"RBC" (space) message & send to 7575

اجنبی کا پاکستان

کبھی کبھار نہیں بلکہ اکثر‘ آج کے دور میں محسوس کرنے لگے ہیں کہ اپنے ہی ملک میں ہم اجنبی ہو چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہو‘ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہم روایتی لوگ اس کی رفتار کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو پائے ہوں۔ اس کی سبک روی ہم جیسوں کو پیچھے چھوڑ کر نئی منازل طے کر چکی ہو۔ اپنی اجنبیت کی بات تو پھر کبھی سہی‘ کسی دوسرے کی بات کرتا ہوں۔ وہ بھی اجنبی محض ایک لحاظ سے نہیں تھا۔ گزشتہ ہفتے لاہور میں ایک روزہ کانفرنس میں شرکت کی تو صبح سویرے ادارے کے مہمان خانے میں ناشتے کی میز پر ان سے ملاقات ہو گئی۔ وہ کسی اور ملک سے تھے‘ اور ان کی نسل بھی ہم سے مختلف تھی۔ سلام دعا کے بعد میں نے انگریزی میں پیشکش کی کہ میں آپ کے لیے چائے بناتا ہوں۔ ان کا جواب اردو میں تھا کہ آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں‘ میں چائے بنانے کا ماہر ہوں۔ جہاں چائے بنانے‘ اچھی چائے اور کافی کی بات چل نکلے تو ہم اپنی مہارت منوانے کے لیے پسپائی اختیار نہیں کرتے۔مگر ہم نے اسے تنازع نہ بنانے کا تہیہ کر لیا کہ پہلے دن میں بنائوں گا‘ اگلے روز وہ بنائیں گے۔ پوچھا کیسی ہے ہماری بنائی ہوئی چائے تو انہوں نے اردو زبان کی روانی اور الفاظ کے چنائو میں شعر وشاعری ہی شروع کر دی۔ بھئی آپ تو اس ملک سے نہیں‘ اردو کہاں سے سیکھی؟ کہنے لگے کہ سیالکوٹ میں پیدا ہوا تھا‘ زندگی کے پہلے دس بارہ سال پاکستان میں گزارے اور فلاں فلاں سکول میں تعلیم حاصل کی۔ والدین نے بہت عرصہ اس ملک میں گزارا تھا۔ اگلے روز صبح ہماری پھر ملاقات ہوئی اور ناشتے کے بعد دیکھا کہ وہ سامنے موجود تھے۔ میں بھی اسلام آباد واپس جانے کے لیے چائے کے آخری گھونٹ کا انتظار کر رہا تھا۔ پتا چلا کہ وہ بھی اسلام آباد کی طرف سفر کرنے لگے ہیں تو میں نے انہیں اپنی گاڑی میں سفر کرنے کی دعوت دی۔
راستے میں کبھی انگریزی تو کبھی اردو میں ہماری گفتگو جاری رہی۔ معلوم ہوا کہ ہر چند سال بعد پاکستان آتے ہیں‘ دنیا کی ایک بہترین جامعہ سے بزنس مینجمنٹ میں سند یافتہ ہیں اوردنیا کے مختلف ملکوں میں کنسلٹینسی کرتے ہیں۔ یہی پیشہ ورانہ ذمہ داری اس مرتبہ انہیں یہاں لائی تھی۔ ہماری مشترکہ دلچسپی برطانوی راج کے زمانے کے قبائلی علاقوں اور اُس دور کے سفر ناموں میں نکلی‘ لیکن وہ زیادہ تر آج کے پاکستان کے بارے میں ایسے بات کرتے رہے کہ جیسے یہ بھی ان کا اپنا ملک ہو۔ ان کی باتوں میں ہمارے لیے محبت‘ ہمدردی‘ دعائیں بار بار کئی حوالوں سے ظاہر ہو رہی تھیں۔ باقی سب موضوع چھوڑ کر میں آج کل کے دور میں اور اپنے یہاں کے معاشرے کے بارے میں ان کے تاثرات لینا چاہتا تھا‘ اور زیادہ تر رخ اسی طرف رکھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ بھی اوئلِ جوانی میں اس ملک میں بہت عرصہ رہے‘ اردو سیکھنے اور اپنے ملک میں بھی ہماری دیسی کمیونٹی کے ساتھ رابطے میں رہنے کے باوجود‘ اپنے اس پرائے دیس میں ہماری ہی طرح کی کچھ اجنبیت محسوس کر رہے تھے۔ صاف صاف تو کچھ نہیں کہا لیکن مفہوم یہی تھا کہ ملک اور معاشرے کچھ اس طرح سے بدلے ہیں کہ اب وہ نہیں رہے۔ پرانے وقت سے موازنہ کرتے تو اجنبیت کا احساس محتاط فقروں میں بھی ابھر کر آ جاتا۔
پاکستان کے لوگ اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں‘ اسے کامیاب اور آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ ملک دنیا کے ممتاز ترین ممالک میں شمار ہو مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے خوابوں اور حقیقت میں نمایاں فرق ہے۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا‘ ملک کو کوئی چھوٹی سی بھی کامیابی مل جائے تو دیوانہ وار وہ سڑکوں پر نکل آتے ہیں‘ خوشی مناتے ہیں جیسے اس لمحے کے لیے بہت مدت سے منتظر تھے۔ کرکٹ کی مثال دیتے ہوئے اپنی اس بات میں انہوں نے وزن ڈالا کہ کتنی بڑی خواہش تھی کہ وہ اپنے حریف کو ہرائیں مگر پھر میں نے ان کا ردعمل بھی دیکھا۔ میں اُن کی باتیں سننا چاہتا تھا کہ ان میں کسی سیاسی جانبداری‘ تعصب یا بے تکی منفیت کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ اب لگا کہ وہ بھی ہمیں آگے بڑھتے اور ترقی کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اپنا ہی تجربہ بتا رہے تھے کہ وہ نجی کمپنیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کرنے اور کاروبار کو پھیلانے کا مشورہ دیتے ہیں تو وہ حکومتی اداروں کی طرف سے رکاوٹوں‘ ہراسانی اور رشوت خوری کی داستانیں سنانے لگتی ہیں۔ کچھ تؤقف کے بعد پوچھنے لگے کہ آپ ہی بتائیں کہ ساری زندگی سیاست پڑھاتے رہے ہیں کہ لوگ تو ملک سے محبت کرتے ہیں‘ سرمایہ کار یہاں پر پیسہ لگا کر روزگار کے مواقع پیدا کرنا چاہتا ہے تو آپ کے سیاسی لوگ ان کی امنگوں کے مطابق کیوں کام نہیں کرتے؟ یہ بتائیں کہ آپ کے جیسے کچھ دیگر ممالک نے ترقی‘ استحکام اور خوشحالی کی طرف تیزی سے قدم اٹھائے ہیں‘ آپ لوگوں میں کیا کمی ہے؟ میں نے کیا جواب دینا تھا‘ خاموش ہی رہا۔ جواب تو اجنبی کو بھی معلوم تھا مگر وہ صرف مکالمے کو آگے بڑھانا چاہتا تھا۔سوچتا رہا کہ کتنی تکلیف دہ صورتحال ہے کہ ہمارے ملک میں عام آدمی سے لے کر بڑے بڑے جدی پشتی‘ خاندانی موروثی اور دیگر تک کو پاکستان کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں سب کچھ معلوم ہے مگر لگتا ہے کہ قدموں میں بھاری بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں‘ آگے کی طرف نہیں اُٹھ رہے۔ زور لگاتے ہیں لیکن ایک آدھ قدم کے بعد پھر رک جاتے ہیں‘ سفر کٹ نہیں رہا۔
کسی غیر ملکی کو‘ اس اجنبی سمیت کبھی پاکستانی ثقافت‘ یہاں کی موسیقی‘ رنگا رنگی اور عام آدمیوں کے بارے میں کوئی منفی بات کرتے نہیں سنا۔ اس اجنبی نے تو بار بار کہا کہ یہاں لوگوں میں فیاضی‘ مہمان داری اور خدمت کا جذبہ ان کی سوچ اور عمل میں بھرا ہوا ہے۔ لوگ خود بھوکے رہ لیتے ہیں‘ دوسروں کو اپنا کھانا دے دیتے ہیں۔ ان کی زبان سے یہ سن کر ذرا حیرت ہوئی کہ شاید یہاں اس لیے بھی غریب ہیں کہ اپنا خیال رکھنے کے بجائے وہ دوسروں ہی کا خیال رکھتے ہیں۔ میں اس فقرے پر چونک سا گیا کہ آپ نے تو بات بہت پتے کی کر دی ہے کہ وہ جن کا خیال رکھتے ہیں‘ وہ ہمارے موروثی خاندان ہیں جو ہر سطح پر اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ ان کی حاکمیت کو‘ جو بھی سیاسی موسم ہو‘ بسر وچشم قبول کر کے‘ سر جھکائے اپنی غربت کو اپنا مقدر سمجھے زندگی کے دن گزار جاتے ہیں۔ میں نے اس اجنبی کی مختصر سی بات کی یہ تشریح کی تو ہلکی سی مسکراہٹ ایک پنجابی قہقہے میں تبدیل ہو گئی۔ اپنی سیاست کی بات ہو اور بندہ ہنسے بھی نہ تو بات کرنے کا مزہ ہی نہیں آتا۔ میں نے ایک ذاتی سا سوال بھی کر دیا کہ بتائو آپ نے تو یہاں تعلیم حاصل کی‘ اپنے بچوں کو پاکستان بھیجیں گے کہ وہ بھی یہاں تعلیم حاصل کریں‘ وہ بھی آپ کی طرح فرفر اردو بولیں‘ اور انہیں بھی کسی رومانوی غزل کے اشعار یاد ہوں؟ ہنس دیے‘ اور کہا کہ میری بیوی فرانسیسی ہے‘ وہ بالکل نہیں بھیجے گی۔ اس سفارتی نوعیت کے جواب سے میں سمجھ گیا کہ ہم بہت کچھ کھو چکے ہیں‘ اور حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہو گی۔
اجنبی کی باتیں اپنے پہلے سے اداس دل کو مزید رنجیدہ کر گئیں۔ سوچا کہ یہ اداسی آپ سے بھی شیئر کر لوں‘ شاید دل کا بوجھ ہلکا‘ اور اپنی اجنبیت کا احساس قدرے کم ہو جائے۔ لوگ تو اچھے ہیں‘ ہمارے ثقافتی رنگ اتنے جاذبِ نظر ہیں‘ خواب بھی اونچے ہیں‘ کاش میرِ کارواں بھی ان میں سے ہوتے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں