"RBC" (space) message & send to 7575

چشمِ حیراں سے

اپنے آبائی گائوں اس مرتبہ قدم رکھتے ہی ماحول کچھ ایسا بدلا نظر آیا کہ کسی اور جگہ پہنچ جانے کا گمان ہونے لگا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اب جب بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنے میں کوئی زیادہ فاصلہ نہیں رہا‘ تو میرے بچپن کا گائوں دیکھتے ہی دیکھتے ایک قصبے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ ہر روز یہا ں قیام کے دوران جو خوشگوار چیز حیران کیے دے رہی ہے‘ وہ گلیوں اور سڑکوں کی صفائی‘ عشروں سے ہر گھر سے نکلتی بدبودار نالیوں کا خاتمہ اور ہر گھر میں صاف پانی کی رسائی ہے۔ اب نہ تو کہیں برسوں سے پڑے کچرے کے ڈھیر نظر آئے اور نہ ہی اُڑتے ہوئے شاپروں‘ کاغذ کے پرزوں اور گرد وغبار کے بادل۔ کبھی سوچا ہی نہ تھا کہ پنجاب کے اس جنوب کی طرف آخری ضلع کی آخری تحصیل روجھان کے چھوٹے سے قصبے عمر کوٹ‘ جہاں ہمارا آبائی ٹھکانہ ہے‘ میں ایسا انقلاب ممکن ہو سکتا ہے۔ دراصل مسلسل سیاسی بحرانوں اور حکومتی اداروں کی کارکردگی نے ایک عرصہ سے ہم سب کو مایوسیوں کے دائروں میں محبوس کر رکھا ہے۔ تقریباً دو سال پہلے اپنے ہی علاقے کے تین اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوںسے ملاقات ہوئی تو دل یقین نہیں کر رہا تھا کہ وہ پنجاب رورل میونسل سروسز کمپنی کے تحت جس ترقیاتی منصوبے پر کام کرہے ہیں وہ اس پسماندہ سماجی ماحول میں ممکن ہو سکے گا۔ ان کی خود اعتمادی‘ لگن اور استقامت کو دیکھ کر ان کے منصوبے کی اہمیت اور افادیت پر سر تو ہلا دیتا مگر اپنا دل تھا کہ ماضی کی کئی ناکام کاوشوں‘ نیم پختہ ارادوں اور غیر مناسب اقدامات کی طرف چلا جاتا اور مایوسی کے بادل گہرے ہو جاتے۔ لیکن پھر احساس ہونے لگا کہ اس مرتبہ کچھ مختلف ہے۔ہر مرتبہ آنے پر ان نوجوانوں کو یہاں لوگوں کو متحرک کرنے‘ ان کی آرا ء کو منصوبے میں شامل کرنے اور ان کے ماحول‘ صفائی اور صاف پانی کے سلسلے میں رویوں کو تبدیل کرنے کے عمل میں مصروف دیکھتا۔ یہ بھی سنتا اور دیکھتا کہ لوگوں کو ایک صاف ستھری زندگی گزارنے کی ترغیب کے لیے کئی اجلاس منعقد کیے اور یوں انہوں نے اس فقید المثال منصوبے کے لیے سماجی زمین کو ہموار کیا۔ جو ہم نے علم سماجیات سے ترقی کے حوالے سے بنیادی بات سیکھی ہے‘ وہ یہی ہے کہ لوگوں میں اس کے لیے تڑپ اور امنگ پیدا کی جائے‘ اور وہ اس کی ملکیت پر فخر محسوس کرنے لگیں۔ یہ ایک زبردست کامیابی تھی جو اس کمپنی کے نوجوانوں نے یہاں اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حاصل کی۔
مذکورہ کمپنی کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی‘ اس کی جگہ مقامی حکومتیں کیوں نہ بنائی گئیں‘ اور ہماری ضلعی انتظامیہ کی اس طرح کی ذمہ داریوں کے شعبوں کو کام کیوں تفویض کیا گیا‘ یہ وہ سوالات ہیں جو اٹھائے تو جا سکتے ہیں‘ مگر ماضی کی تاریخ کے حوالے سے جواب دیں تو اس منصوبے سے پہلے کی گندگی کے ڈھیروں‘ بدبودار پانی‘ ابلتی نالیوں اور کوڑے کرکٹ سے اٹی گلیوں کے بارے میں سوال اٹھانا پڑیں گے۔ پہلے تو یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ میں نے یہاں کیا دیکھا اور کیا محسوس کیا۔ ڈھلتی شام کے وقت جونہی اپنے کئی ماہ سے خالی منتظر گھر میں قدم رکھا تو دیوار کے ساتھ چالیس سال سے بہتی گندی نالی بند پائی اور گلی میں ٹف ٹائل لگی تھی۔ سوچا کہ شاید یہ مہربانی اس درویش پر ہوئی مگر معلوم ہوا کہ زمین دوز سیوریج اور صاف پانی کی سہولت تقریباً 21 ہزار کی آبادی کو مہیا کی گئی ہے جن میں قریب قریب کے گائوں بھی شامل ہیں جو سب مل کر اب ایک مربوط چھوٹے قصبے کی شکل پیش کر رہے ہیں۔ صبح سویرے حسبِ معمول اپنے جنگل اور کھیت کی طرف نکلا تو سڑک پر کہیں کوڑا کرکٹ نظر آیا اور نہ ہوا میں اڑتے شاپر۔ کچھ دیر بعد ایک گاڑی میں ایک مخصوص جیکٹ میں ملازمین کو ہر گھر سے کوڑا کرکٹ جمع کرتے اور سڑک پر ایک ٹریکٹر پر لگے برومر کو صفائی کرتے دیکھا۔ یہ منظر اسلام آباد کے مضافات میں صرف ایک نجی سوسائٹی میں دیکھا تھا۔ جی چاہ رہا تھا کہ اس منصوبے کے بارے میں ان نوجوانوں سے دوبارہ ملاقات ہو‘ نہ صرف انہیں مبارکباد دوں بلکہ ان سے کچھ سیکھوں کہ ہمارے شکوک کو انہوں نے یقین میں کیسے بدلا۔ اتفاق کی بات ہے کہ ان کا ہی فون آ گیا اور وہ خود تشریف لے آئے۔ میری چشمِ حیران نے جو دیکھا تھا کچھ اور‘ ان کی زبانی سُن کر ہمارا دل حیرت کے سمندر میں ڈبکیاں کھانے لگا۔ دریائے سندھ کے اندر انہوں نے میٹھے پانی کا ایسا زیرِ زمین ذخیرہ نکالا کہ وہ نسلوں تک ختم نہیں ہو سکتا۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کا پورا نظام سولر پاور سے چلتا ہے۔ پانی کا معیار عالمی سطح کا ہے‘ اور روزانہ تین گھنٹے ہر گھر کو میسر ہے کہ یہ پینے کے لیے ہے اور اسے صرف اس مقصد کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔ لوگ ابھی اس سہولت سے کیا کرتے ہیں وہ علیحدہ بات ہے۔ میری ان سے درخواست ہے کہ پانی کا ضیاع جو ہم ہر جگہ دیکھتے ہیں‘ اسے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ میٹر لگائے جائیں۔ اور یہ ان کے منصوبے میں شامل ہے۔ دیکھیں ہمارے دیہات اور شہروں میں اس قدرتی دولت کی اہمیت کب دلوں میں جگہ بنائے گی۔
دو باتوں پر ان پُرعزم نوجوانوں کے ساتھ مکالمہ رہا کہ نکاسیِ آب کا کیا بندوبست ہو گا اور اس منصوبے کی تکمیل کے بعد اسے خودکفیل اور دیرپا کیسے بنایا جائے گا۔ یہ بھی کچھ حیرانی سے کم نہ تھا کہ جہاں لاہور اور دیگر بڑے شہر ابھی تک گندے پانی کی تطہیرکر کے کاشتکاری کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال نہیں کر سکے‘ کم از کم اس چھوٹے سے قصبے میں یہ کر دکھایا ہے۔ مزید فالتو پانی سے ایک غیر آباد سرکاری زمین پر جنگل اگانے کا پروگرام ہے۔ یقین جانیں‘ ہمیں توقع نہیں تھی کہ ہم بھی کبھی اپنے پرانے آبائی گائوں میں صاف ہوا میں سانس لیں گے مگر اس اعلیٰ‘ منظم اور مربوط منصوبہ سازی جو ترقی یافتہ ملکوں کی مقامی کونسلوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد کی گئی ہے‘نے اس علاقے کی محرومیوں اور مایوسیوںکو بڑی حد تک ختم کر دیا ہے۔ امید ہے اس کی کامیابی اور اس سے آنے والی بہتری کے نتیجے میں مزید ترقی کے چراغ روشن ہوں گے اور یہ سفر محض تازہ ہوا کا مختصر جھونکا ثابت نہیں ہو گا۔ یہاں ضلعی انتظامیہ کا کردار بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔بے شک مربوط ترقی مربوط قیادت اور مربوط منصوبہ بندی سے ہی ممکن ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں