آغا صاحب بھی رخصت ہو گئے اور ان کے ساتھ ایک عہد بھی تمام ہوا۔ اب ان کی یادیں ہمارے ذہنوں میں محفوظ رہیں گی۔ امریکہ سے تعلیم مکمل کر کے آج سے 44 سال پہلے جائے پناہ ہمیں قائداعظم یونیورسٹی میں ملی۔ دل میں بے پناہ تڑپ کے باوجود جامعہ پنجاب کی وسعت ہمیں اپنے دامن میں لینے کے لیے تیار نہ تھی۔ زمانہ بدل چکا تھا‘ دل تنگ اور نظریوں میں فلسفوں سے کہیں زیادہ نفرت‘ خود غرضی‘ خود پسندی اور انتقام کی آمیزش تھی۔
ہماری نسل کے اساتذہ‘ شاعر‘ ادیب اور دانشوروں کا فکری رجحان زیادہ تر ترقی پسندانہ تھا اور کچھ بائیں بازو کی سیاسی وسماجی تحریکوں میں عملی طور پر حصہ لیتے یا کم از کم لکھنے اور بولنے میں ان کے حامی تھے۔ عالمی شعور اور بیداری کی لہر جو 60ء کی دہائی میں اٹھی تھی‘ اس سے ہمارے ملک کے کالجوں اور جامعات میں آزاد رو سوچ‘ جسے آپ لبرل کہتے ہیں‘ بڑھی اور پختہ ہوئی۔ اس کے کئی دھارے تھے‘ لیکن سب مراعت یافتہ جاگیردار‘ سیاسی طبقے اور ریاست سے جڑی حکمران کلاس کے مخالف تھے۔ کچھ انقلاب تو کچھ انصاف‘ مساوات‘ قانون کی حکمرانی اور قومی دولت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم چاہتے تھے۔ اس وقت کے نظریاتی تناؤ‘ جو ایوب خان کے خلاف تحریک اور بعد میں 1970ء کے انتخابات کے دوران زیادہ شدت اختیار کر گیا‘ میں تین ہی لیبل متحرک‘ فعال اور سرکردہ دانشوروں پر لگائے جاتے تھے؛ قومیت پرست‘ سوشلسٹ اور اسلامی۔ جامعہ پنجاب میں ہمارا شمار طالب علمی کے زمانے میں اشتراکیوں میں ہوتا تھا‘ مگر استاد کا منصب سنبھالتے ہی علمی سیاست کو جامعہ کے ساتھ بہتی نہر میں پھینک دیا۔ مصیبت یہ ہے کہ ایک دفعہ کوئی لیبل آپ کے ماتھے پر کوئی زبردستی ہی کیوں نہ چپکا دے‘ تو پھر اسے اتارنا آسان نہیں ہوتا‘ بے شک آپ کے نظریات اور طرزِ زندگی بدل کیوں نہ جائیں۔
ضیاء الحق صاحب کا دور شروع ہوتے ہی ہمارے اسلامی بھائیوں نے پہلا کام ایک جہادی جذبے اور چندے سے یہ کیا کہ کالجوں اور جامعات میں سے ترقی پسند اساتذہ کے تبادلے دور دراز ایسی جگہوں پر کرا دیے کہ ان کا گزارا مشکل ہو جائے۔ وہ نایاب قسم کے اعلیٰ دماغ تخلیقی میدان میں بہت آگے تھے۔ یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم کر کے اساتذہ کا تبادلہ کالجوں میں کر دیا گیا اور کچھ ایسے بھی خوددار تھے کہ نوکری چھوڑ دی‘ مگر ایسے احکامات پر عمل نہ کیا۔
اس زمانے میں مشاہد حسین سیدصاحب نئے نئے امریکہ سے پڑھ کر ہمارے ساتھ شعبۂ سیاسیات میں آئے تھے‘ اور عمر اصغر مرحوم بھی تھے۔ عجیب ہمارے فیصلے تھے کہ ایک طرف تب کی فوجی حکومت کے خوف سے لوگ ملک چھوڑ کر بھاگ رہے تھے اور ہم باہر کی ڈگریاں لے کر ملک کی خدمت کا جذبہ لیے واپس آ گئے تھے۔ کب تک اس دور میں ہماری جامعات کے کرداروں نے ہمیں برداشت کرنا تھا۔ مشاہد حسین سید‘ عمر اصغر خان اور دس پندرہ بیک جنبش قلم جامعہ پنجاب سے نکال دیے گئے۔ ہمیں انہوں نے اعلیٰ ترین ڈگری کے باوجود واپس لینے سے انکار کر دیا۔ اسی زمانے میں ملتان سے ڈاکٹر انور احمد صاحب‘ جو اردو ادب اور تنقید میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں‘ پروفیسر عابد عمیق اور اصغر ندیم سید صاحب جیسے ادیبوں کو اپنے اداروں سے نکال کر کہیں دور پھینک دیا گیا۔ معافی چاہتا ہوں کہ کچھ باتیں ان صفحات پر دہراتا رہتا ہوں تاکہ نئی نسل کو اس دور کی تاریکی کا کچھ اندازہ ہو‘ اور ان کے بارے میں بھی جو اس کا نشانہ بنے تھے۔ اسلام آباد میں پہلی ملاقات مشاہد حسین سید ہی سے ہوئی‘ اور ان کے ساتھ اپنے استاد محترم خالد محمود صاحب۔ مشاہد اب انگریزی اخبار ''دی مسلم‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ ملتے ہی حکم دیا کہ 'مسلم‘ کے لیے اس ہفتے سے لکھنا شروع کر دو۔ اس درویش کی انگریزی میں کالم نگاری کا آغاز اسی اخبار سے ہوا‘ اور یاد پڑتا ہے کہ تقریباً سات برس لکھتا رہا۔
'مسلم‘ میں جو بھی لکھتے تھے‘ آغا مرتضیٰ پویا صاحب‘ جو اس کے بانی اور چیف ایڈیٹر تھے‘ ان سے رابطے میں رہتے تھے۔ دفتر میں بلاتے‘ چائے کے دور چلتے اور قومی‘ علاقائی وعالمی سیاست پر وہ گفتگو کرتے چلے جاتے۔ مسلم اور آغا مرتضیٰ پویا صاحب ایک ادارہ‘ تحریک اور نئی فکر کی علامت بن گئے تھے۔ ضیاء دور کی ہم بہت باتیں کرتے ہیں‘ بے شک جبر کا زمانہ تھا‘ مگر جو گھٹن اور خوف کی فضا آج کے جمہوری نظام میں ہے وہ نہیں تھی۔ آغا صاحب خود بھی دنیائے صحافت میں نئے تھے‘ ان کا اخبار بھی نیا‘ اور اس میں لکھنے والے بھی سب نئے تھے۔ مسلم اخبار میں کالم نگار تمام معمول کے دانشور اور لکھاری نہیں تھے‘ باہر کی جامعات سے اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور سب ان ناپسندیدہ عناصر میں شمار ہوتے تھے جنہیں آج کے زمانے میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں۔ یہ باتیں اسّی کی دہائی کے اولین سالوں کی ہو رہی ہیں۔ ہمارے ملک کے اندر جو حالات تھے وہ تو سب کو معلوم ہیں‘ لیکن مغربی سرحد پر افغانستان میں دو عالمی طاقتوں اور ان کے پراکسی لشکروں کے درمیان ایک بڑی جنگ اور ایران وعراق کے مابین خون ریز لڑائی جاری تھی۔ داخلی طور پر ریاست اور معاشرے پر ایک نیا‘ زبردست اسلامی رنگ چڑھایا جا رہا تھا‘ اور اگر کوئی آواز مخالفت میں اٹھاتا تو برداشت اور صبر کا پیمانہ پہلے ہی سے لبریز نظر آتا۔ آغا مرتضیٰ پویا صاحب اور ان کے اخبار نے ان حالات کے تناظر میں نئے بیانیے‘ نئی فکر اور نئے سماجی وسیاسی شعور کی ترویج کی۔ دو تین دیگر انگریزی اخبارات اور اردو صحافت تو ہمیشہ کی طرح درمیانی راہ نکالنے کی کوشش اور تابعداری کے دائروں میں گھومتی رہی‘ مگر مسلم ایک واحد اخبار تھا کہ جس میں کوئی خبر چھپتی‘ کوئی اداریہ تحریر ہوتا یا کوئی مضمون کسی ''شر پسند‘‘ کی طرف سے آتا تو ہر طرف کھلبلی مچ جاتی۔
آغا مرتضیٰ پویا ہی ''دی مسلم‘‘ تھے‘ اور ''دی مسلم‘‘ آغا مرتضیٰ پویا تھا۔ کھلے دل‘ کھلے ذہن‘ جرأت پسندی‘ جدت اور حوصلے کا استعارہ تھے۔ اس زمانے میں یہ اخبار علاقائی وعالمی امور پر مذاکروں اور سیمیناروں کا انعقاد کرتا۔ پوری دنیا سے دانشور آتے اور کھل کر باتیں ہوتیں۔ قومی سطح پر آغا صاحب ایک نئی سوچ اور زاویے کے فکری وسماجی رہنما کے طور پر ابھرے اور صحافیوں ودانشوروں کی ایک پوری نسل تیار کی‘ جو آج اپنا مقام رکھتی ہے۔ آغا صاحب اور ان کے اخبار نے کھل کر افغانستان میں امریکی اور ہماری مداخلت کی مخالفت کی۔ ایران کے خلاف عراق کی جنگ اور اس کے پیچھے کھڑے علاقائی ومغربی ممالک کی بھی کھل کر مذمت کرتے رہے۔ خواتین کی تحریک ''ویمن ایکشن فورم‘‘ کی ابتدا اسلام آباد میں ہوئی‘ تو اس کو بھی جگہ اپنے اخبار میں دی۔ اس وقت کے سیاسی ماحول میں یہی واحد اخبار تھا جہاں ترقی پسند اور غیر روایتی طرز کے دانشور کچھ لکھ سکتے تھے۔ کبھی ہماری طرف سے کسی بڑی طاقت یا طاقتوروں پر ضرب لگتی‘ تو بجائے اس کے کہ آغا صاحب احتیاط کا مشورہ دیں‘ فون کرتے اور شاباش دیتے۔ کئی ایسے مواقع آئے۔ یہ ان کی عنایت ہی تھی کہ اپنے کھانے کی میز پر بھی کئی مرتبہ مدعو کیا اور جب ضیا صاحب کا دور ختم ہوا‘ سیاسی تبدیلی آئی اور آغا صاحب ایک سرکاری ادارے کے سربراہ بنے‘ تو ایک دفعہ امریکی دورے پر ہمیں بھی اپنے وفد میں لے گئے‘ اور شاید ایک دو اور ممالک میں بھی۔ اسلام آباد کے سیمینار کلچر کی ابتدا اور اس کو ترقی دینے میں آغا مرتضیٰ صاحب کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا‘ مگر شاید یہ صرف ان لوگوں کے ذہن میں ہی ہے جو اُس دور کی تاریخ کے گواہ ہیں۔ دعا ہے کہ ان کے مرقد پر ہمیشہ نور برستا رہے۔