کئی سال سے یہی ہو رہا ہے کہ سال کے آخری دن سفر میں کٹتے ہیں۔ اس سال بھی 29 دسمبر کو جب سڑک کے ذریعے کراچی جانے کے لیے لاہور سے نکلے تو دھند کے ایک کمبل نے ہمارے اردگرد بکل مار رکھی تھی۔ دو تین ڈگری درجہ حرارت میں جیسے ایک نیلگوں غلاف کو چیرتے نکلے۔ امید تھی کہ جنوبی علاقوں میں جیسے جیسے داخل ہوتے جائیں گے سردی اور دھند کم ہوتے جائیں گے۔
پچھلے سال دسمبر کے آخری دن ٹرین سے کراچی جانا ہوا تھا اور ریلوے کی ساری کارکردگی سامنے آگئی تھی۔ خوش گمانی پہلے بھی نہیں تھی اور اس سفر میں تو یہ بالکل واضح ہوگیا کہ موجودہ وزارت ریلوے سے کسی خیر کی توقع ہی فضول ہے۔ ریل، جس کے ساتھ کئی رومانس وابستہ ہیں اور جو انتہائی مہنگے ہوائی سفر کے زمانے میں مسافروں کے لیے اکلوتا آسرا ہے، اسے جی بھر کے خراب کیا گیا ہے۔ پے در پے حادثات اور وزارت کی بے حسی اس پر مستزاد۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹرین کا سفر اب انہی مسافروں کے لیے ہے جن کے پاس وقت کے ساتھ ساتھ جان بھی فالتو ہو۔
2019 کی ایک اچھی خبر یہ تھی کہ لاہور سکھر موٹر وے مکمل ہوچکی ہے اور لاہور عبدالحکیم M3، کے بعد اب ملتان سکھر موٹروے M5 بھی کھول دی گئی ہے۔ ان دیکھے راستوںکا شوق، نادیدہ بستیاں آنکھوں میں محفوظ کرنے کا خواب ہمیشہ سے رہا ہے۔ اس میں لاہور کراچی بذریعہ سڑک پہلی بار سفر کا لالچ یا ایک معنوں میں مہم جوئی کا تجسس بھی شامل ہوجائے تو یہ سب مل کر ایک دن صبح دس بجے موٹر وے پر لے ہی آتے ہیں۔
لاہور ملتان موٹر وے نے دونوں شہروں کے بیچ واقعی فاصلہ نہایت کم کردیا ہے۔ کوئی مسئلہ ابھی ہے تو پٹرول اور دیگر سہولیات کی دستیابی کا۔ قیام و طعام، پٹرول، مسجد وغیرہ کے لیے مخصوص جگہیں ابھی بند پڑی ہیں اور ان کے درمیان جابجا ریسٹ ایریاز بھی۔ ہمیں M3 پر صرف ننکانہ انٹرچینج کے بعد ایک سروس ایریا کچھ کھلا ملا اور اس میں پٹرول کا گو اصل پمپ بند تھا؛ تاہم عارضی انتظام موجود تھا۔ ننکانہ، جڑانوالہ، تاندلیانوالہ، سمندری، ٹوبہ ٹیک سنگھ، کمالیہ، پیر محل، شور کوٹ سے ہوتی ہوئی ایم 3 عبدالحکیم پہنچتی ہے۔ عبدالحکیم پر Y کی صورت میں ایم 3 پنڈی بھٹیاں سے آنے والی موٹر وے سے مل جاتی ہے اور ملتان کے مسافر اس پر سفر جاری رکھتے ہیں۔ آپ مخدوم پور ،کبیر والا، خانیوال انٹرچینجز سے ہوتے ہوئے شمس تبریز انٹرچینج پر پہنچ جاتے ہیں‘ جہاں سے باہر نکل کر ملتان دس پندرہ منٹ میں پہنچا جا سکتا ہے۔ گویا کسی ضرورت کے لیے رکنا نہ ہو تو لاہور سے تین گھنٹے میں ملتان پہنچا جاسکتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ یہ آرام دہ سفر نہ صرف بہترین سڑک اور خوب صورت راستے پر ہے بلکہ اس نے لاہور ملتان کی سابقہ مسافت چھ گھنٹے کو گھٹا کر آدھا کردیا ہے۔
ملتان سکھر موٹروے ایم 5 کل 392 کلومیٹر لمبی ہے اور اسے حال ہی میں ٹریفک کے لیے کھولا گیا ہے۔ یہ سڑک کئی لحاظ سے منفرد نظر آئی۔ ایک تو سابقہ موٹرویز کی نسبت اس کے سروس ایریاز زیادہ کشادہ اور زیادہ خوبصورت نظر آئے۔ یہ سروس ایریاز اگرچہ بند تھے لیکن گزرتے ہوئے دیکھنے پر ان کی کشادگی اور ڈیزائن جاذب نظر تھے۔ سروس ایریا کے نشانات میں ایک نشان ہلال کا بھی تھا جو بظاہر ہلال احمر یعنی طبی سہولت کی طرف اشارہ تھا۔ اگر ایسا ہے تو یہ ایک منفرد بات ہے۔ دیگر موٹرویز پر یہ سہولت موجود نہیں تھی۔ کیا یہ سہولت ڈسپنسری، ڈاکٹر، میڈیکل سٹاف اور ادویہ کی دکان پر مشتمل ہوگی؟ ابھی علم نہیں۔ یہ تمام سروس ایریاز ابھی بند ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ پٹرول سمیت دیگر ضروری سہولیات جلد شروع ہوجائیں گی ۔
شجاع آباد، جلال پور پیروالہ، اوچ شریف، ترندہ، ظاہر پیر انٹرچینجز سے ہوتے ہوئے اقبال آباد انٹرچینج پہنچے جو رحیم یار خان اور صادق آباد کے شہروں تک رسائی کا راستہ ہے۔ خیال آیا کہ لاہور تا صادق آباد یہی سفر پرانے راستے سے کم سے کم دس گھنٹے میں طے ہوا کرتا تھا۔ جھٹکوں بھری سڑک پرحالت خراب ہوجاتی تھی۔ جنوب میں پنجاب کی آخری سرحد سے آگے نکلے تو بالآخر گھوٹکی، پنوں عاقل سے ہوتے ہوئے روہڑی یعنی سکھر پہنچے جہاں سے ہمیں موٹروے سے نکل کر سکھر شہر پہنچنا تھا۔ ملتان سے سکھر انٹرچینج تک بغیر رکے چار سوا چار گھنٹے کا سفر ہے۔ گویا ہم صبح دس بجے لاہور سے نکلے تو پانچ بجے شام تک سات گھنٹے میں سکھر کا سفر طے ہوا۔ یہی سفر پہلے گیارہ سے بارہ گھنٹے لے لیتا تھا۔
سکھر شہر پرانے شہر روہڑی کے بالکل سامنے دریائے سندھ کے دوسری طرف واقع ہے۔کہتے ہیں سکھر کا لفظ شکر سے بنا ہے کیونکہ یہ علاقہ زرخیز تھا اور گنے کے بہت سے کھیت تھے۔ بعض کا خیال ہے کہ سکھ یعنی آرام سے سکھر بنا ہے۔ بہرحال طویل عرصے سے حکمران یہاں سے آرام کا لفظ بے دخل کرچکے ہیں۔ سکھر شہر کی حالت دیکھ کر افسوس ہوا۔ کافی سال کے بعد میرا ادھر آنا ہوا تھا۔ دھول اڑتی ہوئی، سڑکوں کی حالت خراب، نامکمل منصوبے۔ ائیرپورٹ روڈ اور ملٹری روڈ کی حالت قدرے بہتر ہے۔ یقین ہے کہ قدرے کا درست مطلب قارئین سمجھتے ہوں گے۔ سکھر لگ بھگ تیس لاکھ افراد کا سندھ کا تیسرا بڑا اور اہم شہر ہے۔ پیپلزپارٹی کے بڑے رہنما خورشید شاہ کا انتخابی گڑھ ہے لیکن سوائے پیپلزپارٹی کے جلسوں کے بینرز اور تصاویر کے پارٹی کی کوئی کارکردگی دور دور تک نظر نہیں آتی۔ بھٹوخاندان کے ناموں کی نامکمل یادگاریں بنانے سے عام آدمی کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے؟
سکھر میں کاٹ دار ہوا اور سخت سردی تھی۔ کم و بیش لاہور جیسی۔ اور اگلی صبح جب ہم سکھر سے حیدرآباد کے لیے نیشنل ہائی وے 57 پر آئے تو دھند بھی لاہور سے کم نہیں تھی۔ کھجور کے باغات بے حد خوبصورت اور اس پورے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ عرب فاتحین نے اس زمین کو کھجور کا تحفہ دیا اور اب یہاں کی شان ہیں۔ کئی جگہ کھجور کے بلند درختوں تلے چھوٹے قد کے سندھی کیلے کے پیڑ بھی نظر آئے۔ ایک ہی زمین سے دو فصلیں اٹھانے کا یہ تجربہ اچھا لگا۔
پشاور سے کراچی تک موٹرویز کے سلسلوں میں اب باقی رہ جانے والا ٹکڑا سکھر کراچی موٹر وے کا ہے۔ جب تک یہ نہیں بنتا اور اس کے تین چارسال تک بننے کا امکان مجھے نظر نہیں آتا، اس وقت تک این 57 ہی واحد حل ہے۔ یہ سڑک تو اچھی ہے لیکن بھاری ٹریفک، ٹرالیاں اور آبادیاں بہت ہیں؛ چنانچہ رفتار بن نہیں پاتی۔ حیدر آباد تک کا سفر 5 گھنٹے لے لیتا ہے۔ یہ اندرون سندھ کی زرخیز علاقوں والی پٹی ہے؛ چنانچہ ہریالی سڑک کے دونوں طرف ساتھ سفر کرتی تھی۔ سکھر سے نکل کر دھند اور سردی آہستہ آہستہ کم ہونی شروع ہوئی جو لاہور سے اب تک ساتھ ساتھ تھی۔ دھوپ ملی تو ہاتھوں پیروں کے جوڑ کھلنے شروع ہوئے۔ حیدرآباد سندھ کا دوسرابڑا شہر ہے لیکن حالات وہاں بھی وہی نظر آئے۔ ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر، تشہیری کام ضرورت سے زیادہ۔ پیپلزپارٹی کراچی کے بارے میں تو ایم کیو ایم پر بات ڈال کر الگ ہوجاتی ہے لیکن دوسرے بڑے شہروں میں صفر کارکردگی کا کیا جواز ہے؟ ایک زمانے کی ملک گیر جماعت پیپلزپارٹی پہلے ہی سندھ تک محدود ہوچکی ہے۔ کیا یہ سوالات اس کے قائدین اور کارکنوں کو تنگ نہیں کرتے کہ محض موروثیت اور عقیدت مندوں کی عقیدت بلا معاوضہ کتنی نسلوں تک چلے گی اوراس طرح کتنے مزید انتخاب جیتے جاسکیں گے ؟ حیدر آباد سے کراچی پرانی سپر ہائی وے کو ہی ٹھوک پیٹ کر موٹروے کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ امیر رشتے داروں میں یہ ایک غریب کزن لگتی ہے۔ سڑک ٹھیک ہے اور ضروری سہولیات تمام موجود ہیں۔ رفتار بھی مناسب رکھی جاسکتی ہے۔ دو گھنٹے میں کراچی تک کا سفر تمام ہوجاتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ لاہور سے رکے بغیر مسلسل کراچی پہنچ جایا جائے۔ سکھر کراچی موٹروے کا باقی رہ جانے والا ٹکڑا فاصلہ اور وقت یقینا کم کرے گا لیکن یہ بڑی بات ہے کہ فی الوقت یہ ممکن ہوگیا ہے کہ پورا گھرانہ کراچی لاہور کے درمیان سڑک کا سفر کرسکے۔ اس کا سہرا کس کے سر ہے؟ سی پیک یا نون لیگ یا دونوں۔ میں ان لوگوں میں ہوں جو ترقیاتی کام کو، خواہ وہ بعد از خرابیٔ بسیار کے بعد ہوا ہو، دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں۔ کریڈٹ دینے سے عار کس کو ہے بھئی۔ کریڈٹ ہتھیلیوں پر رکھ کر پیش کرنے والے ہیں ہم لوگ۔ بس کام ہونا چاہیے بابا۔