امریکی صدر نے بالکل درست کہا کہ ہم پاکستانی ایران کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں‘ سوال یہ بھی ہے کہ ان کی اپنی دوستی‘ دشمنی اور خفیہ‘ (اب کھلی) جنگ کی کہانی بھی بہت طویل ہے‘ تو کیا وہ بھی اس پرانی تہذیب کے ملک کو کچھ سمجھ پائے ہیں یا نہیں۔ گمان ہے کہ ان کا علم ادھورا ہے اور کچھ خواب‘ جو وہ اس ملک کی تباہی کے دیکھ رہے ہیں‘ وہ بھی شاید صرف جارحیت اور جنگی جنون کی آنکھوں میں بستے بستے آخر میں دو آنسوئوں میں ڈھل کر فارس کے صحرائوں میں دم توڑ دیں۔ بلاشبہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ دنیا کی کسی بھی بڑی طاقت نے زور آوری کے نشے میں تاریخ کو استاد مانا ہی نہیں۔ امریکہ جیسے ہاتھی ملک کی مہار اسرائیلی چوہے کے ہاتھ میں معلوم ہوتی ہے‘ اور اس ملک کے غالب طبقے کو اس احساس کے باوجود ہمت نہیں پڑتی کہ اس منظم لابی کے بارے میں کچھ کہہ سکیں۔ سب نوکریاں بچانے کے چکر میں چوہے کے راستے پر چلتے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ نیتن یاہو جنگ چاہتے ہیں اور اسی میں اپنی سیاسی بقا خیال کرتے ہیں‘ مگر عملی طور پر ہم نے دیکھا کہ غزہ میں دو سال سے زیادہ عرصے سے جاری فلسطینیوں کی نسل کشی میں اس کے معاون اور سرپرست ہیں۔ اقتدار میں آتے ہی کہا کہ ایران کیساتھ جوہری معاہدہ ممکن ہے اور وہ کر کے دکھائیں گے۔ جب بات آگے بڑھی اور جو آخری اور حتمی دور عمان میں طے ہو چکا تھا‘ اس سے دو روز قبل اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کر دیا۔ اب امریکی وہ سب کچھ مہیا کر رہے ہیں جس کی اسرائیل کو ضرورت ہے۔ جنگ کے دھویں میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اسرائیل کے دفاعی حصار کو چلانے‘ جنگی جہازوں کو دورانِ پرواز ایندھن فراہم کرنے اور ایران کے اندر اہداف تک کا تعین کرنے اور نشانہ لگانے میں امریکی معاون مساوی کردار ادا کر رہے ہیں۔ تاہم اسرائیل تباہ کن بمباری کے باوجود اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا کر سکتا تو پھر امریکہ کو جنگ کے چھٹے روز میدان میں کودنے کا عندیہ دینے کی ضرورت نہ پڑتی۔
جو ہم ایرانیوں کو سمجھے ہیں‘ اور امریکہ نہیں سمجھ سکا‘ وہ یہ کہ انکی گردنیں کٹ تو سکتی ہیں‘ جھک نہیں سکتیں۔ ایرانیوں کی مغرب اور امریکی سامراج کے خلاف مزاحمت کی تاریخ جدید دور میں ایک سو سال پرانی ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں جغرافیائی حدیں سلطنت عثمانیہ کو توڑنے کے بعد تخلیق کی گئیں تو ترکی کے کمال اتاترک‘ افغانستان کے امیر امان اللہ خان اور ایران کے رضا خان‘ جو رضا شاہ پہلوی کے والد تھے‘ قومی خودمختاری‘ جدیدیت اور مغربی استعمار کے خلاف مزاحمت کی علامت بنے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران جب روس‘ برطانیہ اور امریکہ نے دیکھا کہ رضا خان شاید جرمنی کے خلاف تعاون نہ کرے تو اُسے اقتدار سے علیحدہ کرکے‘ اسکے بیٹے رضا شاہ پہلوی کو اقتدار میں لے آئے۔ پھر ڈاکٹر مصدق کی جمہوری حکومت نے 1953ء میں اُسے ملک سے بھگا دیا تو برطانوی اور امریکی جاسوس اداروں نے اندرونی سازش برپا کرکے اُسے اقتدار پر بٹھا دیا۔ مزاحمت مختلف تحریکوں‘ جماعتوں اور گروہوں کی طرف سے کسی نہ کسی صورت بے پناہ ظلم وتشدد کے باوجود جاری رہی اور آخر کار فروری 1979ء میں رضا شاہ پہلوی کو دوسری مرتبہ اقتدار چھوڑ کر جلاوطنی کی زندگی گزارنا پڑی۔مزاحمت کی پوری کہانی اس صفحہ پر ممکن نہیں‘ صرف چند واقعات کا ذکر کر دیا ہے۔ افسوس کہ جب پورا مغرب اسرائیلی جارحیت کی پشت پناہی کر رہا ہے‘ ایران تنہا اپنی سرزمین‘ اقتداراور آزادی کی حفاظت کیلئے قربانیاں دے رہا ہے۔ سب کو معلوم ہے‘ ایرانیوں کو بھی اور ہمیں بھی‘ کہ حربی طاقت کا توازن اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی طرف ہے‘ لیکن ایسی صورت میں کوئی بھی باحمیت اور زندہ قوم ہتھیار نہیں ڈالتی‘ ہر قربانی کیلئے تیار ہوتی ہے۔ یہ جنگ ایران نے شروع نہیں کی‘ اور نہ ہی اسکا ارادہ تھا یا کسی تیاری کے آثار تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ جب امریکہ نے جوہری معاہدہ کرنا چاہا تو 14 جولائی 2015ء کو صدر براک اوباما نے کر دیا جسے اُنہوں نے تاریخی دستاویز قرار دیا تھا۔ ٹرمپ پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے تو یکطرفہ طور پر یہ معاہدہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ اب بھی یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ایران دوسرے معاہدے کیلئے بھی تیار تھا‘ اور یہ سلسلہ جاری تھا کہ اسرائیل نے جنگ شروع کر دی۔
یہ ممکن نہیں کہ اسرائیل ایران پر اتنا بڑا حملہ کرے اور امریکی قیادت کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ پتا تھا‘ مگر ہاتھی کے نتھنوں میں پڑی نکیل چوہے کے ہاتھ میں تھی‘ کیا کر سکتا تھا‘ بادل نخواستہ چل پڑا۔ یہ آج کی بات نہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو یہ کہہ رہا ہے کہ ایران اگلے چند ماہ میں جوہری طاقت بننے کا ارادہ رکھتا تھا۔ یہ بات پہلے پہل 1990ء کی دہائی میں امریکی سینیٹ کے سامنے اس موضوع پر گواہی دیتے ہوئے کہی گئی تھی۔ تقریباً 35سال سے اسرائیلی یہ کہتے آئے ہیں کہ ایران بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے میں فقط چند ماہ کی دوری پر ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ امریکی جاسوسی اداروں نے صدر ٹرمپ اور کانگرس کو صاف زبان میں صرف چند ہفتے پہلے بتایا تھا کہ ایران نے جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا‘ نہ ہی کوئی ایسے شواہد ملے ہیں‘ اور اگر وہ اس راہ پر چلے بھی تو کم از کم تین سال کا عرصہ درکار ہو گا۔ یہ سب کچھ پوری دنیا نے سنا اور پڑھا۔ یہ رپورٹ جب صدر ٹرمپ کے سامنے رکھی گئی تو وہی کیا جو صدر بش نے عراق کے بارے میں کیا کہ میں نہیں مانتا۔ اگر امریکی صدر کا اپنے جاسوسی اداروں پر اعتماد نہیں تو پھر وہ فیصلے کس بنیاد پر کرتے ہیں۔ افسوس یہ سیاست‘ طاقت کا گھمنڈ‘ نسل پرستی کے خفیہ دھارے اور مشرق وسطیٰ میں ریاستوں کا ایک طفیلی نظام قائم کرنا ہے۔ اس نظام کی طرف ان کی پیش قدمی ہو چکی۔ اب ایران ہی تو رہ گیا ہے جو اس دائرے میں داخل ہونے کیلئے کسی قیمت پر تیار نہیں۔ ریاستوں کے معاملات میں قومی مفاد کا تحفظ پہاڑیوں اور وادیوں سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے ہوتا ہے۔
ایران بحکم صدرِ امریکہ کبھی سرینڈر نہیں کرے گا‘ بہت مشکل وقت ہے ایران اور اہلِ ایران کیلئے۔ اسی طرح شہر خالی کرنے کے احکامات دیے جا رہے ہیں جس طرح روزانہ کی بنیاد پر ہم غزہ میں دیکھتے ہیں۔ بالکل وہی حکمت عملی اسرائیل اور اس کے حامیوں کی اس وقت ایران کے بارے میں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جوہری معاہدہ ہو جائے اور یہ بھی ممکن ہے ایران پہلے معاہدے سے بڑھ کر مغرب کے اطمینان کیلئے زیادہ پابندیاں قبول کر لے‘ مگر دوسری طرف باہمی امن وسلامتی کی خواہش مفقود اور ایران کی تباہی کا جنگی جنون سروں پر سوار ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایران کا مسئلہ ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کی فضول اسرائیلی سٹرٹیجی کے گھوڑ ے پر ٹرمپ سوار ہوکر پہاڑوں کو اڑانا شروع کر دے اور ایران کے اثاثے وہاں دفن ہو جائیں‘ مگر ایران بھی رہے گا‘ ریاست بھی‘ عوام بھی اور غیرت مندی بھی۔ رجیم چینج جس کا مطلب ریاست اور حکومت ختم کرکے انارکی اور انتشار پیدا کرنا ہے‘ آسان نہیں۔ جو بھی کٹھ پتلی طاقتیں اندر سے ابھاری جائیںگی‘ ان کے خلاف مزاحمت ہو گی۔ا س وقت عرب ممالک جو ایران کی علاقائی پالیسیوں سے خوش نہ تھے‘ وہ بھی نہیں چاہتے کہ ایران پر مسلط جنگ جاری رہے یا وہاں تباہی مچائی جائے اور وہاں کے نظام کا خاتمہ ہو۔ وہ نہیں چاہتے کہ ایران ایٹمی طاقت بنے‘ مگر اس کا راستہ وہ نہیں خیال کرتے جس پر اسرائیل اور امریکہ چل پڑے ہیں۔ ایرانی مضبوط اور ہم آہنگ قوم ہیں‘ اور اس وقت اندر کے اختلافات بھلا کر سامراج اور اس کے زہریلے چوہے کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ کاش ہمارے خون اور ہماری جانیں بھی قیامت کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ ہوتیں۔ ایران زندہ باد! ایرانی قوم زندہ باد! ایرانی قیادت زندہ باد! خداوند شما را پیروز گرداند۔