"RBC" (space) message & send to 7575

کچھ اور ضروری کام

بہت خوشی ہے کہ دفاعی جنگ میں ہر لحاظ سے ہمارا پلڑا بھاری رہا۔ اس سے کہیں زیادہ خوشی اس بات کی کہ بھارتی قوم پرستوں کا غرور چند گھنٹوں میں خاک میں ملتے پوری دنیا نے دیکھا۔ نفرت کے زہر میں سموئے بیانیے اور ہمارے معاشرے اور ملک کے بارے میں تحقیر آمیز رویوں کی دھن میں تراشے افسانے ہماری دفاعی طاقت کی بارش کا پہلا قطرہ پڑتے ہی مٹ گئے۔ اس مرتبہ تو ہمیں سبق سکھانے کی بھرپور تیاری کر رکھی تھی۔ نئے نکور فرانسیسی اور یورپی ٹیکنالوجی کا شاہکار رافیل طیارے‘ جن کے نہ ہونے کا وزیراعظم نریندر مودی چھ سال پہلے رونا رو رہے تھے‘ پَر پھیلاتے ہی توبہ توبہ کر کے واپس اپنے گھونسلوں میں جا دبکے۔ دوچار جو آگے آگے تھے‘ آگ کے شعلوں میں تبدیل ہو گئے۔ اس کے بعد تو آگے قدم بڑھانا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ ہمیں کچھ اندازہ نہ تھا‘ بلکہ بھارت کے وسیع حربی اداروں کی صلاحیتوں کا کچھ ادراک نہ تھا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک ہو گا۔ وہ تو طاقت کے گھمنڈ کے نشے میں چُور‘ ایک بہت بڑی ضرب لگانے کے لیے میدان میں اترے تھے‘ مگر پھر جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ روایتی جنگ کا پہلا اصول یہ ہے کہ دشمن کی طاقت‘ ہتھیاروں کی نوعیت اور حکمت عملی کا صرف اندازہ نہیں‘ گہرا علم بھی ضروری ہے تاکہ آپ اس کا توڑ تلاش کر سکیں۔ دوسرا‘ آپ کے پاس جو اثاثے اور تزویراتی نقشہ ہے‘ وہ ایک راز رہے‘ دشمن کو اس کی خبر نہ ہو۔ یہ تو بھارتیوں کو فضا میں اڑنے اور دو تین بڑے پرندے نشانے پر آنے کے بعد معلوم ہوا کہ تندیٔ بادِ مخالف کے خلاف تو صرف شاہین ہی اُڑ سکتے ہیں ان کا یہ کام نہیں‘ تو ہوش ٹھکانے آ گئے۔ ہم نے کیسا وار کیا‘ پھر ادھر کیا ہوا‘ آپ سب کو معلوم ہے اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ہم نے پہل کی اور نہ جنگی جنون میں مبتلا ہوئے۔ صرف دفاع کے حق پر زور تھا۔ اور پھر جب جارحیت کا سامنا کیا‘ تو اس کا حق بھی ادا کر دیا۔
ایک عرصے کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قوم میں خود اعتمادی‘ اُمید اور پاکستانیت کا جذبہ ایک دم بیدار ہوا ہے۔ اکثر ہم آپس میں لڑتے‘ بکھرتے اور اپنی قومی طاقت زائل کرتے رہتے ہیں۔ جب مودی سرکار اور آج کل بھارت میں غالب انتہا پسندی نے ہمیں للکارا تو سب اختلاف بھلا کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اکٹھے ہو گئے۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے‘ مگر اس دفعہ اس ہم آہنگی کا رنگ زیادہ گہرا نظر آتا ہے۔ فطری بات ہے کہ جب خطرہ سب کے لیے ہو‘ اور قومی خودمختاری اور آزادی کو سنگین خطرہ لاحق ہو چکا ہو‘ تو اندر کے اختلافات جو بھی ہوں‘ وہ پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ یکجہتی‘ قومیت پسندی اور استقامت‘ بڑے سے بڑے دشمن کے خلاف کھڑے رہنا‘ یہ ہر قوم کی زندگی میں ناقابلِ تسخیر عناصر ثابت ہوئے ہیں۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ ان صلاحیتوں کو جمع کرنے اور قومی طاقت میں تبدیل کرنے کے لیے ہمیں دشمن کے خطرے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ امن کے دور میں بھی ترقی پسند قوتیں اپنی فطری صلاحیتوں کو آگے بڑھانے اور اپنے لیے دنیا میں ایک اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لیے ان کا استعمال کرتی رہتی ہیں۔ اس خوشگوار لمحے کو‘ جو اپنی مؤثر صورت میں ایک مغرور اور بڑی طاقت کے خلاف معرکہ سر کرنے سے ملا ہے‘ ہمیں پٹاخے چلا کر اور مٹھائیاں تقسیم کر کے اپنی داخلی لڑائیوں‘ کرپشن‘ بے عملی اور بے ترتیبی کی طرف لوٹنے کے بجائے تعمیری منصوبہ بندی کی راہ پر چلنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جس نے ہمیں بہت بڑی کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔
ہمارے بھارت کے ساتھ سب معاملات بہت پیچیدہ ہیں اور بدلتے صنعتی اور معاشی حالات تزویراتی کھیل کے بڑے کھلاڑی ہیں۔ ان کے بغیر آپ اپنا دفاع صرف ایک حد تک کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے وہ آپ اسرائیل اور عربوں کے درمیان طاقت کے توازن میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں یہ بات کرنا بھی ضروری ہے کہ صرف قدرتی وسائل ہی کی بنیاد پر دفاعی طاقت کا انحصار ہوتا تو ایران یا تیل پیدا کرنے و الے دیگر ممالک اسرائیل کا مقابلہ کر لیتے۔ صنعتی اور معاشی طاقت وسائل ضروری‘ مگر ان کو پیدا کرنے کے لیے تزویراتی نظام‘ سماجی ترقی‘ حکومت کی عملیت اور جواب دہ ریاستی ڈھانچے کا ہونا ضروری ہے۔ اگرچہ بحرانوں میں جذباتیت کام کی چیز ہے‘ مگر اسے صرف اسپرین کی گولی کی طرح صرف سر درد میں استعمال کرنا ہوگا۔ حقیقت پسندی‘ مثبت اور تعمیری منصوبہ بندی آہنی بنیاد ہے۔ اس سے کام لیے بغیر قوموں کو بلند بانگ دعوے کرنے والے لیڈروں کو ذلت اور تباہی کے گڑھے میں گرتا دیکھنا ہو تو تاریخ کا مطالعہ کر لیں۔ ایک مثال تو بالکل تازہ ہے‘ نریندر مودی کی‘ جو نفرت‘ انتہا پسندی اور غرور کی دھند میں ہماری حقیقت کو نہ سمجھ سکے۔ اب سبکی اور ہزیمت کو چھپانے کے لیے ہر جگہ ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔
حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ ہمیں بھارت کے خلاف دفاع کے لیے تیار اور چوکس رہنا چاہیے۔ اس لیے وہ کام جو ضروری ہیں‘ وہ شاید ہمیں مؤثر اور بہتر طریقے سے سر انجام دینے ہوں گے۔ ہمیں قرضوں کے بوجھ سے نکلنے کی ضرورت ہے جو ہماری ترقی اور خوش حالی کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ اس کے لیے قومی پیداوار بڑھانے‘ برآمدات اور سرمایہ کاری میں کئی گنا اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام عسکری اداروں کا تو نہیں۔ جنہیں ہم منتخب حکومتیں کہتے ہیں‘ جو بلوچستان کے ایک سابق وزیراعلیٰ کی سند کی طرح جو بھی ہیں‘ انہی کا کام ہے۔ کیا کریں کہ دل خوش کن لمحات میں بھی مایوسی دامن گیر رہتی ہے۔ یہ بغیر کسی وجہ کے تو نہیں کہ یہ خواتین وحضرات کتنی مرتبہ اقتدار میں آئے اور کتنی دہائیاں کرسیاں سنبھالے رکھیں۔ سب کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے۔ ذاتی مفادات کا جبر ہے یا کچھ اور ناقابلِ ذکر خطرات ہیں کہ ابھی تک ''چلے ہوئے کارتوسوں‘‘ سے کام چلایا جا رہا ہے۔ یہ بھی کتنا تضاد ہے کہ بھارت کو مات دینے کیلئے تو آسمان کو چھوتی ٹیکنالوجی اور سیاسی میدان میں 'چلے ہوئے کارتوس‘۔ جنگ مختصر اور محدود ہو یا بڑی‘ اس کے سیاسی اور سماجی اثرات ہوا کرتے ہیں۔ میرے ذہن میں تو کوئی شک نہیں کہ طاقت کا توازن‘ جو تاریخی طور پر ایک طرف کو جھکا رہا ہے‘ اب کچھ زیادہ ہی اس طرف کو ہوتا نظر آتا ہے۔ عوامی حمایت کا رُخ صرف ایک طرف ہے۔ آنے والے مہینوں اور سالوں میں بڑے فیصلوں کے علاوہ چھوٹے فیصلے بھی اقتدار کے نمائشی ایوانوں کے بجائے اسلام آباد کے بجائے کہیں اور ہوں گے۔ معیشت‘ صنعت اور یہاں تک کہ زراعت کے شعبے میں بھی نمائشی حکومتوں کو ہدایات ایک مربوط حکمتِ عملی کے نتیجے میں ملتی ہیں۔ میرے خیال میں بوسیدہ کارتوسوں کی ناکامیوں‘ کرپشن اور اقربا پروری سے حکومتوں کی انتظامی عملیات میں جو خلا ایک عرصے سے پیدا ہوتا رہا ہے‘ وہ کسی اور طریقے سے پورا ہو گا۔ یہ نہیں کہ نمائشی سیاست کی ضرورت نہیں‘ مگر عسکری اداروں کے ساتھ پُرجوش عوامی حمایت کی وجہ سے ان کی افادیت زیرو لیول کے قریب قریب ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ صنعتی ترقی کی رفتار اور معاشی اصلاحات ہمارے لیے کتنی ضروری ہیں۔اور اب تو ''انصافیوں‘‘ کو رخصت ہوئے اور ان کرم فرمائوں کو آئے تین سال سے زیادہ ہو چلا ہے۔ آپ نے کون سی معاشی اصلاحات دیکھی ہیں؟ اُلٹا زراعت کو تباہی کے کنارے لا کھڑا کیا ہے۔ دیکھیں‘ ان کی نظر قومی اور معاشی تعمیر اور سیاسی ہم آہنگی کی طرف جاتی ہے یا پھر 'گزارہ کرو‘ کی روش جاری رہے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں