آج کل روز ہی ہندوستان کے کسی نہ کسی شہر کی خبریں پڑھنے کو مل جاتی ہیں‘ اس لیے کہ ہر ریاست اور ہر شہر میں بی جے پی کے ظالمانہ اور متعصبانہ قوانین کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے‘ لیکن ان سب شہروں میں بھارت کے دل یعنی دہلی کی خبریں سب سے نمایاں ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے طلبہ نے اس احتجاج کی بنیاد رکھی اور پھر یہ تحریک دوسرے شہروں میں پھیلتی چلی گئی۔ اس تحریک اور اس کے پس منظر پر میں نے کئی کالم لکھے ہیں اور یہ سلسلہ ان شا اللہ جاری رہے گا‘ لیکن جب بھی جامعہ ملیہ، شاہین باغ، قرول باغ، جامع مسجد وغیرہ کی خبریں پڑھیں، یہ علاقے آنکھوں کے سامنے پھرنے لگے۔ وہ متعدد سفر یاد آنے لگے جو دلی اور ہندوستان کے تھے۔ ان سب یادوں سے، عزیزوں، رشتے داروں، دوستوں کی خوشبو آج بھی پھوٹتی ہے۔ میں ان شہروں اور لوگوں کو یاد کرتا ہوں جو زیادہ فاصلے پر نہیں‘ لیکن بہت دوری پر موجود ہیں۔ دوری‘ کوئی ایسی ویسی دوری؟ اب تو یہ فاصل زمینی نہیں زمانی لگتا ہے۔ ہم ہمسایہ ملکوں کے نہیں، بعید ترین زمانوں کے مکین ہیں۔
کسی جگہ کا پہلا سفر سب سے زیادہ یاد رہ جانے والا ہوتا ہے۔ میں پہلی بار ہندوستان دسمبر1997 میں گیا تھا۔ اس کے بعد شاید آٹھ بار ہندوستان کے سفروں کا موقعہ ملا لیکن وہ پہلا سفر زیادہ طویل اور زیادہ پُرتجسس تھا۔ امرتسر، جالندھر، پٹیالہ کے علاوہ، جو سڑک کے راستے کیا تھا، ہندوستان کے تمام سفر بذریعہ ہوائی جہاز ہوئے؛ چنانچہ لاہور دہلی کی فلائٹ لازمی ٹھہری، اسی لیے آتے جاتے دہلی رکنے کا موقعہ ملتا رہا۔ کبھی ایک جگہ جانے کا موقعہ ملا اور کبھی دوسری جگہ۔ اب اس بات کو بہت عرصہ ہو گیا لیکن نہاں خانۂ دل میں تصویر لو دیتی ہے۔ دل چاہتا ہے‘ اس سے پہلے کہ رنگ پھیکے پڑ جائیں اور نقش دھندلا جائیں اس آنچ کو کاغذ پر محفوظ کرلوں۔
1997 کا وہ سنسنی خیز جوش و خروش بھی یاد رہے گا۔ دھڑکتے دل کے ساتھ ہندوستانی ویزا آفیسر کے سامنے پیش ہو گیا تھا۔ بہت سے سوال کنڈلی مار کر دل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ پتا نہیں کیا اعتراض جڑے۔ معلوم نہیں کیا سوال کرے۔ ہندوستان میں عزیز رشتے داروں کا ہونا ویزا میں آسانی پیدا کرے گا یا مشکل؟ شاعر، ادیب ہونا فائدہ دے گا یا نقصان؟ کچھ معلوم نہیں تھا۔ بس ذہن میں یہ رکھ کر انٹرویو کے لیے چلا گیا تھا کہ ویزا نہ ملا تو صبر شکر کرکے بیٹھ جائیں گے۔ یعنی اسی تنخواہ پر کام کرتے رہیں گے۔ ویزا ان دنوں بھی اگر ملتا تھا تو پولیس رپورٹ کے ساتھ اور صرف تین شہروں کا‘ لیکن فارم میں بارہ شہروں کے نام لکھنے کی گنجائش تھی، سوچا خالی کیوں رہنے دیا جائے‘ اس لیے ان شہروں کے نام بھی لکھ دئیے جہاں جانے کا کوئی ارادہ دور دور نہیں تھا۔
''کیوں جانا چاہتے ہیں انڈیا؟‘‘۔ ''میرے رشتے دار ہیں اور ادبی برادری سے بھی ملاقاتیں کرنی ہیں۔ سیروسیاحت بھی ساتھ ہے‘‘۔ جنوبی ہندوستان کے دبلے پتلے گہرے رنگ کے ویزا آفیسر نے ایک نظر مجھے دیکھا اور میرے لکھے ہوئے شہروں پر ٹک کرنا شروع کردیا۔ آگرہ پر وہ رک گیا۔ ''آگرہ تو فوجی چھاؤنی ہے وہاں کا ویزا مشکل ہے‘‘۔ ''لیکن آگرہ ہی تو ہندوستان کا تاج ہے۔ وہاں نہ گیا تو بڑا صدمہ رہے گا‘‘۔ ایک لمحہ ہچکچاہٹ کے بعد اس نے آگرہ کے کاٹے ہوئے نام پر ٹک کردیا اور ساتھ ہی اپنے دستخط بھی۔ حیران کن طور پر مجھے بارہ شہروںکا ویزا مل گیا تھا۔ اس دن کے بعد سے آج تک ایک پچھتاوا موجود ہے۔ افسوس ہے بھئی اپنی عقل پر۔ دہلی، ممبئی، دیوبند، آگرہ، لکھنؤ، انبالہ تو چلو ٹھیک ہے کہ وہاں جانا تھا‘ لیکن حضرت! یہ کلکتہ، بھوپال، پٹنہ وغیرہ کس خوشی میں لکھ دئیے۔ اور تھانہ بھون کے چھوٹے سے قصبے میں تو ویسے بھی جایا جا سکتا تھا۔ بھئی مسوری، شملہ، بنگلور، میرٹھ، بدایوں، حیدر آباد وغیرہ بھی تو لکھے جا سکتے تھے‘ جہاں جانے کا ایک مدت سے شوق تھا۔ تولے بغیر بولنا اور سوچے بغیر لکھنا ہمیشہ گلے پڑتا ہے۔
لیکن خیر، اتنے شہروں کا ویزا مل جانے کی خوشی بہت تھی۔ ایک ماہ بہت ہوتا ہے گھومنے پھرنے کیلئے ۔ پھر رمضان سر پر ہوگا اس لیے واپسی کی جلدی ہوگی۔ لہٰذا فوری تیاری ضروری ہے۔ لیکن اکیلے ہی جانا تھا اس لیے تیاری کون سی خاص تھی۔
9 دسمبر1997 کا ایک سرد دن تھا جب جہاز اندر اگاندھی ائیرپورٹ دہلی پر اترا۔ ائیرپورٹ پر صہیب اور فرحان موجود تھے جو رشتے میں میرے بھانجے اور تعلق میں دوستوں کی طرح ہیں۔ لیکن اترتے ہی ایک عجیب سی اجنبیت کا احساس ہونے لگا۔ ہندوستان پہلی بار آنا ہوا تھا سو اجنبیت فطری تھی۔ پرانی اور نئی دلّی میں رشتے داروں کے ہاں ٹھہرنے کے لیے پہلے ہی معذرت کرچکا تھا۔ پرانی دلی کی کشش ہی مجھے کھینچتی تھی اور اس میں یہ سہولت تھی کہ یہ علاقے پیدل گھوم پھر کر بھی دیکھے جاسکتے تھے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ آج جب 2020 میں یہ لفظ لکھے جارہے ہیں، یہ اس سے 23سال پہلے کا دہلی تھا‘ جہاں بہت سے وہ مسائل تھے جو اب نہیں ہیں۔ ائیرپورٹ سے پرانی دلی جاتے ہوئے بستی شاہ چراغ سے گزرا تو کتنے ہی واقعات ذہن میں تازہ ہوگئے۔ اچھا تو یہ ہے میر اور غالب کی دلّی۔
راستوں سے گزرتے،شہر کے خدوخال بہت کچھ لاہور سے ملتے جلتے لگے، لیکن پیارے! ابھی فیصلہ نہ کرو۔ ابھی دیکھا ہی کیا ہے۔ پہاڑ گنج پہنچ کر یہ احساس ہوا کہ ہم پرانی دلی میں داخل ہوا چاہتے ہیں۔ اور یہ لیجیے پرانی دلی آگئی۔ شاہجہاں کی بنائی دلّی کی جامع مسجد کو پہلی نظر دیکھا لیکن ابھی دیکھنے نہ پایا تھا کہ مٹیا محل کے علاقے میں جامع مسجد کے سامنے والی سڑک پر مڑ کر گاڑی رک گئی۔ صہیب اور فرحان نے بمبئی اورینٹ ہوٹل میں ٹھہرنے کا انتظام کیا تھا۔ (اس وقت تک بمبئی، ممبئی نہیں ہوا تھا) چھوٹا سا مناسب ہوٹل۔ یہ سہولت بہت تھی کہ شاہی جامع مسجد چند قدم کے فاصلے پر۔ مسجد کے گیٹ نمبر1 کے سامنے والا بازار۔ پرانی دلی کو پیدل گھوم پھر کر دیکھنا نسبتاً آسان۔ دلی کا معروف اردو بازار بالکل ساتھ۔ مشہور زمانہ کریم ہوٹل بالکل سامنے اور بہت سی طعام گاہیں بہت قریب۔ یہی کچھ تو چاہیے تھا مسافر کو۔
لفظوں کا چسکا بھی کھانوں کی طرح ہوتا ہے۔ ہر روز چاہیے بلکہ ہر کچھ دیر بعد چاہیے۔ مجھے یہ دونوں چسکے کسی طرح لگ گئے اور لگ گئے تو اب پیچھا نہیں چھوڑتے‘ لیکن سچ یہ ہے کہ پیچھا چھڑانا کون چاہتا ہے؟ لذتِ ذہن ہو یا لذتِ دہن‘ نشے والے ذائقے ہیں اورکوئی ایسا ویسا نشہ۔ لفظوں کا چٹخارا ہو یا کھانوں کا‘ دونوں طرح اصل مزے تو زبان کے ہیں۔ جب سے مٹیا محل میں آیا تھا‘ ذہن میں یہ لفظ گھوم رہا تھا۔ کوئی محل رہا ہوگا اس علاقے میں۔ مٹیا برج کلکتہ کی طرح خاکستری رنگ یا مٹی کی دیواریں نام کی وجہ رہی ہوں گی۔ ایسے محقق تو ہم کہاں کے ہیں کہ ہر عمارت کی وجہ تسمیہ ڈھونڈ نکالیں لیکن بعد میں ہم نے وہ حویلی یا محل ڈھونڈ ہی نکالا جس کی اب صرف ایک محراب اور ایک ڈیوڑھی بچ رہی تھی۔ باقی مٹیا محل مٹی میں مل کر نابود ہوچکا تھا۔
پرانی دلی ہو، دروازوں کے اندر کا پرانا لاہور ہو یا کوئی اور قدیم شکل و صورت پر موجود شہر، ہمیشہ ان کا تہذیبی رنگ اپنی طرف کھینچتا ہے۔ یہ دل کشی بڑے پلازوں، شاپنگ مالز،کشادہ سڑکوں میں کہاں۔ اگر یہ دقیانوسیت ہے تو مجھے اس کے لیے معاف کیجیے گا۔ لیکن اگر یہ تاریخی آثار سے وابستگی ہے تو پھر مجھے اس کی بھرپور داد چاہیے۔ یہ بھی تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ ان جگہوںپر وہ بے شمار جدید سہولیات مل ہی نہیں سکتیں جو نئی بستیوں میں چھلکتی پھرتی ہیں۔ کہنا آسان ہے لیکن قدیم محلّوں میں رہنا بہت مشکل۔ قدیم شہر اپنے دل میں رہنے کا خراج لیتے ہیں۔ سو جس کو ہوں دین و دل عزیز‘ وہ اپنے گھر ہی رہے تو اچھا ہے۔
دلّی کے بارے میں حالی نے بھی تو متنبہ کردیا تھا کہ دیکھ اس شہر کے کھنڈروں میں نہ جانا ہرگز۔ لیکن یہ بھی تو کہا تھا کہ دفن ہوگا نہ کہیں اتنا خزانہ ہرگز
خزانہ چاہیے تو کھنڈروں کے پھیرے لگانے ہی پڑتے ہیں۔ اگر یہ کوچہ و بازار کھنڈرتھے تو عجیب کھنڈر تھے جو آبادی سے بھرپور، گہماگہمی سے چھلکتے ہوئے اوررونق سے مالا مال تھے۔ ان بستیوں میں پہلی سہ پہر گزارنا بڑا خوابناک سا تھا جس کے بارے میں زرد کاغذ کے دیوان میںمیر کا مصرعہ پڑھا تھا
بستی بسنا کھیل نہیں ہے بستے بستے بستی ہے