کی سیاسی روایات کا ہم بھی حصہ ہیں‘ میں امریکی سپریم کورٹ کی طرح ہماری عدالتِ عظمیٰ ہی آئین کی تشریح کرتی ہے اور گزشتہ 70 سال سے کرتی چلی آرہی ہے۔ مسئلہ الگ عدالت کا نہیں‘ مسئلہ کچھ ناپسند فیصلوں اور ناپسند ججوں کا ہے اور اس پوری آئینی عدالت کی جنگی پیمانے پر قیام کی کاوشوں کا سیاق و سباق ملک کی موجودہ سیاسی دھڑے بندی‘ اقتدار کی کشمکش تو اپنی جگہ مگر ہنگامی طور پر کچھ اہم ترین اداروں کے سربراہوں کو مزید کچھ عرصہ کے لیے ملک و قوم کی خدمت پر مامور رکھنا ہے۔ اپنا دامن چھڑانے کے لیے کہہ سکتے ہیں کہ لوگوں کے ذہنوں میں اس نوع کے غلط خیالات کی آج کل بھرمار ہے۔ جو سوال کچھ باشعور اور بہت سے بے شعور حلقے اٹھا رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اکتوبر کا مہینہ آخر آئینی ترمیم کے لیے کیوں ضروری ہے اور اگر یہ اتنا ہی ضروری ہے تو 18ویں ترمیم کے وقت یہ سوچ کیوں غائب تھی؟ ابھی تک کوئی تسلی بخش جواب نہیں آیا‘ سوائے ضروری اور مجبوری کی تکرار کے۔
ایک اور بات جو اَب تک ہماری سیاسی تاریخ کی سرخ کتاب میں جلی حروف میں لکھی جا چکی۔ گزشتہ ماہ رات کے اندھیرے میں آئینی پیکیج پاس کرنے کی زبردست کوشش ہوئی مگر تعداد پوری نہ ہو سکی۔ اتحادی جماعتوں اور تحریک انصاف کے لوگ ایک ہی آستانے کا بار بار طواف کرتے رہے اور مولانا فضل الرحمن‘ جنہیں ہم اس بلا کو ٹالنے کی ہمت کے اعتراف میں قومی ہیرو کا لقب گزشتہ کالم میں دے چکے ہیں‘ ڈٹ گئے۔ جب یہ تدبیریں ہو رہی تھیں تو چند دن پہلے ایک تاریخی فیصلہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کے حوالے سے آگیا کہ کسی جماعت کے منحرف اراکین کے آئینی ترمیم کے لیے ووٹوں کا شمار ہو سکتا ہے۔ اب تو بات ہی ختم ہو گئی۔ بے شک مولانا فضل الرحمن پہاڑ بنے رہیں اور ہم مبینہ قومی سیاسی خودکشی کے خدشات کا گلا پھاڑ پھاڑ کر اظہار کر ر ہیں‘ حکمران جو کرنا چاہتے ہیں وہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ شاید اب عوام کی دعائیں بھی کام نہ آئیں۔ زیادہ تو معلوم نہیںکہ دنیا کی تاریخ میں یہ پہلی آئینی ترمیم ہے جس کا اراکینِ اسمبلی اور سینیٹ کے پاس بھی مکمل مسودہ نہیں۔ جمہوری ممالک میں ایک ایک ترمیم پر مہینوں‘ بلکہ سالوں تک بحث ہوتی ہے۔ لیکن جو کچھ معلوم ہو سکا ہے‘ اس کے چند نکات ہی ''سیاسی خود کشی‘‘ کے خطرے کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔ پہلی بات‘ آئینی پٹیشنز کو سننے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس نہیں رہے گا۔ ایسے کیسز کو ایک نئی آئینی عدالت سن سکے گی جس کے سربراہ کی تقرری صدرِ مملکت وزیراعظم کے مشورے سے کریں گے۔ اس کے بعد صدرِ مملکت اس عدالت کے چیف جسٹس سے مشورے کے بعد دیگر ججوں کا تقرر کریں گے۔ ''نیشنل سکیورٹی قوانین‘‘ کے تحت کسی بھی افسر کے کاموں کا کوئی بھی عدالت جائزہ نہیں لے سکے گی۔ ہائیکورٹس کے ججوں کا تبادلہ ایک عدالت سے دوسری عدالت میں ان کی منشا کے بغیر ہو سکے گا۔ حساس مقدمات کو بھی ایک عدالت سے دوسری عدالت میں منتقل کرنے کی قانونی گنجائش پیدا ہو جائے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اصلاحات تو قومی زندگی کے ہر شعبے میں عشروں سے سیاسی مصلحت کشی کا شکار ہیں‘ اور اب بھی ہیں مگر عدالتِ عظمیٰ کے بارے میں اتحادیوں کی فکر مندی‘ عجلت‘ راز داری اور حیلہ سازی کا اکتوبر کے مہینے میں سب کچھ کرنے کا کیا جواز بنتا ہے؟ اس سوال کا جواب سب جانتے ہیں‘ اور سوال ہے کہ ذہنوں‘ زبانوں اور مکالموں سے جانے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ہمارا دھیان ماضی کی داستان کی طرف جاتا ہے۔ جس دن فیڈرل سکیورٹی فورس(ایف ایس ایف) کے قیام کا بل قومی اسمبلی میں 1973 ء میں پاس ہونا تھا‘ یہ درویش اسمبلی کی مہمانوں کی گیلری میں موجود تھا۔ جماعت اسلامی کے محمود اعظم فاروقی اس فورس کے قیام کے خطرات کے بارے میں بات کر رہے تھے مگر سرکاری لوگوں میں سے‘ جن میں وزیر خارجہ خان عبدالقیوم خان سرفہرست تھے‘ ان کی تقریر کے دوران بار بار شور کررہے تھے کہ چھوڑیں‘ یہ قوم کے مفاد میں ہے‘ پاس ہونے دیں۔ فاروقی صاحب کے چند جملے ابھی تک یاد ہیں ''اس فورس کے قیام کے بعد جو ہمارے ساتھ ہونا ہے‘ وہ تو ہونا ہے‘ مگر ہمیں بات تو کرنے دیں‘‘۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے‘ اتحادی اکثریت کے مطابق عوام‘ جمہوریت اور ملک کے لیے ضروری ہے‘ بلکہ یہ ان کی مجبوری ہے۔