آج کل میرا مشغلہ سابن گیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف دور کا جو بھی وزیر ، مشیر یا ارب پتی ساتھی ملتا ہے تو میں اُس سے شرارتاً پوچھتا ہوں کہ جنرل صاحب کو فون کرکے ان کی خیریت پوچھی کہ نہیں؟وہ سنجیدگی سے بتاتے ہیں کہ وہ تو اُن سے ناراض ہیں۔یہ لوگ وہ ہیں جو جنرل مشرف کا نام عزت سے نہ لیا جاتا تو ہم پر برس پڑتے تھے۔اب کہتے ہیں،ہم سے پُوچھ کر لوٹے ہیں؟لگتا ہے جنرل مشرف نے ان کے ساتھ کوئی اچھائی نہیں کی تھی، سب برا کیا تھا۔ یہ رویہ وہ ہے جو کبھی برطرفی کے بعد نوازشریف کے ساتھیوں کا تھا۔ان دنوں جب میں میاں نوازشریف کے وزراء سے یہی سوال پوچھتا تو وہ فرماتے : جناب ہم نوازشریف سے ناراض ہیں۔انہوں نے ہم سے پوچھ کر جنرل مشرف کو برطرف کیا تھا۔اُس وقت یہ سب نوازشریف سے ناراض تھے اور اب جنرل مشرف سے ناراض ہیں۔آپ دیکھ لیں کہ کیسے رائے ونڈ میں سیاسی لانڈری کی دکان کھلی گئی ہے۔ماروی میمن ، سمیرا ملک، روزینہ عالم کے بعد زبیدہ جلال بھی رائے ونڈ پہنچ گئیں۔وہ بھی یقینا جنرل مشرف سے ناراض ہوں گی کہ انہوں نے بلوچستان کی سکول ٹیچر کو اٹھا کر وفاقی وزیر بنادیا۔روشن خیالی کی مثال بن کر دنیا بھر میں سفر کیا اورانہیں وائٹ ہائوس میں اعلیٰ اعزازات سے نوازا گیا۔جنرل کے ساتھ ملنے سے پہلے کسی سمجھدار نے زبیدہ جلال کو سمجھایا کہ یہ آپ کیا کررہی ہیں،یہ وقت دوبارہ نہیں آئے گا۔یوں وہ بلوچستان سے اپنے ساتھ ایک افسر عرفان اللہ کو لائیں۔اربوں روپے سے ’توانا پاکستان‘ منصوبہ شروع ہوا جس کا مقصد بلوچستان کے غریب بچوں کے لیے سکول میں دودھ اور بسکٹ عوام کرنا تھا۔بچوں کو دودھ کیا ملتا ، اپنے لیے لاکھوں روپے کے باتھ روم بنوائے ، پردے خریدے ، گاڑیاں خریدیں اور پھر مختلف پارٹیوں کو کروڑوں روپے کی ایڈوانس ادائیگیاں کیں۔نیب پچھلے کئی برسوں سے اس سکینڈل کی تحقیقات کررہا ہے۔سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ انور بیگ نے اس سکینڈل کی تحقیقات کی تھی۔ دبئی میں پیسے ٹرانسفر کیے گئے اور وہاں سے وہ پیسہ ملائشیا میں لگ گیا۔اللہ بھلا کرے 2008ء کے صدارتی انتخاب کا کہ ان کے ووٹ کی ضرورت پڑ گئی اور یوں ان کے سب گناہ معاف ہوگئے۔نیب نے زبیدہ جلال اور عرفان اللہ کی جگہ ان کی وزارت کے غریب کلرک اور اس ڈرائیور تک کو برسوں کی سزا دلوادی جنہیں چیک دے کر بنک بھیجا جاتا تھا۔کیا عجب انصاف ہے کہ جنہوں نے کروڑوں روپے نکلوائے وہ رائے ونڈ میں نوازشریف سے ملاقاتیں کررہے ہیں اور جو چیک لے کر بنک گئے تھے وہ جیل میں ہیں۔ فصیح بخاری نے انصاف کا کیا بول بالا کیا ہے!! نیب اسلام آباد نے لاہور کی اس پارٹی کو پکڑا جسے زبیدہ جلال نے ایڈوانس ادائیگی کرائی تھی۔اس پارٹی سے کہا گیا کہ سولہ کروڑ روپے ادا کرو یا زبیدہ جلال کو دبئی میں دیئے گئے پیسوں کا حساب دو۔ساتھ ہی نیب کے افسر نے سمجھایا کہ اگر زبیدہ جلال کے خلاف ثبوت دیے تو پھنس جائو گے اور خود بھی جیل جائو گے۔لہٰذا بہتر ہوگا کہ سولہ کروڑ روپے ادا کردو اور گھر جائو۔پتہ چلا ہے کہ سولہ کروڑ روپے میں سے تیس فیصد نیب اور اس کے افسر کو ریکوری کرنے پر ملناتھا۔چنانچہ پانچ کروڑ روپے نیب کے افسروں نے انعام لے لیا اور سب کو کلین چٹ مل گئی۔انور بیگ جنہوں نے خود تحقیقات کی تھی، ان کی انکوائری رپورٹ گل سڑرہی ہے۔اب سنا ہے کہ جب انور بیگ رائے ونڈ گئے تو حیرت سے ان کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا جب زبیدہ جلال نے انہیں طنزیہ سلام کیا اور خبر دی کہ میاں صاحب نے انہیں نواز لیگ کا ٹکٹ دے دیا ہے۔کاش پیپلزپارٹی کو کرپٹ جماعت کہہ کر چھوڑنے والے میرے دوست انور بیگ اس لمحے وہاں موجود ہوتے اور دیکھتے کہ انہوں نے جس کے خلاف کرپشن سکینڈل کی خود تحقیقات کی تھی وہ آج نواز لیگ میں فخریہ انداز میں شامل ہوگئی ہیں۔ زبیدہ جلال پر آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کا بھی اطلاق نہیں ہوگا اور ان سے نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ بچوں کے فنڈز کیوں کھاگئیں اور ان کی وجہ سے غریب ملازم جیل میں کیوں ہیں؟نامعلوم ، خود بچوں کی ماں زبیدہ جلال کو کیسے رات کو نیند آتی ہوگی؟ سنا ہے جب زبیدہ جلال کو پارٹی میں لینے کا فیصلہ ہورہا تھا تو میاں نوازشریف نے مروتاً سب سے رائے لینے کا فیصلہ کیا ہے۔کہا گیا کہ جو زبیدہ جلال کے حق میں ہیں ، وہ ہاتھ کھڑے کریں تو سب نے فوراً روبوٹ کی طرح ہاتھ فضا میں بلند کردیے۔تاہم ایک ہاتھ کھڑا نہ ہوا۔وہ ہاتھ سینیٹر ظفر علی شاہ کا تھا۔چلیں ، اس جماعت میں ایک باضمیر تو بچ گیا ہے جو آج بھی ڈٹا ہوا ہے۔ ظفر علی شاہ کے انکار کے بارے میں سن کر یاد آیا کہ جب زبیدہ جلال جنرل مشرف کی وزیر تھیں تو میں نے انگریزی اخبار میں سکینڈل فائل کیا تھا کہ کیسے ایف سولہ طیاروں کے لیے دیے گئے ڈالروں میں سے اب امریکہ سے گندم لی جارہی ہے ۔اس سکینڈل کا چھپنا تھا کہ شور مچ گیا ۔ جنرل مشرف نے پہلے تو حسب عادت اس خبر کی مذمت کی اور پھر کابینہ کا اجلاس بلایا گیا اور اس میں زبیدہ جلال سمیت سب وزراء نے مشترکہ طور پر کابینہ سے بیان جاری کیا کہ یہ ڈیل نواز شریف نے بل کلنٹن سے کی تھی اس لیے ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔ نواز شریف اٹک قلعہ میں قید تھے۔ اس وقت صرف ظفرعلی شاہ ہی پارٹی کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ انہوں نے کسی طرح نواز شریف سے رابطہ کیا اور شام کو پریس کانفرنس کی اور اس الزام کی تردید کی ۔ اس بھاگ دوڑ کا نتیجہ یہ نکلا کہ نیب کی ٹیم ظفر علی شاہ کے گھر پہنچ گئی اور ایک طویل سوالنامہ ان کے حوالے کر دیا گیا کہ وہ جواب دیں، ورنہ جیل جائیں۔آج اسی ظفر علی شاہ سے پوچھا جارہا ہے کہ وہ جنرل مشرف کی وزیر زبیدہ جلال کو پارٹی میں لانے کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ میں نے کسی سے پوچھا ،کیا جب نواز شریف نے سیاسی پرچون کی دوکان کھول لی ہے تو کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو انہیں بتا سکے کہ وہ ماضی میں کیا دعوے کرتے رہے ہیں اور اقتدار کو قریب دیکھ کر کس طرح سب کچھ بھول گئے ہیں ؟ کیا انسانی تاریخ میں وعدوں، دعوئوں اور انسانی اقدار کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی ؟ کیا حشر بپا ہے۔ جو لوگ کبھی نواز شریف سے ناراض تھے وہ جنرل مشرف کے ساتھ مل گئے اور جب جنرل مشرف سے ناراض ہوئے تو اب نواز شریف سے مل گئے۔ یہ ملک اقتدار کے بھوکے شکاریوں کی چراہ گاہ بن گیا ہے۔ وہ مزے میں ہیں ، جب چاہیں نواز شریف اور جنرل مشرف سے ناراض ہوجائیں اور جب چاہیں مان جائیں !