"RBC" (space) message & send to 7575

ہم بھی چرواہے تھے

پہلے وضاحت ضروری ہے کہ بھیڑوں کے بارے میں ہماری علمی استعداد دیگر شعبوں کی طرح محدود ہے‘ لیکن اتنی بھی نہیں کہ بھیڑ اور بھیڑیے میں تمیز نہ کر سکیں۔ بھیڑوں کی معصومیت‘ بے ضرر طبیعت اور ایک سمت میں چلنے کی خُو سے کون واقف نہیں۔ لوگ تو بھیڑ چال کی مثال دے کر روایت پسندی پر حملہ آور ہوتے ہیں‘ مگر ہمارے نزدیک بھیڑیں غیر سیاسی ہونے کے باوجود خود حفاظتی ترکیب میں دیگر جانوروں سے کم ذہین نہیں۔ برطانیہ‘ آسٹریلیا اور اپنے ملک کے ہر حصے میں مشاہدہ کیا ہے کہ بھیڑوں کو قریب قریب ایک ساتھ‘ شانہ بشانہ بلکہ کئی جگہ یک قالب کی صورت دیکھا ہے۔ دور سے وہ بادل کے ایک ٹکرے کی صورت نظر آتی ہیں۔ اس روش کے پیچھے ان کے غموں کی داستان ہو سکتی ہے کہ الگ الگ رہنے میں ان کے جنگلی اور ہمارے جیسے گوشت خور دشمن آسانی سے دبوچ لیتے ہیں۔ اتنی عقل تو پرندوں میں بھی ہے کہ سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں اکٹھے اڑتے اور دور دراز کا سفر طے کرتے ہیں۔ ہم شعور کی دولت کے باوجود ایک ساتھ چلنے‘ رہنے اور پرواز کرنے کا ہنر نہ سیکھ سکے۔ اپنی صحرا نوردی میں جو ایک اور بات بھیڑوں میں دیکھی وہ مل کر کھانے کی ہے۔ کبھی انہیں کسی چراگاہ میں خوراک کی کمی کے باوجود لڑتے نہیں دیکھا۔ خطرہ ہو تو بیک زبان صدائے احتجاج بلند کرتی ہیں۔ چند دن پہلے شدت کی دھوپ سے بچنے کے لیے نزدیک کہیں درخت نہیں تھا تو سولر پلیٹوں کے سائے میں پڑی چارپائی پر بیٹھ کر کالی عینک کے دبیز شیشوں سے کٹی گندم کے بھورے کھیتوں کا نظارہ کرنے لگا۔ سخت گرمی کے اس موسم میں بھی لوگ کہیں بھوسہ تو کہیں دانوں کی بوریاں اکٹھی کرتے ہوئے اور کہیں نئی فصل کی تیاری میں مصروف تھے۔ ان کے ساتھ اونٹ‘ مویشی اور بھیڑ بکریاں آزادی اور بے فکری سے پیٹ پوجا میں مصروف تھیں۔ یہ معلوم نہیں کہ میرے سولر ہیٹ اور کالے چشمے کے حلیے کی کشش تھی یا سائے کی تلاش کہ کچھ بڑی عمر کے تین بچے‘ جن کی عمریں نو اور گیارہ سال کے درمیان ہوں گی‘ آئے اور میرے پاس چارپائی پر بیٹھ گئے۔ وہ اپنی بھیڑیں چراتے چراتے ذرا تھکے سے نظر آتے تھے اور سستانے کے لیے ادھر آ نکلے۔ انہیں دیکھ کر کسی زمانے میں ان آباد زمینوں کی جگہ جنگلات میں ایک دو سال کے لیے اپنا چرواہے کا پیشہ یاد آ گیا۔ یہ ایک معمول کی بات تھی کہ بچہ چار پانچ سال کا ہوتا تو دیگر ہم عمروں کی طرح جانوروں کے ساتھ جنگل میں نکال دیا جاتا۔ ہماری اولین تعلیم بھی ایک عدد گائے چرانے سے شروع ہوئی تھی۔ ہر بچہ اپنے جانور یا جانوروں کا ذمہ دار ہوتا اور ہم چلتے رہتے‘ تھک جاتے تو بیٹھ جاتے‘ دوڑ بھی لگاتے‘ کہیں پانی نظر آتا تو گدلے پانی میں ڈبکیاں لگاتے اور شام کو جس طرح آپ دفتروں سے واپس آتے ہیں ہم بھی مغرب میں سورج کی سنہری کرنوں اور اپنے اجتماعی ریوڑ کے کھروں سے اُڑتی دھول کے بادلوں میں گھروں کو لوٹتے۔ ہماری امی تازہ مکھن میں چپڑی روٹیاں اور دیسی پیاز کپڑے میں باندھ کر ہماری کمر سے لٹکا دیتیں۔ پانی ہمیں خود ہی کہیں تلاش کرنا پڑتا۔ جو ہماری گائے پیتی وہ ہم بھی دو زانو ہو کر پی لیتے۔ مکھنی روٹی اور پیاز سے تعلق سکول داخل ہونے کے بعد مزید پختہ ہو گیا اور ہمیشہ جاری رہا تاوقتیکہ ہم کالج پہنچ گئے۔ مکتب کی کرامت‘ کتاب اور استاد نے ہماری زندگی کو ایک اور رُخ دے دیا۔ کئی دفعہ سوچا کہ نوکری کی درخواست میں چوپانی کا تجربہ بھی شامل کر دوں مگر ہمت نہ ہوئی کیونکہ ہمارے اداروں میں نصابی‘ کتابی علم پر انحصار زیادہ ہے۔ جیمز لاسٹ کی موسیقی کی لازوال شاہکار دھن ''The Lonely Shepherd‘‘ اپنا تو دل ہلا دیتی ہے ا ور آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ جاتی ہے۔
یہ خیال تو تین بچوں کے خود میرے پاس آنے سے ذہن میں گردش کرنے لگا تھا‘ اور کئی روز گزرنے کے باوجود موزرٹ کی وجد آفریں دھنوں کی صورت یہ سطور لکھتے وقت بھی چھایا ہوا ہے۔ ہمارے علاقے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعارف نام سے نہیں‘ قوم سے ہوتا ہے۔ اندازہ درست تھا‘ وہ ٹکرانی بلوچ تھے۔ جب میں نے اُن کے پڑدادا اور دادا کا نام لیا تو وہ حیران رہ گئے کہ اس ''اجنبی‘‘ کو یہ کیسے معلوم ہے۔ اس بارے میں پھر کبھی‘ مگر انہیں کیا معلوم کہ کسی زمانے کا ان کی عمر کا چرواہا اُن سے بات کر رہا تھا۔ عجب اتفاق ہے کہ انہوں نے میرے بارے میں کچھ نہ پوچھا‘ یا شاید انہیں کچھ معلوم تھا کہ یہ اجنبی کبھی کبھار لاٹھی ٹیکتا ادھر آ نکلتا ہے۔ اپنے دور کے چرواہوں کی حساسیت کے پیش نظر نہایت نرم اور دھیمے لہجے میں پوچھا کہ وہ سکول کیوں نہیں جاتے؟ تو اُن کے جواب میں خود اعتمادی اور کھلے پن نے مجھے چونکا دیا ''بس ہماری مرضی‘‘۔ نہ جانے یہ میری مرضی والی بات ٹیلی ویژن سکرینوں سے ان چراگاہوں تک کیسے پھیل گئی؟ یہ مرضی والا جواب مجھے لاجواب کر دیتا ہے۔ ان کے اس تیز بال پر میں نے بھی چھکا لگانے میں تاخیر نہ کی اور کہا کہ سکول کو تھانہ سمجھتے ہیں؟ پھر اُن کے جواب نے بو کاٹا ہی کردیا‘ اور کیا چہروں پر اعتماد اور لبوں پر مسکراہٹ اس گرم دھوپ کی شدت میں بادلوں میں بجلی کی کرنوں کی طرح لپکتی رہی۔ مزید کہا کہ ہم اپنا کام کر رہے ہیں‘ آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ آخرکار پسپائی اختیار کرکے موضوع بدلنا پڑا۔ ہر ایک سے انفرادی طور پر پوچھا کہ اس کے کتنے بہن بھائی ہیں۔ ان کا اس بارے میں جواب شاید آپ کو حیران کر دے۔ میرے لیے اس علاقے کے معاشرے کے حوالے سے روز مرہ کی معلومات کے مترادف ہے۔ سب کے کم از کم پانچ بھائی اور دو تین بہنیں تھیں۔
بیٹوں کی تعداد اس پدرسری معاشرے میں وسائل‘ طاقت اور وقار کی علامت ہے۔ خیال تو یہ تھا کہ شاید کچھ بدلا ہو مگر جب ان کے سوالوں کے ان کی نظر میں مایوس کن جواب دیے تو یوں لگا کہ بہتر سال ساتھ بہنے والے دریائے سندھ میں غرق ہو گئے ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ میرے کتنے بھائی ہیں۔ میں نے کہا کہ میرا کوئی بھائی نہیں‘ اکیلا ہوں‘ تو وہ ہنس پڑے۔ حیران ہوئے کہ میرا کوئی بھائی نہیں۔ پھر پوچھا کہ میرے کتنے بیٹے ہیں تو میں نے کہا کہ ایک۔ اب تو ان کی ہنسی نہیں رک رہی تھی۔ ان کی حیرانی میں مزید اضافے کی غرض سے رضاکارانہ طور پر بتایا کہ میرے بیٹے کا بھی ایک بیٹا ہے تو وہ ہنستے رہے۔ محسوس کیا کہ وہ میری ''عددی غربت‘‘ پر افسوس اور اس کے برعکس اپنی امارت پر فخر کر رہے ہیں۔ ان کی بھیڑوں اور بکریوں کی تعداد معلوم کی تو اوسطاً ان بچوں کے بھائی بہنوں کے برابر نکلی۔ ایک بھائی یا بہن اور ایک بھیڑ پر وہ چرواہے خوش اور پُرجوش تھے۔ خدا معلوم آبادی کی اس دوڑ میں آئندہ سالوں میں اس خاندان میں بچوں کی تعداد زیادہ ہو گی یا بھیڑ بکریوں کی۔ ان چرواہوں کے پاس بغل میں لٹکی پانی کی بوتلیں اور گلے میں ہمارے دور کا ریڈیو نما موسیقی کا آلہ لٹکا ہوا تھا‘ جسے وہ ایم پی تھری کہہ رہے تھے۔ یہ چینیوں کی ایک اور عالمگیر تخلیق ہے جس میں دھوپ کی روشنی سے ریکارڈ شدہ موسیقی ہاتھ کا اشارہ کرتے ہی بجنا شروع کر دیتی ہے۔ میری کم علمی کا ازالہ کرنے کے لیے انہوں نے موسیقی بھی سنائی اور میری حیرانی پر موسیقی سے زیادہ محظوظ ہوتے رہے۔ سوچتا ہوں کہ کاش وہ ہماری آزادی کے اوائل کے برسوں کا زمانہ لوٹ آتا‘ کوئی استاد زبردستی بچوں کو سکول میں لازمی تعلیم کے قانون کے تحت داخل کرتا اور غریبوں کی اجڑی نسلیں ہماری طرح مکتب سے فیض یاب ہوتیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں