دودھیا‘پیلی اور زرد ‘رسیلی ‘خوشبودار خوبانیوں کے باغ میں وقت گزار کرہم سکردو میں دریائے شیوک پر بنے ایک لکڑی کے پل پر پہنچے تو سامنے ایک سڑک کارگل کے پہاڑوں کی طرف جاتی تھی ۔میں نے ہاتھ کا چھجا بنا کر ان بلند پہاڑوں کی طرف دیکھا ‘جو ہمارے بالکل سامنے تھے۔ پاکستان ‘ ہندوستان‘چین سب کے پہاڑ ساتھ ساتھ‘کچھ واضح کچھ مدھم۔ میں نے سوچا؛یہ کیسا عجیب سنگم ہے ؟ تین جوہری طاقتیں ‘جو بلند ترین خطے میں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہیں ۔
لداخ میں ہندوستان ‘چین کی سرحدی کشمکش نے وہ منظر پھر تازہ کردیا‘ جو پچھلے سال جولائی میں دریائے شیوک کے پل پر دیکھا تھا۔یہ سوچ کر دکھ تو ہوتا ہے کہ خوبانی اورچیری کی خوشبوؤں میں ہر کچھ عرصے بعد بارود کی بو بھی گھلنے لگتی ہے ۔جھیلوں اور دریاؤں کی نیلاہٹ میں خون کی سرخی بھی شامل ہوجاتی ہے ‘لیکن کیا کیا جائے ؟ملکوں کے اپنے اپنے مفاد ہیں ۔ دنیا کے سرد ترین بلند ترین علاقے میں ایک بار پھر مسئلہ گرم ہے ۔مسئلہ نیا تو نہیں‘ لیکن اس کی نئی جہات اور معاملات ضرور ہیں ۔آئیے ذرا ایک نظر اس کے جغرافیے پر ڈالیں‘ اور ایک نظر حالیہ پس منظر پر:۔
چین ہندوستان کی سرحد کل ملا کر 4056 کلو میٹر لمبی ہے ۔جس کا مغربی حصہ ایل اے سی (لائن آف ایکچول کنٹرول )‘درمیانی چھوٹا سا حصہ غیر متنازع سرحد‘اور مشرق میں میک موہن لائن پر مشتمل ہے ۔ہندوستانی مؤقف کے مطابق؛ یہ سرحد لداخ یونین کے حصے ‘اتر اکھنڈ‘ہماچل پردیش ‘سکم اور اروناچل پردیش کی ہندوستانی ریاستوں سے گزرتی ہے۔ دونوں ملکوں کے سرحدی تنازعات تو بہت پرانے ہیں اور کئی جگہ ہیں ۔ 1962ء میں چین ہندوستان کی ایک جنگ بھی اسی تنازعے پر ہوچکی ہے‘ جس میں چین نے ہندوستان کو اچھا سبق سکھا دیا تھا۔متنازع علاقوں میں کچھ جگہ زمین کے بڑے اور کچھ جگہ چھوٹے ٹکڑے ہیں ؛ ان میں اکسائی چن(Aksai Chin)‘ یعنی سفید پتھروں کا صحرا بھی ہے‘ جو 16ہزار فٹ کی بلندی پر قریباً38ہزار مربع کلومیٹر کا ایک غیر آباد خطہ ہے ۔یہاں انسانی آبادی بہت کم ہے‘ لیکن کاروان یہاں سے گزرتے ہیں۔ ہندوستان اکسائی چن کو اپنا علاقہ کہتا ہے‘ لیکن اس پر چین کا کنٹرول ہے اوریہ صوبے سنکیانگ کا ایک حصہ ہے ۔ اس اکسائی چن کی سرحد ایل اے سی ہندوستانی مقبوضہ لداخ سے ملتی ہے ۔ایل اے سی (لائن آف ایکچول کنٹرول ) کی نقشوں پر حد بندی نہیں ہوئی تھی اور دونوں ملکوں کا اس بارے میں اپنا اپنا مؤقف ہے ۔یاد رہے کہ لداخ بذات خود متنازع علاقہ ہے ۔
اسی ایل اے سی پرشفاف نیلے پانیوں کی ایک خوبصورت جھیل ہے ‘جسے پنگونگ ٹسو (Pangong Tso)کہتے ہیں ۔جھیل 135کلو میٹر لمبی اور 5-7کلو میٹر چوڑی ہے ۔جھیل دو تہائی چین اور ایک تہائی ہندوستان کے قبضے میں ہے۔اس جھیل کی تزویراتی اہمیت یہ ہے کہ یہ اہم مقام چوشل کے راستے میں پڑتی ہے ۔یہی وہ راستہ ہے‘ جسے 1962ء میں چین نے ہندوستانی علاقے میں داخل ہونے کے لیے اختیار کیا تھااور بھارت کو خدشہ ہے کہ اگر آئندہ کبھی حملہ ہوا تو وہ بھی اسی راستے سے ہوگا۔چین پہلے ہی جھیل کے کناروں پر وہ سڑکیں بنا چکا ہے‘ جس پر فوجی گاڑیوں کی آمد و رفت ہوسکتی ہے ۔ 1999ء میں کارگل جنگ کے دوران چین نے ہندوستانی علاقے میں فنگر4پرجھیل کنارے 5کلو میٹر لمبی سڑک بنا لی تھی ۔ان سڑکوں سے چین کو یہ فائدہ حاصل ہوگیا کہ اب جھیل کے شمالی کونے چنگ چینمو پر موجود ہندوستانی پوزیشنز اس کے سامنے ہیں ‘ اسی علاقے میں کچھ نوکیلی چوٹیاں ہیں ‘جنہیں فنگر1سے فنگر 8تک کے ناموں سے پہچانا جاتا ہے۔ ہندوستان کا دعوی ہے کہ فنگر8سے ایک اے سی شروع ہوتی ہے‘ جبکہ چین کا مؤقف ہے کہ یہ فنگر2سے شروع ہوتی ہے۔ پیپلز ری پبلک آرمی کی سرحدی چوکیاں فنگر 8پر ہیں ۔اب‘ چینیوں نے فنگر 2سے آگے بھارتیوں کی پٹرولنگ روک دی ہے‘ اسی کے ساتھ ساتھ یہ ہوا کہ فنگر 2پر ہندوستان نے چوٹی پر ایک پوسٹ کی تعمیر شروع کی تھی ‘تاکہ چینی نقل و حرکت آسانی سے دیکھی جاسکے ۔ چین نے یہ تعمیر رکوا دی ہے ۔اسی کے ساتھ ساتھ ہندوستان نے پچھلے سالوں میں اس علاقے میں ‘جو انفرا سٹرکچر فوج کے لیے بنایا ہے‘ جس میں دولت بیگ اولدی روڈ بھی شامل ہے ۔چینی چوکیاں اس سڑک کو کسی وقت بھی منقطع کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور یہ سڑک فوجی لحاظ سے نہایت اہم ہے ۔پیپلز آرمی نے یہاں حال ہی میں پختہ مورچے کھودے ہیں اور 6000 فوجی بکتر بند گاڑیوں سمیت تعینات کردئیے ہیں۔جوابی طور پر ہندوستان نے بھی اتنے ہی فوجی اور ساز وسامان علاقے میں بھجوا دیا ہے ۔گلوان نالہ اور ڈیم چک کے مقامات پربھی تناؤ کی یہی کیفیت ہے ۔6مئی کو جھیل کے علاقے میں اور 9مئی کو شمالی سکم میں سرحدی مڈھ بھیڑ ہوئی ۔اپریل سے اب تک کئی مقامات پر ہاتھا پائی اور سنگ باری ہوئی ہے اور فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں ایک بھارتی افسر بھی شامل ہے ۔ ایک بھارتی افسر نے گمنامی کی شرط پر اخبار کو بتایا ہے کہ صورتِ حال سنگین ہے۔چین کی نیت کا اندازہ نہیں ہورہا‘ لیکن یہ اقدامات یقینا چین کی طرف سے مقامی کمانڈروں کی سطح پر نہیں‘ بلکہ اعلیٰ سطح پر کیے گئے ہیں ۔ہندوستانی اخباری رپورٹ کے مطابق‘ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت چینی فوجی آہستہ آہستہ ہندوستانی فوجیوں کو پیچھے دھکیل رہے ہیں اور اپریل سے اب تک 35مربع کلو میٹر ہندوستان کھو چکا ہے ‘لیکن عوام سے اس بات کو پوشیدہ رکھا جارہا ہے۔
مزید پس منظر یہ ذہن میں رکھیے کہ حال ہی میں بھارت نے پاکستان کے اشتراک کے ساتھ دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر پرچین سے شدید اعتراض کیا تھا۔ گلگت بلتستان کے علاقے میں سی پیک کے منصوبوں کو رد کیا تھا۔ہندوستانی نیوز بلیٹن میں گلگت بلتستان کی موسمیاتی رپورٹ کو باقاعدگی کی بنیاد پر شامل کرلیا گیا ہے‘ جسے پاکستان نے مسترد کردیا ہے ۔چینی صدر نے حال ہی میں چینی افواج کو جنگ کے لیے تیار رہنے کی بھی ہدایت کی ہے اور ہندوستانی وزیر اعظم نے اعلیٰ دفاعی میٹنگز کی صدارت کی ہے ۔اس تمام پس منظر میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ چین کی طرف سے لداخ میں کارروائی کا مقصد ہندوستان کو گلگت بلتستان میں کسی ایڈونچر سے باز رکھنا اور تنبیہ کرنا ہے ۔ یہی وہی علاقہ ہے‘ جہاں سے ہندوستان گلگت بلتستان میں کوئی کارروائی کرسکتا ہے ‘اسی طرح یہ سیاچین میں موجود بھارتی فوج کے لیے بھی ایک تشویش کی بات ہے ۔ہندوستان کے لیے ایک مسئلہ یہ ہے کہ کسی اشتعال انگیزی کی صورت میں پاکستان بھی فریق بن سکتا ہے ۔اس صورت میں ہندوستان کے لیے اس علاقے میں دو محاذ کھل سکتے ہیں۔
ایک بات دلچسپ ہے اور وہ یہ کہ امریکی صدر ٹرمپ نے دونوں ملکوں میں تناؤ دور کرنے کے لیے ثالثی کی پیش کش کی ہے ۔یہ بات بذات ِخود معنی خیز ہے کہ چین کا ازلی دشمن اور ہندوستان کا دوست امریکہ ثالثی کے لیے کیوں پیش کش کر رہا ہے؟ جبکہ وہ مسلسل سی پیک اور دیگر چین پاکستان تعلقات پر معترض رہا ہے۔ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ ممکنہ طور پر ہندوستان اس علاقے میں شدید مشکل کا شکار ہے ‘جس سے نکالنے کے لیے امریکہ کو یہ پیش کش کرنی پڑی ہے ‘ وگرنہ وہ بے نیازی اختیار کیے رہتا۔
دونوں ملکوں میں کسی بڑی جنگ کا خطرہ تو بے شک اس وقت قریب نہیں ہے‘ لیکن یہ تناؤ مسلسل بڑھ رہا ہے ۔ محض لداخ میں نہیں بلکہ سکم بارڈر پر بھی ۔ دوسری طرف نیپال نے بھی ہندوستان سے اپنے سرحدی مسائل پر جم کر مؤقف اختیار کیا ہے۔ جب سے نیپال چین کے قریب ہوا ہے ‘اس وقت سے نئی دہلی اس سے ناراض ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ بھارت علاقے کے چھوٹے ممالک سے ہمیشہ جی حضوری کے علاوہ کچھ سننا نہیں چاہتا ۔اس لیے یہ رویہ اس کے لیے پریشان کن ہے۔ دیکھاجائے تو بنگلہ دیش‘نیپال ‘ چین ‘ پاکستان سے سرحدی تنازعات میں الجھا ہوا ہندوستان بتدریج ان سرحدوں میں اپنے لیے بارودی سرنگیں بچھا تارہا ہے ۔یہ مسائل وقتی طور پر دب بھی جائیں تو کب تک ؟ ان کا بھی آخر وقت آجاتا ہے‘تو کیا وہ وقت آچکا ہے ؟