"RBC" (space) message & send to 7575

صحرا میں ایک درویش

بہت پرانی بات ہے‘ جب میں پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔ جمعہ کے دن اعلان ہوا کہ گل شیر لنجوانی (اونٹ پالنے والی قوم) جس پر 'چوری‘ کے مقدمات تھے اور وہ آبائی علاقے سے کئی برس پہلے بھاگ کر کہیں روپوش ہوگیا تھا‘ اب عالم دین بن کر واپس آیا ہے اور مسجد میں خطاب کرے گا۔ اُسے دیکھنے اور اس کی تقریر سننے کے اشتیاق اور تجسس کی اپنے دل میں کوئی حد نہ تھی۔ ایک طویل القامت خوبرو جوان‘ گندمی رنگت‘ بوسکی کی قمیص اور سفید لٹھے کی شلوار میں ملبوس ادبی اُردو میں تقریر‘ سب لوگ دم بخود رہ گئے۔ نو دس سال گزر گئے‘ اور پھر کبھی انہیں نہ دیکھا۔ ڈیرہ غازی خان کالج میں پڑھتے تھے کہ ایک بازار میں اُن سے ملاقات ہو گئی‘ اور وہاں سے ہماری دوستی کا آغاز ہوا۔ وہ ایک مسجد میں خطیب تھے‘ اور ایک چوبارے میں اپنے مختصر سامان‘ جس میں کتابیں نمایاں تھیں‘ کے ساتھ مقیم تھے۔ کبھی کبھار ان کی طرف چلا جاتا اور وہ کسی قریبی کیفے میں چائے اور مٹھائی سے ہماری تواضع کرتے۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے‘ بات ہمیشہ اردو میں کرتے۔ جب ہم اردو ادب کے دروازے تک ابھی نہیں پہنچ پائے تھے‘ ان کی چارپائی کے سرہانے نیاز فتح پوری کی ''من ویزداں‘‘ دیکھی۔ برسوں سوچتا رہا کہ بچپن سے لے کر اوائلِ جوانی تک وہ قریبی جنگل میں اونٹ چراتے رہے اور وہاں سے نکل کر اس مقام تک پہنچے۔ لوگوں کی سنی سنائی باتوں سے کچھ معلوم تو تھا مگر ان چند سالوں کے طویل وقفوں کے بعد ملاقات میں کبھی انہیں کریدنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔ کالج سے جامعہ پنجاب پہنچے تو اس کے سحر میں ہم بہت کچھ بھول گئے۔ اب نئی دنیا‘ لاہور‘ نئے لوگ اور نئی دوستیوں کی رونق نے ڈیرہ غازی خان کی یادیں مدہم کر دیں۔
ایک زمانہ گزر گیا‘ یوں کہیں کہ زندگی گزر گئی۔ گل شیر‘ جو اَب مولانا غلام مصطفی اور مشہور خطیب بن چکے تھے‘ کے بارے میں کبھی کبھار خیال ذہن میں گزرتا کہ کاش اُن سے ملاقات ہو سکتی۔ اپنے آبائی علاقے جانا ہوتا اور کوئی ان کے قبیلے سے ملتا تو معلوم کرنے کی کوشش ضرور کرتے کہ آج کل وہ کہاں ہیں۔ اُنہیں بھی کچھ معلوم نہ ہوتا کہ وہ ایک جگہ پر ٹکتے نہیں تھے۔ چلتی پھرتی ٹیلی فون کی سہولت جس سرعت اور رفتار سے پھیلی ہے‘ اس پر چلنے والے کئی پروگراموں نے انسانی ارتباط کی شکل ہی بدل دی ہے‘عشروں سے گم شدہ دوستوں سے تعلق ایک نئے رنگ اور انداز میں پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اب یاد نہیں رہا کہ مولانا صاحب کے شہر‘ پتے اور فون نمبر کو کیسے اور کب تلاش کیا۔ وہ صادق آباد‘ جنوبی پنجاب کے آخری شہر میں خطابت کے فرائض کس مسجد میں ادا کر رہے تھے‘ اور ٹھکانہ انتظامیہ کی طرف سے فراہم کردہ ایک کمرے میں تھا۔ کئی برسوں تک فون پر کبھی کبھار بات ہوتی اور آخری فقرہ ہمیشہ یہ ہوتا کہ آپ کی زیارت کب ہو گی۔ کبھی موسم تو کبھی پیشہ ورانہ مصروفیات اور وقت کی کمی آڑے آتی تو کبھی ان کا اصرار‘ کہ آپ زحمت کیوں کرتے ہیں‘ میں خود حاضر ہو جائوں گا۔ تقریباً دس پندرہ یا شاید اب بیس سال ہو چکے ہوں گے‘ کہ مجھے ان کے بارے میں فکر اتنی کہ وہ کس حال میں ہیں‘ اپنی زندگی کیسے گزار رہے ہیں‘ کچھ پتا چلا تو اپنی طرف سے تعاون کی پیشکش کی اور صرف دعائوں میں یاد رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔
ان کے بارے میں اس مختصر مضمون میں کچھ زیادہ نہیں لکھ سکتا‘ صرف یہ کہ ان کے سفرِ زندگی سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ اس بات کی جو خوشی ہے کہ وہ میرے دوست ہیں او ر ان سے آخرکار برسوں سے طے ہوتی ملاقات ہو گئی‘ اس کا بیان محدود لفظوں کے ذخیرے میں نہیں۔ گزشتہ برس نومبر میں بات ہوئی تو کہنے لگے کہ اب تک ایک خواہش ہے کہ آپ کو عمر کے آخری حصے میں دیکھ سکوں۔ میری طرف سے بھی ایک عرصے سے یہی احساس دل میں تھا کہ آج کے زمانے میں ہم سمندر پار سفر کر سکتے ہیں لیکن چولستان کے ٹیلوں میں کسی کو تلاش کرنا کیوں مشکل نظر آتا ہے۔ گزشتہ ہفتے اپنے آبائی علاقے میں گیا تو انہیں فون کیا کہ حاضر ہونا چاہتا ہوں۔ ایک مرتبہ پھر کچھ انتظار کے بعد کہ تکلیف ہو گی‘ وہ مان ہی گئے۔ چند گھنٹوں کی مسافت تھی مگر شروع میں دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر دھند بہت گہری تھی۔ اس کے باوجود ہم نے سفر جاری رکھا۔ اس تلاش میں ہم نے چولستان کے ایک حسین گوشے کی بھی سیر کر لی۔ اس کے بعد سے اب سال میں کم از کم ایک مرتبہ صحر ا کی پُراسرار خموشیوں میں کچھ دن گم رہنے کی خواہش چین نہیں لینے دے رہی۔
ایک مرتبہ فون پر کچھ گفتگو کے دوران اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی کہ وہ کیوں اچانک غائب ہو گئے اور اونٹوں اور جنگل کو چھوڑ کر لاہور میں مولانا احمد علی لاہوریؒ کے شاگردوں میں کیسے شامل ہوئے؟ یہ سطور لکھنے سے پہلے میں ان کے سامنے بیٹھ کر حالات وواقعات کے تفصیل معلوم کرنے کا خوہش مند رہا تھا۔ اٹھارہ جنوری کا دن ہمیشہ یاد رہے گا۔ چھوٹا سا مٹی کے گارے سے تعمیرکردہ دس بارہ فٹ کا ایک کمرہ‘ چھت بھی لکڑیوں اور جنگلی گھاس اور مٹی کے لیپ کی بنی نظر آئی‘ سامنے دو چارپائیوں پر آمنے سامنے بیٹھے‘ جبکہ انہوں نے دستے والی لکڑی پر ٹیک لگائے رکھی اور اپنے عزیزوں کو جلد چائے لانے کا حکم صادر کیا۔ وہ ماضی کے سالوں کو ایک خوبصورت سوانح حیات کی صورت بغیر رکے تہ در تہ کھول رہے تھے۔ وہ دو تین سال کے تھے کہ والد انتقال کر گئے اور نوجوان بیوہ والدہ کی شادی اپنے ہی رشتے داروں میں کر دی گئی۔ مقامی زمیندار‘ جن سے کچھ فاصلے پر اُن کا چند خاندانوں پر مشتمل گائوں تھا‘ ہر روز آ دھمکتے اور زبردستی پکڑ کر اپنی زمینوں اور گھروں پر لے جاتے اور بیگار لیتے۔ گل شیر کی طبیعت میں بغاوت تو شروع سے ہی تھی‘ انہوں نے انکار کیا تو زمینداروں نے چوری کے جعلی مقدمات درج کرا دیے۔ اپنی مظلومیت کا اظہار ایک مقامی بزرگ سے کیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ یہاں سے نکل لو اور کسی مدرسے میں داخل ہو جائو۔ ان کے دل میں بھی اس کی خواہش پیدا ہوتی تھی جب وہ بچوں کو سکولوں اور مدرسوں میں جاتے دیکھتے۔ تین کپڑوں میں گھر سے نکل پڑے اور چند سال ملتان کے قریب جلال پور پیروالا میں تعلیم حاصل کی اور بعد میں لاہور میں مولانا احمد علی لاہوری کی درسگاہ میں مقیم رہے۔
لاہور میں تعلیم سے فارغ ہوئے تو دو ایک مساجد میں خطیب رہے۔ پھر ملتان اور اس کے بعد ڈیرہ غازی خان پہنچے جہاں اُن سے ملاقات ہوئی۔ اس شہر میں وہ مذہبی اور علمی محفلوں میں شریک ہوتے اور عالموں کی رفاقت نصیب آتی۔ فرصت ملتی تو مولانا مودودی کی مجالس میں حاضری دیتے۔ ملک کے وزیراعظم چودھری محمد علی‘ جنہوں نے بعد میں نظام اسلام پارٹی بنائی تھی۔ ملتان میں اس پارٹی نے علما کے ایک تقریری مقابلے کا اہتمام کیا تومولانا غلام مصطفی حقانی‘ جنہیں یہ نام ان کے اساتذہ نے دیا کہ وہ ہمیشہ حق بات کرتے تھے‘ نے پہلا انعا م سابق وزیراعظم کے ہاتھوں وصول کیا۔ اکثر سوچتا ہوں کہ جب کوئی انسان قدم بڑھاتا ہے‘ خلوصِ دل سے اپنے کام میں ترقی کی منازل طے کرتا ہے تو پھر رکاوٹیں اور مشکلات اس کا راستہ نہیں روک سکتیں۔ اب بھی اکیلے ہیں جس طرح انہیں پچیس سال پہلے دیکھا تھا‘ کہ خاندان رکھنے کی استطاعت نہیں تھی۔ جو کچھ خطیبانہ خدمت میں معاوضہ ملتا اسی پر گزارہ کرتے اور کچھ عرصہ چھوٹا موٹا کاروبار بھی کیا اور زمین کا ایک ٹکرا بھی اپنے آبائی گائوں کے قریب خریدا مگر اپنے عزیزوں کی ضروریات کی نذر ہو گیا۔ اب چولستان میں اپنے عزیروںکے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں‘ جو نقل مکانی کرکے کچھ دہائیوں سے یہاں محنت مزدوری کے علاوہ اونٹ پالنے کے پرانے پیشے سے وابستہ ہیں۔ مولانا صاحب کی کل ملکیت پچاس سال پرانا ایک ریڈیو ہے جو آج کل کام نہیں کرتا اور نوکیا کا ایک فون جو برسوں پہلے آیا تھا۔ چھیانوے سال کی عمر میں بھی خوش‘ تندرست اور چاق وچوبند ہیں۔ کوئی دوائی نہیں کھاتے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں