اچانک پتہ چلا‘ خزانہ خالی ہے۔ پتہ نہیں خزانہ کیسے خالی ہوگیا؟ ابھی تو صوبوں کو نئے بجٹ میں سے 1500 ارب روپے سے زیادہ نیشنل فنانس کمشن کا حصہ ہی دیا گیا ہے جس میں سب سے زیادہ حصہ پنجاب کو ملا ہے۔ تو ہم یہ سمجھیں کہ گائوں بسنے سے پہلے لٹیرے سب کچھ لے گئے؟ ابھی نیا مالی سال شروع بھی نہیں ہوا اور عوام کو بتا دیا گیا ہے کہ خزانہ خالی ہے۔ خزانہ کیسے خالی ہوگیا ہے ؟ کون سی ایسی چیز ہے جس پر ٹیکس نہیں لگایا گیا؟ ٹیکس کے استعمال کی بات کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ کوئی نہیں بتاتا پیسہ جاکہاں رہا ہے۔ ہمیں طائر لاہوتی کے غیور رزق کے نعرے سنائے گئے تھے جس سے پرواز میں کوتاہی کا اندیشہ نہ تھا اور خود پہلی پرواز ہی آئی ایم ایف سے قرضے لینے کے لیے بھرلی! ہم سمجھتے تھے کہ خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ کچھ بہتر کریں گے۔ پتہ چلا ہے کہ وہ میاں شہبازشریف کے نقشِ قدم پر چلنا چاہتے ہیں۔ شاید انہوں نے پنجاب کی بجٹ دستاویزات میں پڑھ لیا ہے کہ پنجاب میںصرف ایک سال میں منظور شدہ بجٹ ختم ہونے کے بعد 82 ارب روپے زائد خرچ کیے گئے‘ جسے ضمنی بجٹ کہا جاتا ہے۔ ان میں سے تقریباً پچاس ساٹھ ارب روپے سے زائد صرف اکیلے لاہور شہر پر خرچ ہوئے ۔ صوبے بھر میں ہسپتال، صحت کے اداروں، میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں کا بجٹ ڈیڑھ ارب روپے کم کیا گیا ۔ وہاں سے پیسے بچا کر کسی اور جگہ لگائے گئے۔ صرف چالیس خصوصی مریضوں پر پندرہ کروڑ روپے بھارت میں علاج پر خرچ ہوئے، صوابدیدی فنڈ میں کروڑوں روپے بانٹے گئے۔ 71 کروڑ روپے چند سو لوگوں میں بانٹے گئے۔ حیرت ہے کہ پھر بھی خزانہ خالی ہے! جب ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس سال بجٹ میں فلاں ادارے یا علاقے کے لیے اتنا بجٹ رکھا گیا ہے تو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ سال کے اختتام پر کتنے پیسے ریلیز کیے گئے تھے۔ پنجاب اور مرکز کی حکومتوں کے اپنے اعداد وشمار اٹھا لیں تو پتہ چلے گا کہ اربوں کا بجٹ رکھ کر بلے بلے کرانے کے بعد دراصل ان کے بجٹ میں کٹوتی کی گئی۔ اگر کسی کو شک ہے تو حکم کریں، ان کی اپنی دستاویزات پیش کر دیں گے۔ تو کیا خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ اس ماڈل کو فالو کرنا چاہتے ہیں کہ سب کچھ پشاور میں لگا دو اور باقی پورے صوبے کو ڈبو دو؟ مرکز سے خودمختاری لے کر ضلعوں کو غلام بنا لو ۔ ابھی تک خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ میں ایسی کوئی خاص بات نظر نہیں آرہی کہ وہ کم از کم پشاور کو ہی ماڈل شہر بنا لیں گے۔ شاید عمران خان ہی بتا سکیں گے کہ انہوں نے اپنے اس لیڈر میں کیا دیکھا؟ وگرنہ بظاہر تو ان کی باڈی لینگوئج متاثر کن نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ وہ ابھی تک حیرانی کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ اب وہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں۔ وہ اپنے صوبے میں جاری دہشت گردی کے جنّ کا مقابلہ کرنے کی بجائے گھر بیٹھ کر ہمیں پنجاب ماڈل کی کہانی سنا رہے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے سوشل میڈیا پر موجود نوجوانوں میں یہ اچھی بات ہے کہ سب چاہتے ہیں کہ خیبر پختون خوا کی حکومت پر چیک رکھا جائے کیونکہ اس سے اس نوجوان نسل کو امیدیں ہیں ۔ تاہم لگتا ہے کہ خیبر پختون خوا کی اس حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں ہے اور نہ ہی اس پر کوئی کام ہورہا ہے۔ شاید وہ سب یہی چاہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہ کہو، جس نے جو کچھ کرنا ہے کرتا رہے۔ مقابلہ جاری ہے کہ کون کیا مراعات لے گا اور پھر بھی ہمیں بتایا جاتا ہے خزانہ خالی ہے؟ دس کروڑ روپے سے زائد رقم ایم این ایز اور سینٹرز کو بجٹ سیشن میں مفت کھانا اور ہائی ٹی فراہم کرنے پر خرچ کی گئی ہے‘ حالانکہ انہیں اس سال پچاس کروڑ روپے سے زیادہ الائونس اس چیز کا ملے گا کہ انہوں نے اجلاس میں اپنے کھانے پینے کا بندوبست خود کرنا ہے۔ یہ نئے نمائندے اپنے کام کے ساتھ اتنے سنجیدہ ہیں کہ بجٹ میں دس کروڑ روپے کے کھانے کھا کر بھی اپنا کام کرنے کو تیار نہیں۔ اس کی ایک مثال میرے سامنے اس وقت آئی جب میں ایک دوست ایم این اے سے ملنے پارلیمنٹ لاجز گیا ۔ تقریباً ہر دوسرے کمرے کے دروازے پر وہ بجٹ دستاویزات بند لفافوں میں موجود تھیں جن پر ہائوس میں بحث ہورہی تھی ۔ انہیں کھول کر بھی پڑھنے کی زحمت نہیں کی گئی کہ ان میں کیا تھا جس پر انہوں نے اسحاق ڈار کے حکم پر منظوری دینی تھی۔ اگر کسی نے ان دستاویزات کو پڑھنا ہی نہیں تو پھر کاغذات، فوٹو کاپیوں پر لاکھوں روپے کیوں خرچ کیے جارہے ہیں ؟ دس کروڑ روپے کے مفت کھانے کھا کر بھی یہ لوگ چند بجٹ دستاویزات پڑھنے کو تیار نہیں ہیں جو سال میں انہیں ایک دفعہ ملتی ہیں۔ قومی اسمبلی میں جتنی بری حالت تحریکِ انصاف کے ایم این ایز کی نظر آرہی ہے اسے شاید ان کے چاہنے والے خود دیکھ لیں تو حیران ہوں کہ وہ کیسی تبدیلی لانا چاہتے تھے۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ ان کا کیا رول ہے اور انہوں نے کرنا کیا ہے۔ اب تک کسی ایک نے بھی کسی ایک موضوع پر ایسی بات نہیں کی جس سے پتہ چلتا ہو کہ وہ واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں یا انہیں کچھ سمجھ بوجھ ہے۔ شاہ محمود قریشی اگر بجٹ پر بولے ہیں تو وہ پرانے سیاستدان ہیں‘ وگرنہ باقی سب عمومی تقریروں سے کام چلا رہے ہیں ۔ صحافیانہ بیک گراونڈ کی وجہ سے شیریں مزاری سے کچھ توقع تھی لیکن وہ بھی متاثر نہیں کر سکیں ۔ ہم لوگوں نے شیریں رحمن کو دیکھا ہوا ہے۔ دونوں کا بیک گراونڈ صحافت ہے لیکن شیریں رحمن نے ایم این اے کے طور پر زیادہ بہتر کام کیا۔ ان کی بہادری اور ذہانت نے سب کو متاثر کیا تھا ۔ شیریں مزاری چھوٹے چھوٹے ایشوز میں پھنستی جارہی ہیں اور انہیں خود پتہ نہیں چل رہا کہ وہ کس کام کے لیے ہائوس میں آئی ہیں ۔ انہیں چاہیے کہ امریکہ کی سازشوں کے علاوہ اپنے ملک کے حالات پر بھی کچھ غور کر لیں تو یہ ان کی پارٹی اور یہاں کے لوگوں کے لیے بہتر ہوگا ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ شیریں رحمن نے اپنی قابلیت کی قیمت سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے پانچ کروڑ روپے کی شکل میں لی جو انہیں قومی خزانے سے نئی این جی او کے لیے ادا کیے گئے تھے جس سے انہوں نے اسلام آباد میں ایک دکان کھول لی ہے۔ مفت کا پیسہ کس کو برا لگتا ہے! انہی دنوں گیلانی صاحب سیلاب زدگان کے لیے چندے کے اپیلیں کر رہے تھے۔ چندہ اکٹھا ہوا یا نہیں لیکن شیریں رحمن کو اپنی این جی او کے لیے پانچ کروڑ روپے کا سرکاری چندہ مل گیا تھا حالانکہ ان کے خاوند کا اپنا بنک ہے۔ چلتے چلتے یاد آیا میاں نواز شریف کے پاس وزارت ہائوسنگ کی طرف سے بھیجی گئی ایک سمری پڑی ہے جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ اسلام آباد لینڈ ڈسپوزل ایکٹ کو ریلیکس کر کے128 گریڈ بائیس کے سرکاری افسران اور ججوں کو دو سرا پلاٹ الاٹ کرنے کی منظوری دیں کیونکہ وہ سب قانونی طور پر پہلا پلاٹ لے چکے ہیں۔ 213ان سے پہلے ہی دو دو پلاٹ لے چکے ہیں۔ دیکھتے ہیں تمام کوٹے، سیکرٹ فنڈز، صحافیوں کے بیرون ملک دوروں پر پابندی، جنرل مشرف کے ٹرائل اور صدر زرداری کے خلاف سوئس مقدمات دوبارہ کھولنے جیسے تاریخی فیصلے کرنے والے میاں نواز شریف اب کیا کرتے ہیں۔۔۔ رولز ریلیکس کرتے ہیں یا سمری مسترد! کیونکہ دونوں کے اپنے اپنے نتائج نکلیں گے !