"RBC" (space) message & send to 7575

خفیہ انقلاب

پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘ کسی ایسے انقلاب کی بات نہیں ہو رہی جس سے بڑے ایوانوں کے در ودیوار ہل جائیں۔ جو کچھ دیکھ رہے ہیں‘ سن رہے ہیں اور جن باتوں کا سیاست کے کھیل کو کم وبیش نصف صدی تک دیکھ کر ہلکا سا ادراک ہوا ہے‘ وہ یہ ہے کہ اس گرمی میں خموشی اختیار کرنا ہی بہتر ہے۔ ہمارے نزدیک خموشی بھی ایک طرح کا اظہار ہی ہے۔ مزاحمت اس طرح بھی ہوتی ہے۔ وہ جو ایک اعلیٰ فرمان ہے کہ کچھ کرنے کی ہمت نہیں تو دل ہی میں ملال پیدا کر لو۔ ایک عرصہ سے‘ شاید ہماری عمر کا بہت بڑا حصہ ایسی ہی صورت حال میں گزرا ہے۔ اب خوف کی ایسی فضا ہے کہ کسی پبلک فورم پر کھل کر بات کرنے کی روایت دم توڑ تی جا رہی ہے۔ جو کچھ کہنے کے لیے اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتے ہیں‘ اور جو کچھ کہہ اور لکھ رہے ہیں‘ ہمیں تو یقین نہیں آتا۔ جھوٹ اور سچ کے پردے بوسیدہ ہو کر زمین بوس ہو چکے ہیں۔ ان کے درمیان حدِ فاصل عنقا ہے۔ کہیں سے کوئی گفتگو اور کسی سیمینار میں شرکت کی دعوت ملتی ہے تو کئی بہانے تراش رکھے ہیں‘ اور اس سے بہتر کوئی کارگر نہیں کہ طبیعت خراب ہے۔ یہ بات صرف حکومتی اداروں کے حوالے سے ہی نہیں ہمارے معاشرے کا مجموعی مزاج انتہا پسندی کی طرف مائل ہے۔ مذہبی جنونیوں سے لے کر قومیت پرستوں کے لشکروں تک سب نے تلواریں سان پر چڑھا رکھی ہیں۔ سرکاری جامعات کے دو واقعات ایسے کہ ان کی طرف جانے کو جی گھبراتا ہے۔ ایک میں تو ایک نوجوان کو اپنے ہی ادارے کے دیگر نوجوانوں نے سرعام تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا۔ اب تو یہ چلن عام ہے کہ لوگ ہجوم کی صورت اکٹھے ہو کر الزام لگائیں‘ اور خود ہی عدالت لگا کر فوراً قتل کر ڈالیں۔ دوسرے واقعے میں قتل تو نہیں کیا‘ الزام لگایا اور اسے سزائے موت عدالت نے سنائی مگر برسوں سے عدالت عالیہ اس کی اپیل سننے کے لیے پیشی پر پیشی ڈالتی رہتی ہے۔ ظلم کی انتہا دیکھیں کہ اس مقدمے کا پہلا اور مشہور وکیل بھی قتل ہو چکا ہے۔
دوستو‘ عزیزو اور مہربانو! یہاں تک ایک طویل مسافت طے کرکے پہنچے ہیں۔ آپ کی یاد دہانی کے لیے‘ معاشرے نیچے سے نہیں‘ اوپر سے‘ جن کے پاس طاقت ہوتی ہے‘ ان کے کارناموں کی وجہ سے بگڑتے ہیں۔ ہمارے ایک پرانے ساتھی اور نامور ماہرِ سیاسیات پروفیسر سعید شفقت صاحب بھی کمال کے آدمی ہیں۔ ادارہ ساز شخصیت اور حقیقی معنوں میں نہ صرف ممتاز دانشور بلکہ علم کے میدان میں ایک تابندہ ستارہ ہیں۔ جب ہمیں ''موسیو‘‘ کا لقب دے کر کسی کانفرنس میں شرکت یا کسی لیکچر کی دعوت دیتے ہیں تو ہم اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔ حکم تھا کہ دو روزہ کانفرنس کی پہلی نشست میں بیتے دنوں کے سیاسی سفر کے بارے میں اظہارِ خیال کرنا ہے۔ اس قدیم دانش گاہ میں اس خطرے والی کوئی بات نہیں جو ہم سرکاری جامعات میں جاتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ اس کا اندازہ شاید اس بات سے ہو جائے کہ چند دن پہلے اسلام آباد کی ایک جامعہ میں فون کیا تو جواب ملا کہ طلبا نے ہڑتال کر رکھی ہے اور جامعہ بند ہے۔ آخرکیوں؟ طلبا ایک دیوار بنانا چاہتے تھے اور سربراہ نے اس کی اجازت نہیں دی۔ اس کے برعکس لاہور کی اس جامعہ میں رات گزارنے کے بعد صبح سویرے کانفرنس ہال میں داخل ہوا تو جستجو‘ تجسس‘ سوال اور علمی تشنگی کے ساتھ خلوص‘ محبت اور عزت واحترام وہی پایا جو ہمارے علمی اور ادبی حلقوں کی ایک مضبوط روایت رہی ہے۔ یہاں سیاسی سفر کے بارے میں کچھ کہنے کو ہمت تو کی مگر انگریز ی زبان میں لپیٹ کر اور مبہم انداز میں‘ اشاروں کنایوں سے دل کی باتیں کر ہی ڈالیں۔ سعید بھی یہی چاہتے تھے کہ ہم نئی نسل کو وہ باتیں بتا دیں جن کو سننے کے لیے نہ ماحول ہے اور نہ سنانے والے‘ خاص طور پر اس وقت جب گردشِ ایام کی اُڑائی ہوئی گرد گہری ہوتی جا رہی ہے۔
بات یہی کرنی تھی کہ ہم کہاں سے چلے اور کن منزلوں سے گزرے‘ کہاں کہاں گرے اور اب کہاں کھڑے ہیں‘ اور پہاڑ سے آگے آپ کو کیا نظر آ رہا ہے۔ موضوع تو یہی تھا۔ کچھ اپنا تجربہ کہ کیا دیکھا اور اب کیا دیکھ رہے ہیں‘ سے بھی تجزیے اور تبصرے کی بُنت کاری کی۔ اب یہاں صرف دو باتیں کرنا چاہتا ہوں کہ زیادہ کچھ کہنے اور لکھنے کا ابھی وقت نہیں آیا‘ اورجو تھا وہ ہم بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ یقین جانیں‘ پچاس سال قبل جس جرأت اور کھلے پن سے لکھتا اور بولتا تھا‘ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ وہ ملک نہیں‘ یا کچھ لکھاریوں کا عبرت ناک انجام دیکھ کر عبرت حاصل کر لی ہے۔ نوجوانوں کو یہ بتانے میں کوئی عار نہیں کہ ہم خوش قسمت تھے کہ آزادی میں آنکھ کھولی۔ وہ وقت جب ہم کالج میں داخل ہوئے اور جامعہ پنجاب میں آئے وہ امیدوں اور خوابوں کا زمانہ تھا۔ دنیا بھر کے نوجوان امریکہ سے لے کر ویتنام تک‘ حکمران طبقات‘ غالب افکار اور نظام کے خلاف سنجیدہ سوال اُٹھا رہے تھے۔ ہم انقلاب کے نعرے لگاتے اور صبح اٹھتے ہی ایک نئے روشن سویرے کے طلوع ہونے کے انتظار میں رہتے۔ مختلف نظریات پر بحث کامیاب انقلابوں کی تاریخ کی ورق گردانی اور انقلابوں کی حکمت عملی پر محفلیں سجتیں۔ اس زمانے کے ادب اور فکری دھاروں کا تنقیدی جائزہ لیا جاتا۔ اپنے ملک میں جمہوریت‘ عوامی راج اور آزادیوں کی جدوجہد میں اپنے خوابوں کی تعبیر نظر آتی۔
پھر کیا ہوا کہ ہمارے خوابوں پر بھی ڈاکا پڑ گیا۔ ہمارے خوابوں کی ترجمانی جس عوامی رہنما نے ایک وقت میں کی تھی‘ اس کے انجام کی روداد ہمارے دل میں اس طرح تازہ ہے جس طرح آج کا لگایا ہوا زخم۔ آج کل نہ جانے وہ زخم کیوں تازہ ہو گیا ہے۔ کچھ مزید کہنے کی ضرورت نہیں۔ بس دل ہی میں آنسو ایک مرتبہ پھر جاری ہو چکے ہیں۔ ہم بھی ڈھیٹ قوم کے ان افراد میں سے ہیں جنہوں نے ہر المیے کے بعد ایک مرتبہ پھر خواب آنکھوں میں سجا لیے‘ اور پھر وہ خواب بھی کرچی کرچی ہو گئے۔ خوابوں کے بکھرنے کا یہ سلسلہ تھم نہ سکا‘ اور وہ جو غالب نے کہا تھا: رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج؍ مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں۔ دل تڑپ کر رہ جاتا ہے۔ غالب نے گردشِ ایام کو بھانپ کر حالات سے سمجھوتا کر لیا تھا‘ مگر یہ درویش اس پر مزید کچھ نہیں کہہ سکتا۔ نیز شاعری میرا میدان نہیں۔ ہاں‘ ان کے خطوط کو دل سے لگا رکھا ہے۔ اس وقت کے معاشرے میں بدلتے ہوئے رویوں اور سماج کی نفسیات کی تصویر کھل کر سامنے آتی ہے۔ مسلمان اشرافیہ کے بے شمار افراد پھانسیوں پر لٹکا دیے گئے۔ سوئے دار وہ ایک شان سے گئے۔ ایک نے اپنی ڈائری میں لکھا‘ وہ کتنا خوبرو نوجوان اور کس دھج سے پھندے کی طرف چلتا ہوا جا رہا تھا‘ اور افسوس تو یہ ہے کہ بغاوت میں اس کا کوئی کردار بھی نہ تھا۔ انگریز حکمرانوں نے ان کو بھی پھانسیاں دیں جو خاموش رہے۔ انہیں اس خاموشی میں بھی خفیہ مزاحمت کے ڈرائونے خواب آنے لگے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ انگریز سرکار کے گن گائواور ساتھ دو۔ اگر خاموش رہے تو یہ سمجھا جائے گا کہ باغیوں کے ساتھ ہیں۔ ہماری مشرقی تہذیب میں خاموشی بھی مزاحمت ہے۔ حب حالات کا تقاضا ہو‘ خاموش رہیں۔ مزاحمت یوں بھی ہوتی ہے۔ سب کچھ خاموشی سے کہہ دیا ہے۔ باقی اللہ خیر کرے گا۔ یہ تاریخ کا قرض تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں