"SUC" (space) message & send to 7575

قلم لگا پیڑ

ادبی حلقوں میں کم کم لوگ ایسے ہیں‘ جنہیں ملتے ہی یا جن کی آواز سنتے ہی دل سے عزت‘محبت اور احترام کے چشمے پھوٹ پڑیں ۔زبان سے ادا شدہ بڑے القابات یا عقیدت میں لپٹے ہوئے سابقے لاحقے نہیں ‘بلکہ دل سے امنڈنے والے الفاظ جنہیں بے اختیار زبان پر آنے میں دیر نہیں لگتی۔محبت اور احترام ہوتا ہی وہ ہے‘ جو دل سے پھوٹتا ہو‘ باقی تو دنیا داری اور مروّت کے کھیل ہیں۔یہ تین راستے ‘یعنی محبت‘ احترام اور عزت کسی ایک نقطہ ٔ اتصال پر مل جانا بھی کم کم ہوا کرتا ہے ۔اکثر و بیشتر کوئی ایک زاویہ کم پڑجاتا ہے تو ایسی صورت ِحال میں جو شخصیت اس نقطہ ٔ اتصال پر کھڑی ہو‘ اس کے نادر اور نایاب ہونے میں کیا شک ہے۔پیرزادہ قاسم ایسی ہی نایاب شخصیات میں ہیں۔
ڈاکٹر پیرزادہ قاسم بے سبب اس مقام پر فائز نہیں ہیں۔بات صرف شستہ ‘نفیس اور نستعلیق شخصیت کی بھی نہیں اور بات صرف عمدہ ‘پر تاثیر اور منفرد شاعری کی بھی نہیں۔ان دو الگ الگ خانوں میں کئی ایک شخصیات سما جاتی ہیں۔مسئلہ تو ان سب اوصاف کے بہم ضم ہونے کا ہے‘ دونوں پیڑوں کی قلم لگنے کا ہے؛چنانچہ جب خال خال یہ قلم لگ جاتی ہے تو ایسے پھل کے ذائقے‘ خوشبو اور مٹھاس پر سینکڑوں پیڑ رشک کرتے ہیں۔
ان کا تازہ شعری مجموعہ ' ' بے مسافت سفر‘ ‘ میرے ہاتھ میں ہے۔میں اس کی ورق گردانی کرتا ہوں اور میرا ذہن حال اور ماضی کے درمیان ایک جست میں ادھر سے ادھر پہنچ رہاہے۔بہت سی تصویریں متحرک ہوکر ایک فلم کی صورت رواں ہیں ۔(بہت سال پہلے اپنے شوق کیلئے کچھ اصطلاحات کا اردو ترجمہ کیا تھا۔سو‘ فلم کو اگر ''عکسِ رواں‘ ‘ کہہ لیا جائے تو کیا حرج ہے ۔ماہرین زبان بہتر رہنمائی کرسکتے ہیں) فی الحال عکس پر کتاب سے ایک مطلع اور شعر سن لیجیے :؎
عکس کے کھیل میں شریک جو بھی تھا رابطے میں تھا
وہ بھی جو آئنہ نہ تھا‘ وہ بھی جو آئنے میں تھا 
عشق چشیدہ جو بھی ہے ‘عشق رسیدہ جو بھی ہے 
میرؔ کے سلسلے سے ہے‘ میرؔ کے سلسلے میں تھا
وقت ایسا سرپٹ گزرا ہے کہ ڈی وی ڈیز‘ سی ڈیز‘ یو ٹیوب اور فیس بک وغیرہ سے پہلے کا دورزمانہ ماقبل تاریخ لگتا ہے۔اور یہ بھی یقین ہے کہ بیس بچیس سال بعد یہ سہولیات بھی تازہ اور جدید ترین سہولیات کیلئے جگہ خالی کرکے ایک طرف نڈھال پڑی ہوں گی‘خیر اسی زمانہ ماقبل تاریخ کی بات ہے‘وی سی آرنام کی ایک ایجاد ہوا کرتی تھی‘جس کے پاس وی سی آر اور من چاہی ویڈیو کیسٹ ہوتی وہ شہنشاہ تھا۔ شہنشاہی سے مالامال ایک دن میں نے اس طرح گزارا کہ دبئی میں منعقدہ جشن پیرزادہ قاسم کی ویڈیو کیسٹ تھی اور میں تھا۔اس ماحول ‘اس شاعری اور اس شخصیت کا تاثر میرے ذہن میں آج بھی رقص کرتا ہے۔بعد میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ سفر کا بھی کئی بارموقع ملا اور مشاعروں میں شرکت کا بھی۔ہر بار یہ تاثر اور گہرا ہوتا گیا۔بھلا کون ہوگا ‘جس کے دل میں ڈاکٹر صاحب کے شعر اپنی مہک سمیت نہ اتریں۔کئی شعر اُن کی شناخت ہیں :؎
لمحوں کے تعاقب میں گزر جائیں گی صدیاں 
یوں وقت تو مل جائے گا مہلت نہ ملے گی
سوچا ہی نہ تھا یوں بھی اسے یاد رکھیں گے 
جب اس کو بھلانے کی بھی فرصت نہ ملے گی
تا عمر وہی کار زیاں عشق رہا یاد 
حالانکہ یہ معلوم تھا اجرت نہ ملے گی
میری دانست میں پیرزادہ قاسم کا شعری اسلوب ' ' مزاج‘مطالعے ‘مشاعرے اور مشاہدے‘ ‘ کے چار میم سے مل کر تشکیل ہوا ہے‘یہ اسلوب کلاسیکی رنگ کے خوب صورت اوصاف بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور جدیدطرز ِاحساس اور تازہ اظہار بھی اس کے ساتھ گندھا ہوا ہے ۔غزل کی روایت سے آشنا سماعت بھی اسے اپنے دل سے قریب سمجھتی ہے اور جدید تر انداز غزل بھی اس کے لطف سے محروم نہیں ہوتا۔اس طرح کے شعر انہی کے حصے میں آتے ہیں جن کا مزاج شاعری میں گھل چکا ہو اور زندگی کے تمام شعبے اور تمام پہلو اس طرح شعر میں یک جان ہوجاتے ہوں ‘جیسے روشنی کے سات رنگ یک رنگہ سنہری دھوپ میں ظاہر ہوتے ہیں :؎
یہ حادثہ مجھے حیران کرگیا سرِ شام
جو زخم صبح ملا تھا وہ بھرگیا سرِ شام
میں بھی بہ پاسِ دوستاں اپنے خلاف ہوگیا
اب یہی رسم دوستی مجھ کو بھی راس آگئی 
میں کتنی بار دنیا تج کے جا بیٹھا ہوں کونے میں 
مگر ہر بار دنیا کی ضرورت جاگ اٹھتی ہے 
قرارِ جاں تو سرِ کوئے یار چھوڑ آئے 
متاعِ زیست ہے لیکن کہاں لیے پھریے
شکستِ دل میں بھی اک زندگی نظر آئی 
دیا بجھا تو ہمیں روشنی نظر آئی 
اپنے سر الزام نہ رکھا بال برابر بھی 
اس کو ہی چاہا بے سوچے بھی ‘سوچ سمجھ کر بھی 
سارے دریچے کھولنے والے اتنی زحمت اور
ایک دریچہ بند ہوا تھا دل کے اندر بھی 
کراچی یونیورسٹی سمیت کئی موقر یونیورسٹیوں کی وائس چانسلری کے مناصب اور ان کے طویل دورانیے کافی تھے کہ وہ شاعر کی اس وابستگی ‘بلکہ درست الفاظ میں ایک متوازی زندگی کے خد وخال دھندلا دیں ‘جس کا نام شعر و ادب ہے ۔کوئی اور ہوتا تو اس کشاکش سے پیرہن چاک ہوئے بغیر نہ گزرپاتا‘لیکن پیر زادہ قاسم نے دونوں تعلق اس طرح نبھائے کہ پتا نہیں چلتا اصل کون سا ہے اور عکس کون سا۔دونوں شعبوں کی وسیع دنیا ؤںمیں اَن گنت تعلقات کو نبھانا ایک الگ مشکل کام تھا‘ لیکن یہ کام بھی انہوں نے بظاہر بہت آسانی سے کیا ہے۔ ' ' بے مسافت سفر‘ ‘کا آخری حصہ نظموں پر مشتمل ہے ۔جہاں ' ' اک عجب اسم ِ فنا مجھ میں نمو پاتا ہے‘ ‘یا ' ' رات پہلو بچا کر نکلنے کو تھی‘ ‘ جیسے مصرعے جابجا نظروں کو روک لیتے ہیں ۔اس تازہ مجموعے کا معاملہ الگ ‘لیکن پیر زادہ قاسم کے سابقہ شعری مجموعوں ' ' تند ہوا کے جشن میں‘ ‘ اور ' ' شعلے پر زبان‘ ‘ کے بعض شعروں نے دامن ایسا پکڑ رکھا کہ ان سے بچ کر گزر جانا ممکن ہی نہیں:؎
خون سے جب جلا دیا ایک دیا بجھا ہوا
پھر مجھے دے دیا گیا ایک دیا بجھا ہوا
ایک ہی داستانِ شب ایک ہی سلسلہ تو ہے 
ایک دیا جلا ہوا ایک دیا بجھا ہوا
سخن وروں میں ڈاکٹر صاحب نے اپنا اعتبار اپنے قلم سے بنایا ہے ۔یہ وہ میدان ہے‘ جہاں اتنی گرد اُڑتی ہے کہ چہرا نظر نہیں آتا۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ گرد اڑنے کی شکایت کرنے والا ہر شخص خود گرد بازی میں مصروف ہے ۔ ایسے میں کوئی چہرا دوسروں سے زیادہ صاف اور شفّاف نظر آئے تو حیرت ہوتی ہے ۔ اُن کا ایک شعر ہے :؎
دل زدگاں کے قافلے دور نکل چکے تمام
ان کی تلاش میں نگاہ اب جو گئی تو کیا گئی
دل زدگاں کے قافلے یقینا دور جا چکے‘ لیکن پیرزادہ قاسم کی صورت میں ایک شخص اپنی پوری تمکنت اور وقار کے ساتھ دل سوختگاں اور دل زدگاں کی نمائندگی کر رہا ہے۔خدا انہیں سر سبز و شاداب رکھے کہ وہ اس قبیلے کا تاج ہیں!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں