"RBC" (space) message & send to 7575

سیانی مائی

اس کا نام سیانی تھا‘ ہمارے چھوٹے قصبے میں ہمارے گھر کے قریب موچیوں کا محلہ تھا۔ یوں کہیں کہ ایک ہی برادری کے دس‘ بارہ گھر تھے جو اس زمانے کے روایتی جوتے چمڑے سے تیار کرتے۔ ویسے یہ لوگ قوم کے سیال تھے مگر آبائو اجداد کا پیشہ جفت سازی تھا۔ اکثریت ان کی نہایت غریب اور کسمپرسی کی زندگی گزارتی تھی۔ سارے دن میں شاید شام تک ایک کاریگر صرف ایک جوڑا تیار کر پاتا۔ اکثر یہ کام آرڈر پہ ہوتاتھا۔ کوئی شخص ایک سے زیادہ جوتوں کا جوڑا بیک وقت نہیں رکھتا تھا۔وہ گھس کر ختم ہو جاتا تو دیہاتی لوگ پرانی جوتیوں کا ڈھیر اپنے مخصوص کاریگر کے حوالے کرتے اور دوسرے دن مرمت ہو جانے پرواپس لے جاتے۔ ان بیچارے کاریگروں کو کوئی نقدی اس محنت کے عوض نہ ملتی اور نہ ہی غربت کے اس زمانے میں جو بچپن میں میں نے دیکھا ہے کسی کے پاس کچھ ہوتا۔ فصل جو زیادہ تر گندم کی ہوتی‘ کے پکنے کے بعد موچی‘ کمار‘ ترکھان اور چڑوھے جو شادی بیاہ یا خیرات کے موقع پر دیگیں تیار کرتے تھے‘ اپنا اپنا سالانہ حصہ وصول کرتے۔ صدیوں پرانا یہ مبادلاتی نظام قائم تھا۔ آج کل کی خوشحالی کو دیکھتا ہوں تو اُس زمانے کے غریب خاندانوں خصوصاً عورتوں اور بچوں کی زندگی پر بہت ترس آتا ہے‘ اور آج بھی اپنے دل میں دکھ محسوس کرتا ہوں۔ غربت کی چکی تو پہلے ہی تھی مگر کچھ رسم و رواج ایسے تھے جو غرباکو مزید باریک پیستے۔ ادلے بدلے کی شادیوں کا رواج ہمارے اس بدقسمت علاقے میں آج بھی ہے۔
سیانی کا خاوند موچی تھا اور تب شادیاں بھی اوائل عمری میں ہوتی تھیں۔ وہ بھی رشتوں کے ایسے ہی ادلے بدلے میں ایک دن دلہن بنی تھی۔ آج بھی وہاں بچیوں کی قسمت کا فیصلہ قدیم روایت کے مطابق بزرگ ہی کرتے ہیں۔ اکثریت اب بھی ادلے بدلے یا مقامی زبان میں جسے وَٹا سٹا کہتے ہیں‘ کے نظام پر قائم ہے۔ ظلم یہ ہے کہ بیٹے کا گھر بسانے کی خوشی میں بہنوں کی قربانی دی جاتی ہے‘ کہ نہ عمر دیکھی جاتی ہے اور نہ یہ کہ وہ شخص پہلے شادی شدہ ہے یا نہیں۔سیانی کے بچوں میں پہلی بچی تھی اور جوانی کے پہلے سالوں میں جب اس نے قدم رکھا تھا تو سیانی کے خاوند نے اس کا رشتہ اپنی برادری کے ایک نوجوان سے طے کر دیا اور بدلے میں اُس کی بہن اپنی دوسری بیوی بنا کر لے آیا۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کی سوکن اس کی بیٹی کی عمر کی تھی۔ سیانی ہر صبح سویرے چھوٹا سا جستی مٹکا لے کر میری والدہ کے ساتھ بیٹھ جاتی‘ یہ وہ وقت ہوتا جو میری امی لسی بلونے میں مصروف ہوتیں۔ ہم نہ غریب تھے اور نہ ہی امیر‘ متوسط طبقے کے تاجر پیشہ اور ہم ہمیشہ گھر میں تازہ دودھ‘ مکھن اور لسی کے لیے ایک گائے رکھتے تھے۔ بہت کم گھر ایسے تھے جہاں صبح سویرے لسی بنتی اور جہاں جہاں ایسا ہوتا محلے کی غریب عورتیں اپنا حصہ لینے کے لیے آجاتیں۔کوئی بھی اسے نہ بوجھ سمجھتا اور نہ ہی عیب۔ اس اچھے زمانے میں ابھی بانٹ کر کھانے پینے کا رواج تھا‘ سب ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔ چند اور عورتیں بھی اس مقصد کے لیے آتیں مگر سیانی کی شخصیت اور اس کی کہانی میری یادداشت میں آج بھی محفوظ ہے۔ میں ابھی پرائمری یا کچھ اوپر کی کلاس میں تھا اور گھر مزید تعلیم کے لیے نہیں چھوڑا تھا۔ میں کہیں ادھر اُدھر بیٹھا ہوتا تو سیانی اور امی کی باتیں غور سے سنتا رہتا۔ وہ بہت رنجیدہ تھیں‘ اپنے دکھوں کا سہارا میری امی کو سمجھتے ہوئے اپنی غربت اور بے بسی کے حالات سناتیں۔ امی ہمدردی کے ساتھ جو کر سکتیں‘ کرتیں۔ ان کی دوستی ان حالات میں شروع ہوئی تو کچھ دنوں کے بعد ایک بہت بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔
ہمیں اس زمانے میں اس جگہ منتقل ہوئے ابھی ایک دو سال ہی ہوئے تھے۔سیانی غالباًامی کی پہلی سہیلیوں میں سے تھی مگر بعد میں تو ہر برادری اور پورے علاقے کے ساتھ ان کا تعلق کئی اور حوالے سے قائم ہو چکا تھا۔ ایک دن دیکھا کہ سیانی ایک قاعدے کی طرح کا کتابچہ اپنے ساتھ لائی ہیں اور جب امی دودھ بلو رہی ہیں تو وہ انہیں کچھ پڑھ کر سنا رہی ہیں۔ میں بھی غور سے سنتا اور وہ الفاظ ذہن میں بٹھا لیتا۔ وہ پہلا کتابچہ نور نامہ تھا جو سرائیکی یا پنجابی میں خدا اور اس کے رسولﷺ کی شان میں شاعرانہ کلام تھا۔ روزانہ وہ درس دیتیں کتابچہ پڑھاتیں اور ساتھ حفظ بھی کراتیں کہ اسے پڑھنے کے علاوہ حفظ کرنا اور کم از کم ہر دن اسے دہرانا بڑے ثواب کا کام خیال کیا جاتا تھا۔ ہماری امی نے نور نامہ پڑھ لیا تو سیانی ایک اور کتابچہ‘ معراج نامہ لے آئیں۔ حیران ہوں کہ بہت ہی کم وقت میں امی نے پڑھنا سیکھ لیا اور معراج نامہ بھی ایک آدھ ماہ میں ازبر کر لیا۔ اس کے بعد وہ رسالہ پکی روٹی لے آئیں جو 18ویں صدی میں پنجاب کے دیہی علاقوں میں دین اسلام کی بنیادی باتیں آسان انداز میں مردوں اور عورتوں تک پہنچانے کے لیے بہت مقبول رہاتھا۔ اس کی جامعیت اور انداز ایسا تھا کہ اَن پڑھ لوگ بھی اسے نہ صرف زبانی یاد کرلیتے بلکہ اس کو پڑھتے بھی اور اس طرح ان رسالوں اور کتابچوں کی وجہ سے انگریزی کے نئے تعلیمی نظام سے پہلے شرح خواندگی بہت زیادہ تھی‘ جو کم از کم سامراجی دور میں اس کے قریب بھی نہ آ سکی۔ یہ بعد میں معلوم ہوا کہ اس رسالے کا نام پکی روٹی کیوں تھا۔ روٹی کو ایک استعارہ کے طور پر استعمال کیا گیاہے کہ پکی روٹی آپ کے سامنے میز یا دسترخوان پر ایسے نہیں آتی۔ زمین پر ہل چلائے جاتے ہیں‘ اسے نرم اور ہموار کیا جاتا ہے‘ بیج بوئے جاتے ہیں‘ پانی مسلسل دینا پڑتا ہے‘ سردیوں کی راتوں کو بھی۔ فصل پکنے پر کاٹ کر گندم بوریوں میں بھرتے ہیں اور چکی میں پیس کر اس کی روٹی تنور یا توے پر پکاتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات اوردرجات تک پہنچنے کے لیے تفسیر‘ حدیث اور فقہ کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے جس طرح روٹی کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
سیانی مائی امی کی استانی بن گئیں اور ان کا احترام ہمارے دل میں آج بھی قائم ہے اور ساتھ ہی انہوں نے ایک اور استانی کو تیار کر لیا۔ ہماری امی بھی سرائیکی زبان کا قدیم رسالہ نور نامہ اور پنجابی ادبیات کی کلاس سے پکی روٹی کے علاوہ کئی دوسرے ایسے رسالے بچیوں کو اور دیگر عورتوں کو پڑھاتی رہیں۔ گزشتہ صدی کے اوائل بلکہ بہت دیر تک جدید سکولوں کا قیام عمل میں نہیں آیا تھاتو تعلیم مدارس میں ہوا کرتی تھی۔ وہاں ہر مذہب کے بچے ہندی‘ اردو‘ فارسی اور عربی میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ عورتوں کے لیے دیہاتوں میں ایسا کوئی نظام نہیں تھا۔ عورتوں کی تعلیم کی ذمہ داری ہماری سیانیوں نے اٹھائی ہوئی تھی۔ واقعی وہ دانشمند‘ باہنر‘ سگھڑ اور تمام بنیادی علوم میں مہارت رکھتی تھیں۔ چرخہ کاتنا‘ سوت بنانا اور گھر کے کمبل‘ رضائیاں اور گوٹے کناری کے کام اور بستروں پر کڑھائی والی چادریں وہ خود تیار کرتیں۔ بچوں اور بڑوں کو کوئی بیماری‘ بخار‘ نزلہ زکام اور پیٹ درد کی شکایت ہوتی تو جڑی بوٹیوں سے نسخہ تیار کر کے طبی خدمات بھی مفت فراہم کر دیتیں۔ سیانی کے بارے میں آج شاید ہی ہمارے علاقے میں کوئی جانتا ہو سوائے اس کی پہلی یا دوسری نسل کے‘ مگر اس حوالے سے انہیں کیا معلوم کہ وہ غربت اور مظلومیت کی فضا میں بھی علم کے کئی چراغ روشن کر گئیں جو آج بھی میرے خیال میں روشنی پھیلا رہے ہیں۔
گاؤں کی سیانیاں باشعور‘ غیرت مند‘ خودداراور علم و ہنر میں ایک مقام رکھتی تھیں لیکن ہمارا پدر شاہی معاشرہ آج تک ان کی قدر نہ کر سکا۔ شخصیت ان خواتین کی ایسی کہ اپنے ضعیف اور کپکپاتے ہاتھ بھی کسی کے سر پر پھیرتیں تو ایک دم سکون اور اطمینان کی کیفیت پیدا ہو جاتی۔ اب یاد نہیں کہ وہ سیانی کب اور کس حال میں اپنی تنگ زندگی سے آزاد ہوئیں مگر ہماری امی سے بہت پہلے جا چکی تھیں۔ ایک دفعہ پوچھا تھا‘ امی وہ سیانی کہاں ہیں؟ کہا کہ اللہ کو پیاری ہو گئیں‘ اور جسے اُس کا پیار حاصل ہوجائے‘ اُسے اور کیا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں