مغلیہ سلطنت بنیادی طور پر بارہ صوبوں پر مشتمل تھی لیکن اس میں توسیع ہوتی گئی۔ دہلی اورنگ زیب کے زمانے میں 22 مغل صوبوں میں سے ایک تھا۔ یہ 22 صوبے کابل‘ لاہور‘ ملتان‘ دہلی‘ آگرہ‘ اودھ‘ الٰہ آباد‘ بہار‘ بنگالہ‘ مالوہ‘ اجمیر‘ گجرات‘ برار‘ خندیش‘ کشمیر‘ اڑیسہ‘ اورنگ آباد‘ بدار‘ ٹھٹھہ‘ بیجا پور‘ سیرا اور گولکنڈہ تھے۔ دہلی کی سرحدیں اودھ‘ آگرہ‘ اجمیر‘ لاہور‘ ملتان کے صوبوں سے ملتی تھیں۔ دریا گنج سب سے پہلی فوجی چھاؤنی‘ پہلی ہول سیل مارکیٹ چاؤڑی بازار‘ خشک میووں‘ مصالحوں اور جڑی بوٹیوں کی پہلی بڑی مارکیٹ کھاری باؤلی تھی۔ لیکن یہ بعد کے مغلیہ دور کی باتیں ہیں۔ ان کو پیدل چل پھر کر دیکھنے میں جو لطف تھا اور جس طرح میں خود کو تاریخ میں سانس لیتا محسوس کرتا تھا‘ اسی نے یہ شعر کہلوایا تھا؎
کسی گزرے ہوئے موسم کی فضا ہے مجھ میں
انہی گلیوں انہی کوچوں کی صدا ہے مجھ میں
پرانی دلّی جاتا تو عارفہ کے گھر جانا لازمی تھا۔ اس گھرانے سے ملنا بے مثال خوشی تھی۔ عارفہ میری سگی ماموں زاد بہن ہے۔ محبت اور اپنائیت سے مالامال۔ ہمارے چھوٹے ماموں محمد حسین (حسین بر وزن ذہین) مرحوم کی سب سے چھوٹی بیٹی۔ دلی کے کوچۂ بلی ماراں میں پنجابی پھاٹک والی گلی میں رہتی تھیں۔ (اب ماشاء اللہ نئی دہلی میں ذاکر نگر منتقل ہو چکی ہیں)۔ پنجابی پھاٹک گلی قاسم جان کے بالکل قریب ہے‘ جہاں مرزا غالب کی حویلی یا گھر تھا۔ اب جہاں تک یاد آتا ہے بلی ماراں کا قریبی راستہ تو اردو بازار کی طرف سے ہو کر جاتا تھا‘ لیکن پرانے محلوں میں گھومنے اور خواہ مخواہ بھٹکنے کا شوق مجھے چھوٹی بڑی گلیوں کی سیر کرواتا تھا۔ ان سب علاقوں سے تاریخ کی مہک پھوٹتی تھی۔ میں بہت بار بھٹک کر کہیں اور جا نکلتا تھا‘ لیکن کام کاج کچھ نہیں تھا سوائے گھومنے کے‘ اس لیے اس کا بھی اپنا لطف تھا۔ کوچہ‘ گلی‘ کٹڑہ‘ پھاٹک‘ حویلی‘ چھتہ وغیرہ کے نام اکثر نظر آتے تھے۔ ان سب کے مخصوص معنی ہیں جس پر کبھی شاید تحقیق ہوئی ہو۔ لمبی تفصیل کا تو موقع نہیں لیکن بعض چیزیں دلچسپی کی ہوں گی۔ محلہ ایسا رہائشی علاقہ تھا جس میں کئی کوچے موجود ہوں اور جس کے رہائشیوں میں کوئی مشترک بات ہو۔ عام طور پر یہ ایک ہی پیشے سے متعلق ہوتی تھی۔ کوچہ جو فارسی لفظ ہے‘ ایسی گلی کو کہا جاتا ہے جو ایک محلے کے اندر واقع ہو اور جس کے دائیں بائیں حویلیاں‘ کٹڑے وغیرہ موجود ہوں۔ کٹڑہ کسی کوچے میں ایک ہی پیشے سے منسلک کاری گروں کی رہائشی اور کام کرنے کی جگہوں پر مشتمل ایسے بند احاطے کا نام تھا جس کے داخلی منہ پر دروازہ موجود ہو اور رات کو بند کیا جا سکتا ہو۔ عام طور پر کٹڑے میں ایک کمرے کے مکان ہوا کرتے تھے۔ پھاٹک سے مراد بھی ایسا رہائشی بند احاطہ ہے جس کا دروازہ بوقت ضرورت بند ہو سکتا ہو۔ چھتہ وہ گلی ہے جسے مکانوں یا چوباروں نے اوپر سے چھت کی طرح ڈھانپ دیا ہو۔ حویلی ہر عمارت نہیں بلکہ خاص تعمیر والی عمارت ہوتی تھی۔ ایک عام حویلی کے بیچوں بیچ ایک کھلا صحن اور اس کے چاروں اطراف وسیع کمرے ہوتے تھے۔ حویلی امارت کی نشانی تھی اور مغلیہ دور میں پرانے شہروں میں امرا‘ وزرا کی حویلیاں ان کے نام سے مشہور تھیں۔ اب ان بہت سی پرانی حویلیوں میں ریسٹورنٹس بھی قائم ہیں جیسے حویلی دھرمپورہ۔ ایک نادر حویلی دہلی میں خزانچی کی حویلی کے نام سے مشہور ہے۔ شاہجہاں کے خزانچی کی یہ حویلی گلی خزانچی میں واقع ہے۔ چاندنی چوک کے بالکل شروع میں فتح پوری کی طرف رخ ہو اور دریبہ کی طرف مڑیں تو اس گلی میں یہ حویلی واقع ہے۔ اس کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ایک لمبی سرنگ حویلی سے قلعے تک بنائی گئی تھی تاکہ محفوظ طریقے سے خزانہ لایا اور لے جایا جا سکے۔
جامع مسجد روڈ‘چوڑی والان‘ کاغذ مارکیٹ‘ چتلی قبر (جہاں مرزا مظہر جانِ جاناں کی قبر ہے) کے محلوں سے نکلتا‘ تنگ گلیاروں اور کوچوں کو دیکھتا بھالتا میں بارہ دری کے علاقے میں پہنچتا۔ حاجی سعید نہاری والے کے یہاں ہجوم دیکھتا۔ وقت اور پیٹ میں گنجائش ہو تو ایک پلیٹ کھا کر سُوں سُوں کرتا آگے بڑھتا۔ (ویسے نہاری‘ محلہ چتلی قبرکی بھی کمال ہے‘ میں اور میرا بیٹا علی اس کی لذت کا گواہ ہے)۔ راستے میں کہیں مشہور کلّومٹھائی والے کی دکان بھی آتی تھی۔ بلی ماراں کی طرف مڑ کر پہلے کوچہ قاسم جان میں غالب کی حویلی پر پہنچتا۔ پہلی بار جب 1997 میں گیا تھا تو وہاں لکڑیوں کی ایک ٹال تھی اور حویلی کی حالت بہت خستہ تھی۔ غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند تھے جو خستہ گھر دیکھ کر بند ہو جاتے۔ زندگی اسی طرح چلتی چلاتی رہی۔ بعد میں اسے میوزیم کی طرح بنایا گیا لیکن بے دلی نے اس کے درودیوار سے بوریا بستر نہ سمیٹا۔ سبزہ بھی اُگ رہا ہوتا تو ایک بات تھی کہ ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے۔ اب تو بس دیکھ کر دل یہی کہتا ہے: کوئی ویرانی سی ویرانی ہے۔ ایک سہ دری‘غالب کا مجسمہ اورغالب کی چیزیں۔ باقی حویلی میں جانے کی اجازت نہیں۔ سرخ رنگ ہے یا سرخ روشنی یا سرخ پردے۔کچھ ہے جو اس ویرانی میں اضافہ کرتی ہے۔ پھر میں واپس بلی ماراں میں پہنچ کر پنجابی پھاٹک میں داخل ہوتا۔ ٹھیٹ کرخنداری لہجوں کے مزے لیتا‘ گھروں کے دروازوں پر بندھے صحت مند مینڈھوں‘ دنبوں اور بکروں کے سینگوں سے بچتا بچاتا دائیں ہاتھ گلی چوکیداراں میں داخل ہوتا اور دائیں ہاتھ پہلے دروازے پر دستک دیتا۔ ایک بڑے سے خوبصورت آنگن میں داخل ہوتا جہاں عارفہ اور ان کی ذہین اور لائق بیٹیاں افشاں اور ثمن میرا استقبال کرتیں۔ ایک بار ممانی جان یعنی عارفہ کی امی بھی وہیں تھیں۔ اس گھر میں ایک برکت اور سکون تھا۔ وہ برکت اور سکون جو قناعت اور محبت سے چھلکتے گھروں میں ہی ملتا ہے۔ روایتی دہلوی طرز کے اس مکان میں آنگن کے ساتھ سہ دری جڑی ہوئی تھی اور اس کے ساتھ کمرے۔ کچھ ہی دیر میں عارفہ کا ذہین اور لائق خوبصورت بیٹا احمر بھی آپہنچتا‘ جو اس وقت چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بننے کے مراحل میں تھا۔ آنگن میں سائیکل (بعد کے سالوں میں موٹر سائیکل) کھڑی کرکے وہ پوری محبت اور گرمجوشی سے ملتا۔ ہم سب سہ دری میں بیٹھ کر گپ شپ کرتے تو وقت کا پتہ نہ چلتا۔ عارفہ اور اس کے شوہر جس محبت سے مالامال ہیں وہی وصف ان کے بچوں میں بھی آیا۔ ویسے تو ہندوستان میں میرے جتنے عزیز رشتے دار ہیں‘ مجھے ان سب سے بہت تعلق ہے لیکن یہ گھرانہ وہ ہے‘ جس سے میں ساری کاہلی اور رابطے میں کوتاہی کے باوجود بہت محبت کرتا ہوں۔
سہ دری سے سیڑھیاں بالائی منزل کو جاتی تھیں۔ بالائی منزل پر ڈاکٹر شمس الحق عثمانی رہتے تھے‘ بلکہ اب تک رہتے ہیں۔ یہ عارفہ کے جیٹھ ہیں۔ یہ وہی شمس الحق عثمانی ہیں جو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے سینئر استاد ادب اردو کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ بہت سی تحقیقی کتب کے مصنف ہیں اور حال ہی میں انہوں نے سعادت حسن منٹو پر سات جلدوں میں بڑا جامع کام ''پورا منٹو‘‘ مکمل کیا ہے۔ آکسفورڈ پاکستان سے تین جلدیں چھپ چکی ہیں‘ باقی زیر طبع ہیں۔ گوشہ نشین‘ خاموش طبع اور مگن رہنے والے شمس الحق عثمانی۔
عارفہ بہت ہمت‘ حوصلے والی خاتون ہے۔ نامساعد حالات‘ شوہر کی علالت‘ اندرون شہر کے مسائل وغیرہ کے ساتھ اس نے جس خوشدلی‘ مسلسل محنت اور صبرآزما جدوجہد کے ساتھ وقت گزارا ہے وہ غیر معمولی ہے۔ مشکل ترین حالات میں اس نے بیٹے اور بیٹیوں کو بہترین تعلیم اور اعلیٰ تربیت سے آراستہ کیا۔ میں اس سے یا اس کے بچوں سے کبھی اس بات کا اظہار نہیں کرسکا کہ ان سب کی اس جدوجہد کی میرے دل میں کیا قدر ہے۔لیکن یہ سارا گھرانہ ہمیشہ میری دعاؤں میں ضرور شامل رہا ہے۔ اللہ نے عارفہ اور ان کے شوہر کو یہ صلہ دیا کہ احمر چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بن کر پہلے ہندوستان‘ پھر سعودی عرب اور کینیڈا میں بہت اچھے عہدوں پر فائز ہوا اور اب کینیڈین شہریت کا حامل ہے۔ افشاں فارماکولوجی میں بیچلرز اور ماسٹرز میں گولڈ میڈلسٹ ہے اور اب ابوظہبی میں اپنے شوہر کے ساتھ ہے۔ بہت اچھی‘ فکر انگیز تحریر لکھتی ہے ۔ ثمن ماسٹرز کرکے اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ خوش ہے۔ پچھلے دنوں احمر نے‘ جو خود بڑا شوخ اور جملے باز نوجوان ہے‘ افشاں کی ایک شگفتہ تحریر دلّی 6 فیس بک پر لگائی تو اندازہ ہوا کہ افشاں میں شگفتہ نگاری کی کیسی اچھی ادبی صلاحیت پوشیدہ ہے اور یہ اس گھرانے کی میراث بھی ہے۔