"RBC" (space) message & send to 7575

ایک درخت کی کہانی

درختوں کی بھی زندگی ہوتی ہے۔ ان میں ایسے بھی ہیں جو ہزاروں سال زندہ رہتے ہیں۔ انسان‘ پرندے اور جنگلی جانور درختوں ہی سے فائدہ اٹھاتے ہیں‘ ان کا کھاتے ہیں‘ ان کے سائے میں جیتے ہیں اور اپنا وقت گزار کر ایک دن زمین کے ہو رہتے ہیں۔ درخت وقت کے ساتھ اپنی شان وشوکت‘ طاقت وتوانائی اور رعب ودبدبے میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ سان فرانسسکو کے تاریخی پل‘ گولڈن گیٹ بریج کو عبور کریں تو کچھ فاصلے پر ریڈ وڈ قسم کے درختوں کا قدرتی جنگل ہے جسے دیکھنے کا ہمیں چالیس سال پہلے موقع ملا تھا۔ تنا اتنا چوڑا کہ دیوار کا گمان ہوتا ہے‘ اور بلند اتنے کہ کھڑے کھڑے چوٹیوں کو دیکھ نہ پائیں۔ ان کے بارے میں پھر کبھی سہی‘ مگر آج ایک ایسے درخت کی کہانی سناتا ہوں جو ایک سو سال کا تھا‘ کئی لحاظ سے منفرد تھا۔ اکلوتا‘ دور سے رات کو چاندنی میں روشنی کے مینار کی طرح نظر آتا اور مسافروں کی رہنمائی کرتا تھا۔ اس کے اردگرد اور کوئی درخت نہ تھا۔ جہاں یہ قدرتی طور پر پیدا ہوا‘ وہ بھی اپنی نوعیت کے لحاظ سے عام جگہ نہ تھی۔ گہرائی کی وہ تہہ جہاں دو بلند پہاڑیوں کی ڈھلوان ایک چھوٹے سے فرشی تختے کی صورت ختم ہوتی تھی۔ کہیں سے اُڑ کر کوئی بیج یہاں آیا ہوگا اور سیقامور (Sycamore) کا پودا توانا درخت بن کر ہمارے وقتوں میں اپنی شناخت تمام برطانیہ میں عام کر چکا تھا۔ نباتاتی طور پر اس کا تعلق انجیر اور شہتوت سے ہوتا ہے۔ اس کا پھل انجیر جیسا اور پتے شہتوت کے درخت سے مشابہ ہیں۔ اردگرد کی آبادیوں اور دیہاتوں کے علاوہ شمالی انگلستان میں بھی لوگ اس درخت سے محبت کرتے تھے۔ سارے ملک میں اس کی شہرت پھیلی ہوئی تھی۔
نوجوان جوڑے اپنی محبت کے اظہار اور بات پکی کرنے کی غرض سے اس سیقامور کے سائے میں بیٹھتے‘ کچھ وقت گزارتے اور عہد وپیمان باندھ کر رخصت ہو لیتے۔ شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد وہ یہاں اظہارِ تشکر کے طور پر ایک بار پھر حاضر ہوتے‘ تصویریں بناتے اور اپنی یادداشتیں محفوظ کرتے۔ خوشگوار دنوں میں لوگ یہاں پکنک مناتے اور ہر عمر کے لوگ ایک میلے کا سا سماں باندھ دیتے۔ اس درخت کی شہرت اتنی بڑھی کہ یہاں ایک فلم کی عکس بندی بھی کی گئی۔ شاید اس کی شہرت اور عظمت سے کوئی حسد کرتا تھا‘ یا پھر اپنی منفی شہرت کی ہوس میں کسی نے 28 ستمبر 2023ء کی شب اسے کاٹ کر پھینک دیا۔ اگلے دن برطانیہ کے اخباروں میں اس پر المیہ شہ سرخی لگی اور ہم نے یہ خبر نیویارک ٹائمز میں بھی پڑھی اور اس کے بعد اس کے بارے میں کئی کہانیاں چھپی دیکھیں۔ برطانیہ کے عام لوگوں کی طرح دیگر بھی اپنی اپنی سرزمین پر غم میں ڈوب گئے۔ ہم بھی انہی میں سے ہیں جو دوسروں کی موت پر اپنوں کی یاد میں غمگین ہو جاتے ہیں۔ میرے خیال میں ہر انسان ایسا ہی کرتا ہے۔ ہم اپنے پرانے جنگل اور ان سینکڑوں سال پرانے درختوں کی یاد دل میں سمائے سیقامور کے ناگہانی قتل کے صدمے سے اب تک نہیں نکل پائے۔ نہ صرف عالمی اخبارات میں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی ایک طوفان کھڑا ہو گیا کہ آخر رات کے اندھیرے میں کوئی ایسا قبیح فعل کیوں کرے گا۔ شجردوست تڑپ اٹھے‘ اور ہر طرف سے مطالبہ تھا کہ اس درخت کے کاٹنے والوں کو تلاش کرکے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ یہ ایک طرح سے اندھے قتل کا واقعہ تھا۔ عوامی غم وغصہ تو تھا ہی مگر اس مشہور درخت کے اس طرح گرائے جانے پر پولیس اور خفیہ ادارے کیسے خاموش رہتے۔ ہم اپنی نہیں‘ ایک اور ملک کی بات کر رہے ہیں جہاں آپ کے گھر کے ساتھ اگر کوئی درخت اپنی جگہ بنا لے تو آپ ضرورت پڑنے پر بھی اسے کاٹ کر اپنا گھر دوبارہ تعمیر نہیں کر سکتے۔
ایک دو ہفتوں کی چھان بین کے بعد پولیس نے دو مشتبہ افراد کو تفتیش کے لیے بلایا‘ بات چیت کی اور گھر بھیج دیا۔ وہاں ہماری پولیس کا روایتی طریقہ استعمال نہیں ہوتا۔ پولیس اپنے طور پر شواہد اکٹھے کرتی رہی‘ مختلف لوگوں سے معلومات بھی لیتی رہی اور جب اسے یقین ہوگیا کہ اس جرم کا ارتکاب قریبی دیہات کے مکین ڈینیل گراہم اور ایڈم کرتھرز نے کیا ہے تو انہیں گرفتار کرکے مقدمہ درج کر لیا۔ لیکن ضمانت پر رہا بھی کر دیا۔ دونوں نے اس الزام کی صحت سے انکار کیا۔ قاتل بھی ایسا ہی کرتے ہیں‘ اور قانون کی روح یہی ہے کہ عدالت میں جرم ثابت ہونے تک آپ بے گناہ ہیں۔ نو مئی کے دن عدالت لگی‘ جیوری کے سامنے پولیس نے ناقابلِ تردید ثبوت رکھے تو سب نے ان دونوں کو مجرم قرار دے دیا۔ یہ نوجوان سستی شہرت کے بھوکے تھے یا اُن قاتلوں کی طرح تھے جو مشہورِ زمانہ افراد کو قتل کرکے بدنامی کمانا چاہتے تھے کہ یہ بھی مشہور ہونے کا ایک طریقہ ہے۔ ان میں سے ایک بڑے خودکار آرے سے سیقامور کو کاٹتا رہا جبکہ دوسرا اپنے فون پر اس کی فلم بنا رہا تھا۔ اگلے دن جب ان کے درمیان خوشی سے لبریز برقی پیغامات کا تبادلہ ہوا تو ایک نے لکھا کہ خبر پوری دنیا میں پھیل چکی ہے اور سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ شاید وہ یہی چاہتے تھے۔ اتنی سی بات کے لیے انہوں نے لاکھوں لوگوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچائی تھی اور ہم جیسے درویشوں کو غمناکی میں ڈبو دیا تھا۔
مقدمے کے دوران ٹھوس ثبوت پیش کیے گئے۔ دیہات کے کیمرے میں اُس وقت رات کو ان کی گاڑی نکلی تھی اور فلم بندی کی پٹی ان کے فون میں محفوظ تھی۔ عدالتی کارروائی کے دوران کچھ مزید دلخراش باتیں بھی سامنے آئیں۔ ایک نے کہا کہ وہ تو رات اپنی نوزائیدہ بچی اور اپنی پارٹنر کے ساتھ سویا ہوا تھا۔ ثبوت اس کے برعکس تھے اور سب کو حیران کر گئے کہ اپنی بچی اور پارٹنر کو چھوڑ کر یہ درخت کاٹنے کی مہم جوئی میں چلا گیا تھا۔ سب سے حیران کن اصرار اس بات پر تھا کہ درخت ہی تو تھا‘ کاٹ دیا تو کیا قیامت آ گئی؟ یہ جملہ ہم نے نجانے کتنی بار اس ملک میں سنا ہے‘ جب کسی کو ایسا کرنے سے منع کیا ہے۔ پندرہ جولائی کو ان کی سزا کا اعلان ہوگا۔ دیکھیں‘ کیا سزا تجویز ہوتی ہے۔
پچھلے سال جب رینجرز اس جگہ واپس گئے تو سیقامور کی جڑ کے قریب سے کچھ تازہ شاخیں نکلی ہوئی تھیں۔ اب ان کی نگرانی ہو رہی ہے کہ ایک دن ان کی جگہ ایک اور تناور درخت اپنی جگہ بنا لے گا۔ ماہرینِ نباتات نے اس درخت کی جینز اور ادھر اُدھر بکھرے بیجوں سے پودے اگانے شروع کر دیے۔ اس سال کے لیے انچاس پودے بنائے گئے ہیں جو مختلف علاقوں میں اس کی یاد میں لگائے جائیں گے۔ ہم اُدھر ہوتے اور ہمارا بھی کوئی حق ہوتا تو ہم بھی اپنی جھولی ضرور پھیلاتے۔ یہاں سیقامور تو نہیں ملتے اس کے متبادل ہمارے درخت لگانے کا سلسلہ اس کی یاد دل میں سمائے‘ اس سال بھی جاری رہے گا۔ سوچتا ہوں کہ جنگلات اور درختوں کے بارے میں ہم اپنے معاشرے میں ایسی حساسیت پیدا کر سکتے‘ اور ہمارے نوجوانوں‘ بوڑھوں‘ عورتوں اور بچوں میں شعور کی فطری بالیدگی ایسی ہوتی کہ کوئی جگہ خالی نہ رہتی۔ ہم تو درختوں کا ناحق قتل‘ تلفی اور بربادی ہر جگہ دیکھ کر کڑھتے رہتے ہیں۔ شکر ہے کہ زمین کے کچھ ٹکڑے ہیں جہاں ہم اپنا فرض نبھاتے آئے ہیں۔ فطرت کی برکتوں کا کوئی حساب نہیں اور الفاظ نہیں کہ واجب شکر بھی ادا کر سکوں۔ درخت ہمارا سہارا ہیں۔ جتنے زیادہ ہوں‘ اتنا ہی اچھا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں