"RBC" (space) message & send to 7575

سرحد کے اُس پار

وہ کیا عجیب تصویر تھی کہ ہمارے انتہائی اہم ادارے کے اُس وقت کے سربراہ کابل کے ایک مشہور ہوٹل کی لابی میں فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کھڑے چائے کے مزے لے رہے تھے۔ یہ امریکی فوجوں کے انخلا کے چند دن بعد کے اچانک دورے کی تصویر تھی۔ اس ملک اور علاقہ کی تاریخ اور حالات وواقعات سے کچھ نہ کچھ واقفیت رہی ہے؛ چنانچہ یہ انداز دیکھ کر حیرانی اور پریشانی برقی رو کی طرح ذہن میں دوڑ گئی۔ حیرانی اس لیے کہ امریکیوں اور دنیا کے سامنے تو ہم دو عشروں سے طالبان کے ساتھ اپنے قریبی اور خفیہ تعلقات سے انکار کرتے رہے لیکن اس کا راز فاش کرنے کے لیے یہ تصویری جھلک ہی کافی تھی۔ ویسے یہ ہمارا مغالطہ رہا ہے کہ ہم امریکیوں اور ان کے حلیفوں کی آنکھ میں دھول جھونک سکتے ہیں۔ پریشانی اس لیے ہوئی کہ ہمارے حکمران طبقات کو دنیا جہان اور اس کے رنگ ڈھنگ کا کچھ پتا نہیں۔ کسے معلوم نہیں تھا کہ امریکہ اور مغربی اتحادی بیس سالہ جنگ کے خاتمے پرکتنے زخمی اور رنجیدہ ہیں۔ طالبان کے حامی یہاں اور جہاں کہیں بھی تھے‘ خوش تھے کہ امریکہ نے جنہیں اقتدار سے محروم کیا‘ اور ایسی جنگ افغانستان پر مسلط کی جس کی دورِ حاضر کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی‘ آخر میں ملک انہی کے سپرد کرکے وہاں سے بھاگنا پڑا۔ یہ الگ بات ہے کہ واشنگٹن میں یہ اندازہ نہیں تھا کہ افغانستان کی فوج جو انہوں نے تقریباً تین ارب ڈالر لگا کر تیار کی تھی‘ اور جن کے لیے جنگ میں انہوں نے تین کھرب لگائے تھے‘ طالبان کو دیکھتے ہی دم دبا کربھاگ نکلے گی۔ افغان طالبان کے سرپرست یہاں بہت خوش تھے کہ امریکہ جب نکل جائے گا تو بھارت‘ جس نے مقامی طور پر ہمارے ملک میں انتشار پھیلانے کا پورا انتظام کر لیا تھا‘ کی حکمت عملی زیادہ دیر نہیں چل سکے گی۔ یہ تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایسے کاموں میں پیسہ چلتا ہے‘ اور اس خطے میں نہ پیسہ دینے والوں کی کمی ہے اور نہ لینے والوں کی۔ یہاں کرائے کے قاتلوں کے ساتھ مہم جوئی کی بہت پرانی روایت ہے۔
کبھی افغانستان کی تاریخ میں بڑے ادوار آئے‘ اور ہر مرتبہ ہم نے اپنی طاقت کے زعم میں مداخلت کاری بھی کی‘ گروہ بندی بھی کی اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر حکومتوں کو گرانے اور بنانے میں تعاون بھی پیش کیا۔ مقصد کچھ لوگوں کی نظروں میں مدافعانہ تھا کہ افغانستان خود اپنے یا کسی دیگر طاقتور ملک کے ہاتھوں میں کھیل کر ہمارے ہاں بدامنی اور انتشار نہ پھیلا سکے۔ ہمارے سرحدی صوبوں کی تاریخ بھی کچھ ایسی ہے کہ جنہوں نے ہمارے خلاف ہتھیار اٹھائے اور عسکریت پسندی کے راستے پر چل نکلے‘ افغانستان کی سرحد عبورکرنا اُن کے لیے اتنا ہی آسان تھا جتنا آپ ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف چل پڑتے ہیں۔ یہ چند سو لوگوں کی بات نہیں تھی‘ ہزاروں کی تعداد میں وہاں پناہ اور اعانت حاصل کرتے اور یہاں ہمارے شہروں‘ بازاروں اور عبادت گاہوں کو نشانہ بناتے رہے۔ تحریک طالبان اور بلو چستان میں دہشت گردوں کے حملے‘ وقت کے بدلنے کے ساتھ نئے دہشت گرد گروہوں کی نئی کھیپ کی وجہ سے ہیں۔ جب بلوچستان کی حکومت کو ہمارے ایک عوامی اور جمہوری لیڈر نے ایک حکم کے ذریعے ختم کیا تھا تو ایسی تحریک چلی جس کی پناہ گاہ‘ کمین گاہ اور سرپرستی افغانستان میں تھی۔ میری رائے ہمیشہ یہ رہی ہے کہ ناانصافی کے خلاف ہتھیار اٹھانا اور تشدد پر اُترآنا قابلِ جواز نہیں۔ ہم پُرامن مزاحمت کے حامی ہیں اور اسے انسانی قدروں کی علامت اور زیادہ مؤثر طریقہ خیال کرتے ہیں۔ بات تو کچھ اور ہو رہی تھی کہ افغانستان ہمیشہ ہمارے ملک کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کے لیے پُرکشش سرزمین رہی ہے۔ ہم نے بھی جواب ترکی بہ ترکی دیا ہے‘ اور اس کا آغاز ہم نے بلوچستان کی حکومت کی معزولی کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کیا تھا۔ سوویت افغان جنگ میں مجاہدین کی صفوں میں کچھ سرکردہ رہنما ہماری اُس اولین انتظامی پالیسی کے نتیجے میں ابھرے تھے۔
ہماری خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی ناکامیاں اپنے دو پڑوسی ممالک‘ بھارت اور افغانستان کے ساتھ اچھے ہمسایوں کی طرح کے دیرپا تعلقات قائم کرنے میں ناکامی ہے۔ اگر ہم ایسا کر سکتے تو آج ہم بحیثیت معاشرہ اور ریاست وہ نہ ہوتے جو بن چکے ہیں۔ یہ کہنا بھی مناسب خیال کرتا ہوں کہ اگر کبھی ہم اپنی اس ہمسائیگی کو باہمی امن اور سلامتی کے دھارے میں ڈال سکیں تو ہماری تقدیر بدل جائے گی۔ جی تو بڑا کرتا ہے کہ کچھ باتیں دل کھول کر لکھ دوں‘ لیکن ڈر ہے کہ نہ آپ تیار ہیں اور نہ وہ‘ جو فیصلہ ساز ہیں۔ بہت اچھے مواقع آئے لیکن ہم نے بیدردی سے گنوا دیے۔ ہر ایسے امتحان میں ہمارے بڑے بڑے طاقتور برُی طرح ناکام رہے۔ سب تاریخ‘ وقت کی ضرورت اور ملک کی حقیقی حیثیت کا ادراک نہیں رکھتے تھے۔ اگر کہیں تدبر اور حالات پر گرفت اور معاملات کو سلجھانے کے شواہد اپنی تاریخ میں ملتے ہیں تو وہ ہماری آزادی کے پہلے سات برس ہیں۔ یہ بات میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ اس دور کے خارجہ تعلقات کی عام کی گئی دستاویزات نظروں سے گزری ہیں‘ اور وہ سب کمپیوٹر کے مغز میں بھی محفوظ ہیں۔ جب وزیر دفاع کا قلمدان سیاستدانوں سے چلا گیا تو ان کی سیاست بھی اُسی قلمدان کے زیر اثر چلی گئی۔ اس کے بعد چراغوں نے جو خارجہ امور میں روشنی پھیلائی ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔
ماضی کی طرح افغانستان ہمارے معاشرے اور لوگوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کی آماجگاہ ہے لیکن ایسی آماجگاہیں کام نہیں آتیں جب تک اندرونی ماحول ان کے لیے سازگار نہ ہو۔ سہولت کاروں‘ معاونوں اور ہم خیالوں کی عسکریت پسندوں کے لیے کمی نہیں۔ بے شک ہم جتنی چکنی چپڑی باتیں افغان طالبان سے کریں انہوں نے وہی کرنا ہے جو ماضی کی حکومتیں وہاں کرتی آ رہی ہیں۔ اور ظاہر ہے ہم نے بھی تو کوئی کمی انہیں غیر مستحکم کرنے میں نہیں چھوڑی۔ اس بار ہم پھنسے ہوئے ہیں کہ افغان طالبان کے خلاف ابھی کوئی طاقت ابھری نہیں اور افغان بھی طویل جنگوں سے تنگ نظر آتے ہیں۔ شاید یہ میری خام خیالی ہو مگر اس وقت ہم تازہ یا گرم تعاقب کو دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری آزمودہ پالیسی کے لیے شاید کچھ انتظار کرنا پڑے۔ ایسی تمام پالیسیاں انتظامی مداخلت اور دشمن کے دشمن کو دوست بنانا فرسودہ تزویراتی نقطۂ نظر کا بوسیدہ سا ورق ہے۔ زمانہ بدل چکا ہے مگر افغانستان ہمارے خلاف لڑنے مرنے کو تیار مسلح گروہ بھیج رہا ہے‘ اور بدقسمتی سے ہمارے اکابرین کو کچھ سمجھ بوجھ نہیں۔ قیادت تو قیادت‘ عقل اور حکمت کا بھی فقدان ہے۔ تاریخ کی بات میں بار بار کرتا ہوں کہ کسی نے نہ پڑھی ہے‘ اور نہ اس میں دلچسپی ہے۔ جب کل کی ہی کسی کو فکر نہیں تو ماضی کے کل کی گہرائی میں جا کر اس سے کچھ اپنے پلے باندھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ افغانستان کے طالبان جو سوچتے‘ کرتے ہیں اور جو اُن کا نظریہ ہے اس کی چھاپ سرحد کے اس طرف بھی کسی سے چھپی نہیں۔ ان کی اکثریت یہاں تیسری نسل تک پناہ گزین رہی ہے۔ مدرسے ایک‘ استاد ایک اور بہت کچھ ایک تو پھر ذہنی رجحانات اور نظریات سرحدوں کے پابند کیوں ہوں گے؟ پرانی پالیسیوں کے اثرات اور علامات پر توجہ ناگزیر ہے مگر بڑا کام تو اس ذہن سازی کا مداوا ہے جو کوتاہ اندیشی میں دہائیوں تک کرتے رہے۔ اس بار شاید کچھ ٹھیک نہ ہو کیونکہ جو کچھ ہمیں کرنا ہے وہ سرحد کے اُس پار ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں