"RBC" (space) message & send to 7575

ہمارے پیارے بابے

بچپن تھا تو ہماری بزرگ خواتین دعائیں دیتیں کہ بوڑھا ہو۔ یہ درازیِ عمر کی دعا ہمارے وسیب کی روایتی دعا ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ کس سے منسوب ہے کہ اے خدا! ہماری فصلوں کی طرح ہمیں سرسبز رکھ اور آخر میں جس طرح گندم پک کر بورا رنگ تبدیل کر کے خشک ہو جاتی ہے‘ ہمیں اس مرحلے میں داخل کر۔ فصلیں ہوں یا انسان اور حیوان‘ سب ایک دن خاک میں مل جاتے ہیں‘ کہ یہی زندگی کی سب سے بڑی اور اٹل حقیقت ہے۔ ہماری نسل کی فصل کچھ نہ کچھ رنگ تبدیل کرتی نظر آ رہی ہے۔ اُن آموں کی طرح جو پیلے ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور ایک دن پک کر زمین پر گر جاتے ہیں۔ انہیں نہ اٹھائیں تو کیڑے مکوڑوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ اکثر یہ بھی دیکھا ہے کہ وہیں پڑے پڑے ان کی گٹھلی سے ایک نیا پودا بھی نکل آتا ہے جسے ہم لگا کر نئے درخت کی صورت پھولتے پھلتے دیکھتے ہیں۔ یہی قدرت کا اصول ہے۔ ابھی درختوں کی بات کر لیتے ہیں کہ جتنا یہ بڑھتے ہیں اتنے ہی توانا رہتے ہیں‘ کچھ تو کئی صدیوں تک! مگر وہ بھی بیمار ہوتے ہیں‘ ان پر بھی بڑھاپا آتا جاتا ہے‘ لیکن پھر بھی وہ پرندوں کو اپنے کھوکھلے تنے میں پناہ فراہم کرتے ہیں۔ ان کا فیض جاری رہتا ہے۔ جہاں کہیں درختوں اور جنگلات کی قدر ہو‘ وہاں اگر کوئی پیڑ خشک بھی ہو جائے‘ اُسے اس کی قسمت پر چھوڑ دیتے ہیں‘ کاٹنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
ہمارے عمر رسیدہ بزرگ اور خواتین ہمارے ملک میں اپنے ہاتھوں کی لکیروں کے مطابق جو زندگی دیہات میں گزار رہے ہیں‘ ان کے بارے میں سن کر اور کچھ دیکھ کر دل میں ایک ٹیس سی اٹھتی ہے۔ بزرگی میں صحت ہی سب کچھ ہے‘ مگر اسے قائم رکھنے کے لیے وسائل لازمی ہیں۔ ایک زمانہ تھا‘ خاندان مختصر تھے‘ گھر میں سب کچھ میسر تھا‘ مگر اب آبادی کے پھیلائو کے ساتھ ایک نفسا نفسی کا عالم ہے۔ کچھ کو سوکھی روٹی ہی میسر آ جائے تو بڑی بات ہے۔ گزشتہ دو تین دہائیوں سے اکثر بزرگ شوگر‘ بلڈ پریشر اور دیگر امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اکثر کو تو بیماری کا علم بھی نہیں ہو پاتا یہاں تک کہ سفرِ زندگی تمام ہو جاتا ہے۔
پیرانہ سالی میں اگر وسائل نہ ہوں‘ آمدنی کا کوئی مستقل ذریعہ نہ ہو اور نہ ہی دیگر اسباب تو مالی مشکلات کی وجہ سے زندگی کے آخری ایام کاٹنا بہت کٹھن ہوتا ہے۔ ہم لوگ ایک وقت تک کام کر سکتے ہیں اور جنہوں نے ساری عمر محنت مزدوری کرکے خاندان پالے‘ جب ان کے اعضا کمزور ہو کرجواب دے جاتے ہیں تو ان بیچاروں کی مجبور ی بڑھ جاتی ہے۔ ان کی نظریں اپنی اولاد پر ہوتیں جو اپنے خاندانوں کی کفالت میں بزرگوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ مشاہدے میں ہے کہ ان کی اکثریت گھر میں پڑے پڑے زندگی کی سانسوں کی گنتی پوری کرتی رہتی ہے۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ظاہری رکھ رکھائو اپنی جگہ‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے خاندان جہاں دولت اور وسائل کی کمی نہیں‘ مگر اختیار اور ملکیت اولاد نے سنبھال لی ہے‘ تو وہاں بھی بزرگوں کی محتاجی نظروں سے چھپ نہیں سکتی۔ پرانے زمانے سے لے کر آج تک سیانے بار بار دہراتے آئے ہیں کہ مالی محتاجی سے بچنے کا تدارک کرو‘ کہیں دوسروں کی طرف دیکھنے کی نوبت نہ آئے۔ ایسی حالت خدا کسی کو نہ دکھائے‘ مگر یہ تو عمر کے کسی بھی حصے میں آ سکتی ہے۔ عورتیں‘ چھوٹے بچے اور خصوصاً بوڑھے لوگ اس محتاجی میں گرفتار ہیں۔ ہماری سماجی‘ سیاسی اور معاشی پسماندگی کی یہ علامات ہیں۔ جن ممالک میں سماجی تحفظ کا انتظام ہے‘ وہاں ریاست بچوں‘ خواتین اور بوڑھوں کی کفالت کرتی ہے۔ آپ کی آمدنی کم ہو یا زیادہ‘ برطانوی سرکار ہر خاندان کو پہلے بچے کے لیے ہر ماہ ایک سو چھ پائونڈ دیتی ہے۔ امریکہ‘ جس کے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف دنیا بیان بازی کرتی رہتی ہے‘ طلاق یافتہ خواتین کو مفت گھر‘ بچوں کے لیے وظائف اور سب کو بزرگی میں سوشل سکیورٹی دیتا ہے۔ تعلیم اور صحت سب کے لیے مفت پہلے ہی ہیں‘ مگر ہر صنعتی ملک میں کافی فرق نظر آتا ہے اور فرق اس میں ہے کہ کون زیادہ سہولتیں فراہم کرتا ہے۔
ہمارے ملک میں جہاں حکومتوں کی توجہ ہمیشہ امیروں‘ مراعات یافتہ طبقات اور اشرافیہ کے طاقتور ستونوں پر رہی ہے‘ وہاں غریب بزرگوں کو کون پوچھتا ہے۔ ایک دفعہ میرے جنگل کے باہر ایک بزرگ پانی بھری بوتل لے کر کھڑا آوازیں دے رہا تھا۔ جا کر پوچھا: بابا کس سے کام ہے‘ کیا خدمت کر سکتا ہوں ؟ وہ ہمارے مالی سے پانی پر دم کروانے آیا تھا کہ اس کے سارے جسم پر خارش رہتی تھی اور ہر جگہ دانے نکل آئے تھے۔ اس ملک میں لاکھوں ایسے بابے ہیں جو بیماریوں میں اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں‘ کوئی پرسانِ حال نہیں‘ نہ وسائل‘ نہ کوئی اور ذریعہ۔ وہ بھی ہیں جنہیں اپنے ہی بچے گھروں میں قید رکھتے ہیں‘ یا نکال دیتے ہیں۔ کبھی شہروں کے پارکوں‘ سڑکوں اور مزاروں پر عمر رسیدہ افراد کو دیکھیں‘ سب بے گھر‘ بے وسیلہ ہیں۔ آپ کو شاید یقین نہ آئے‘ کئی بچوں کی مائوں کو زبردستی نکاح کرکے دور دراز کے علاقوں میں نکال دیا جاتا ہے‘ اور ایسے ظالموں کی بھی کمی نہیں جو انہیں بیچ ڈالتے ہیں۔ یہ باتیں افسانوی نہیں‘ آج کے معاشرے کے حقائق ہیں۔ کیا بتائوں‘ کتنی مائیں ہیں جنہیں اولاد نے قتل کر دیا‘ یا پھر بیماری اور افلاس نے وقت سے پہلے زندگی کی اذیت سے نجات دلا کر موت کی آغوش میں آسودگی دلا دی۔
ہمارے جیسے پنشن خور بابوں کی حالت بہت بہتر ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں قومی بچت کے دفتر کے کئی چکر لگائے‘ جو تقریباً دو دہائیوں سے لگا رہا ہوں‘ تو اس مرتبہ بابوں کو کافی کمزور دیکھا۔ خمیدہ کمریں‘ ہاتھ میں سہارے کے لیے دھاتی چھڑی‘ اور کچھ کے ہاتھ میں چھوٹا سا واکر‘ اپنی بچت کا منافع لینے آئے ہوتے تو اکثر سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ ایک محدود سی جگہ میں سب سمٹے‘ خموش اور ناخوش دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو کسی کو ساتھ لے کر آئے ہوتے ہیں‘ اور ایک دو ہمیشہ گاڑی میں بیٹھے رہتے ہیں۔ کوشش کرتا ہوں سلام دعا ہو جائے‘ شاید ہماری باتوں سے ان چہروں پر مسکراہٹ پھیل جائے‘ مگر اکثر جواب میں اختصار سے رسمی بات چیت کرکے پھر کسی سوچ میں کھو جاتے ہیں۔ انہیں پھر بھی خوش قسمت بابے خیال کرتا ہوں کہ مالی طور پر وہ کسی کے محتاج نہیں‘ اپنی بچت اور زیادہ تر پنشن خوری سے اپنی کفالت خود کر رہے ہیں۔ صحت کے مسائل اپنی جگہ مگر متوسط طبقے کے یہ بابے اور بزرگ خواتین ہر طرح سے آسودہ نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ بزرگوں کی تنہائی ہے۔ بچے اُڑ کر کہیں اور جا بسے ہیں‘ کیوں کہ یہاں مشاغل اور وہ سہولتیں میسر نہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں ہیں کہ کہیں کتب خانوں‘ چائے خانوں اور کلبوں میں اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ وقت گزاریں۔ اعلیٰ طبقات کے بابوں کو یہ سہولتیں میسر ہیں‘ اور انہیں بڑے اہتمام سے ملتے جلتے دیکھتا ہوں۔ زیادہ مسئلہ تو دیہاتی بزرگوں اور خواتین اور نچلے متوسط طبقے کے لوگوں کا ہے۔ موجودہ دور میں کم از کم‘ اور کہیں کہیں فون اور ٹیلی ویژن نے ان کے اکیلے پن کی اذیت کو کم کیا ہے‘ مگر جب دوست اور عزیز ہی رخصت ہو جائیں تو اسباب کس کام کے۔ بزرگوں کے لیے ایک دعا ہے کہ خدا انہیں محتاجی سے بچائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں