"SUC" (space) message & send to 7575

دستخط

انسانی ذہن بھی کیا چیز ہے۔ موبائل اور کمپیوٹر کی ٹچ سکرین سے بھی زیادہ حساس۔ ٹچ سکرین میں آپ کا لمس بہت سارے منظر جگاتا ہے‘ لیکن ذہن میں تو محض ایک تصور، ایک منظر ہی ایک پوری جگمگ کرتی کائنات آپ کے سامنے لے آتا ہے۔ کسی شے کی فقط ایک جھلک ہی لاتعداد اشیا ایک شوکیس کی طرح سامنے لے آتی ہے جس پر یادوں کی روشنیاں اس طرح پڑ رہی ہوتی ہیں کہ ہر زاویہ روشن نظر آتا ہے۔
ہر طرف کورونا کا جتنا زور ہے اتنا ہی شور بھی ہے بلکہ شور کچھ زیادہ ہے۔ اس سب سے گھبرا کر دل چاہتا ہے کہ کچھ وقت اپنی کتابوں کے ساتھ گزارا جائے۔ وہ کتب خانہ جس میں بہت سی بھولی بسری یادیں بکھری پڑی ہیں۔ میری اپنی کتابیں بھی بہت سے رفتگاں کی یادیں تازہ کرتی ہیں لیکن میرے والد مرحوم جناب زکی کیفی کا کتب خانہ‘ جو اسی ذخیرے کا ایک حصہ ہے‘ زیادہ نایاب ہے۔ اس میں نادر کتابیں تو موجود ہیں ہی لیکن بہت سی وہ بھی ہیں جو مشاہیر نے انہیں اپنی تحریروں اور دستخطوں کے ساتھ پیش کی تھیں۔ اسی طرح میرے نام لکھی گئی بیش بہا تحریریں اور دستخط بھی ان گنت کتب پر موجود ہیں۔ اب میں نے یہ کتابیں ہاتھ میں لیں تو گویا ایک عہد زندہ ہو گیا۔ وہ سب لوگ چلتے پھرتے، ہنستے بستے، لکھتے پڑھتے نظر آنے لگے۔ کتنے ہی لوگ جنہیں اپنے بچپن، لڑکپن میں قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا یا خود اپنے شعری سفر میں ان کی رفاقت میسر رہی، اب خواب کی طرح ہیں۔ مجھے خیال آیا کہ اگر ان مصنفین اور کتب کی مختصر سی یادداشتوں کے ساتھ کالم میں بھی ان رفتگاں کو یاد کر لوں اور ان تحریروں اور دستخطوں کی تصویریں فیس بک پر اپ لوڈ کر دوں تو بہت اچھا ہوگا۔
اول تو یہ کہ بہت سے رفتگاں کو یاد کرنے کا موقعہ مل جائے گا جن کی محبت اور تعلق ناقابل فراموش ہیں۔ پھر بہت سی کتابیں اب کمیاب یا نایاب ہیں‘ ان کے بارے میں سب کو آگاہی مل سکے گی۔ بہت سے نامور لوگوں کی تحریریں اور دستخط دوستوں تک پہنچ سکیں گے‘ جن کے ہاتھ کی تحریر قیمتی تحفے سے کم نہیں۔بہت سے باکمال حافظے سے اتر چکے ہیں یا ایسے ہیں جن سے نئی نسل بالکل واقف نہیں، ان کی یاد تازہ ہوسکے گی۔ ایک اہم فائدہ یہ کہ فیس بک پر بہت سا ریکارڈ اکٹھا ہوسکے گا‘ جو تحقیقی کاموں میں مددگار ہوگا اور جو عام طور پر دستیاب نہیں ہے۔ یہ سلسلہ مستقبل میں کتابی شکل میں بھی فائدہ مند ہوگا۔ بہت سے مشاہیر، ہم عمر، جونیئر دوستوں سے زکی صاحب کا اور میرا دو طرفہ محبت کا تعلق رہا ہے اور اب تک چلا آرہا ہے۔ اس رشتے کا تعارف اور تجدید ہوسکے گی۔ مرحومین کی یادگار تحریر اور دستخط ان کے متعلقین، گھرانیاور احباب تک پہنچ سکیں گے۔ بہت سے دوستوں تک ان کی اپنی تحریر دستخطوں کے ساتھ پہنچ جائے گی۔ اس طرح ان کے بھیجے ہوئے پھول بار دگر تازہ ہوجائیں گے۔ میرے والد کی کتب سے آغاز ہو اور پھر بتدریج اپنے سینئرز سے ہم عمروں اور جونیئرز کی طرف آؤں۔ کام طویل لیکن اہم ہے اور دیگر مصروفیات بھی ساتھ ساتھ ہیں‘ اس لیے بتدریج ہی کیا جانا ممکن ہے۔
لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جس کتاب کو ہاتھ میں لیا جائے، یادوں کا ایک پنّا کھلتا چلا جاتا ہے۔ دیکھے ہوئے، سنے ہوئے اور پڑھے ہوئے وہ واقعات تازہ ہونے لگتے ہیں جو اس شخصیت سے متعلق ہیں۔ ایک ایک شخص سے متعلق ایک طویل مضمون درکار ہے اور سینکڑوں شخصیات ہیں۔ ممکن تو بس یہی ہے کہ کتاب اور صاحب کتاب سے متعلق چند سطریں لکھ دی جائیں، باقی تفصیل کے لیے وقت کی مہلت کا انتظار کیا جائے جو معلوم نہیں ملتی بھی ہے کہ نہیں۔ ابھی تو ہر کتاب اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔
ادھر دیکھیے یہ نیلے رنگ کی مجلد کتاب کیا ہے؟ جلد پر لکھا ہے: پسِ غبار‘ رئیس امروہوی۔ رئیس امروہوی، سید محمد عباس، سید محمد تقی، جون ایلیا سے ہمارے خاندان کے اچھے تعلقات تھے۔ ایک وجہ تو یہ کہ یہ سب بھائی میرے دادا مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب اور ان کے علم و فضل کا بہت احترام کرتے تھے۔ دوسرے یہ کہ میرے دادا کی کوٹھی اشرف منزل لسبیلہ چوک گارڈن ایسٹ کراچی میں تھی اور گارڈن ایسٹ ہی میں ان بھائیوں کی کوٹھی بھی تھی۔ یہ حضرات کبھی کبھار دادا کے پاس آیاکرتے تھے۔ میرے دادا کے انتقال پر رئیس صاحب نے اشعار بھی لکھے تھے۔ جناب جون ایلیا سے بہت بعد میں ان کی اسی گارڈن ایسٹ والی کوٹھی میں میری ملاقات ہوئی اور انہیں معلوم ہوا کہ میں اسی خاندان سے ہوں تو انہوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور ہمیشہ اس کا احترام کیا۔ اس ضمن میں میرے دادا کی لائبریری کے حوالے سے ایک بہت مزیدار لیکن تفصیل طلب بات بھی ہے جو میں نے کئی بار جون صاحب کی زبانی سنی‘ لیکن وہ کسی اور موقعے پر بیان کروں گا۔ جون ایلیا کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون میں پہلے لکھ چکا ہوں جو شائع بھی ہو چکا ہے۔
جناب رئیس امروہوی نے یہ کتاب میرے بڑے بھائی جناب محمود اشرف عثمانی کو دی تھی۔ رئیس صاحب کی یہ تحریر بھی ایک قیمتی تحفے کی طرح ہے۔ انہوں نے لکھا ہے: عزیزالقدر محمود اشرف سلمہ اللہ تعالیٰ‘ جلوۂ آفتاب تابانی‘ فقیر رئیس امروہوی، یکم رجب 1400ھ‘ 16مئی 1980۔ اور اس کتاب کے کچھ شعر سنائے بغیر تو ذکر نامکمل رہے گا۔
جہاں معبود ٹھہرایا گیا ہوں
وہیں سولی پہ لٹکایا گیا ہوں
پہلے یہ شکر کہ ہم حد ادب سے نہ بڑھے
اب یہ شکوہ کہ شرافت نے کہیں کا نہ رکھا
کانٹوں سے فگار انگلیاں ہیں 
ملبوسِ بہار سی رہا ہوں
خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم 
گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم 
حبیب جالب کو میں نے بچپن میں اپنے والد جناب زکی کیفی کے پاس بہت آتے جاتے دیکھا۔ وہ باقاعدگی سے آنے جانے والوں میں تھے۔ نظریاتی اور عملی مشاغل میں بہت فرق ہونے کے باوجود بہت دوستی تھی اور میرے علم میں ہے کہ مالی تنگی کے دنوں میں میرے والد خاموشی سے حبیب جالب کی مدد بھی کیا کرتے تھے؛ اگرچہ وہ دن خود کیفی صاحب کی تنگ دستی کے دن تھے۔
حبیب جالب جناب زکی کیفی کے انتقال کے بعد ہم تینوں بھائیوں کے پاس تعزیت کے لیے آئے اور بعد میں بھی والد گرامی کو یاد کرنے کے لیے کئی بار ہم سے ملنے آئے۔ آخری بار وہ مارشل لاء کے دور میں اس وقت آئے جب پولیس ان کی تلاش میں تھی اور اس وقت انہوں نے تازہ غزلیں نظمیں بھی سنائیں۔ میں اگرچہ اس وقت شعر کہتا تھا‘ لیکن میں نے کبھی یہ بات جالب صاحب کو نہیں بتائی۔ جالب صاحب بہت مترنم تھے اور ان کا ترنم بھی دوسروں سے جدا تھا۔ سیاسی شاعری میں انہیں اور شورش کاشمیری کی شاعری کو جو مقبولیت ملی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ یہ الگ بات کہ ایک اور مترنم اور مقبول مرحوم شاعر جناب مظفر وارثی کی یہ رائے تھی کہ جالب کو اس زمانے کے بہت بڑے غزل گوؤں اور شاعروں کے بیچ جب شاعری اور مشاعروں میں اپنی دال گلتی نظر نہ آئی تو اس نے یہ راستا اختیار کیا۔ وارثی صاحب نے یہ رائے مجھ سے ذکر کی تھی۔ 
''برگ آوارہ‘‘ حبیب جالب کی پہلی کتاب تھی۔ یہ کتاب اور اس پر ان کی تحریر بھی یادگار ہے۔ انہوں نے لکھا: مولانا زکی صاحب کی خدمت میں‘ نہایت ادب کے ساتھ۔ نیازمند حبیب جالب لاہور‘ 5نومبر 1959۔ کتاب کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کی خطاطی صاحب اسلوب درویش خطاط حافظ یوسف سدیدی صاحب کے قلم سے ہے اور اس کا سرورق جناب حنیف رامے نے بنایا تھا۔ یہ والد صاحب کے ایک اور دوست چوہدری عبدالحمید صاحب مرحوم نے مکتبہ کارواں لاہور سے شائع کی تھی۔ چوہدری عبدالحمید خود بہت عمدہ شاعر اور شام صحرا کے مصنف تھے اور فیض اور عدم کے بھی ناشر تھے۔ برگ آوارہ کی پہلی غزل کے دو شعر لکھ کر یہ تحریر انہی پر ختم کرتا ہوں؎
ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں 
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں
وہ جو ابھی اس راہ گزر سے چاک گریباں گزرا تھا
اس آوارہ دیوانے کو جالب جالب کہتے ہیں 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں