"SUC" (space) message & send to 7575

دو دھاری خوف

ہے کوئی جو خوف سے نیم جان لوگوں کو مزید خوف سے رہائی دے؟کوئی وزیرصحت ‘ کوئی مشیرصحت‘کوئی سیکرٹری صحت؟ کوئی بڑا افسر ؟ہے کوئی جس تک لوگوں کی خوف زدہ آوازیں پہنچ رہی ہوں ؟ یہاں ملک کا ایک وزیر اعظم ہے‘ ایک وزارتِ صحت ہے ‘ ایک مشیر صحت ہے ‘ ان سب کی آوازیں اور شکلیں میری بڑی اور چھوٹی سکرین پر روز دکھائی اور سنائی دیتی ہیں ۔ میں لاہور میں رہتا ہوں یعنی جناب عثمان بزدار کی قلم رو میں ۔ان کی پریس کانفرنسیں ‘ بیانات ہم تک پہنچتے رہتے ہیں ‘ لیکن کیا ہم بھی ان تک پہنچتے ہیں ؟ سیاست میں آنے سے پہلے بھی وہ ایک نیک نام ڈاکٹر تھیں ‘ تو کیا ان تک میری آواز پہنچ رہی ہے؟ میری تنہا کی نہیں بے شمار خوف زدہ لوگوں کی؟
تمام سرکاری اور نجی ہسپتالوں کے سربراہان کیا زبانِ خلق سن رہے ہیں جو اس وقت نقارۂ خدا کی طرح ہر سو بج رہا ہے؟ہر طبقے میں یہ آواز گونج رہی ہے ۔کہیں چہ میگوئیوں کی صورت میں ‘ کہیں سرگوشیوں کی شکل میں ‘کہیں چیخوں اور آہ و بکاکی زبان میں۔یہ سب اعلیٰ فیصلہ ساز لوگ کیا وہ کہانیاں سن رہے ہیں جو سرکاری و نجی ہسپتالوں ‘ ڈاکٹروں‘ لیبارٹریوں اور میڈیکل سٹاف کے حوالے سے بیان کیے جارہے ہیں ؟ جب سے کورونا نمودار ہوا تھا ‘یہ کہانیاں بھی پھوٹنا شروع ہوگئی تھیں۔اب یہ اِکا دُکا کے درجے سے نکل کر متعدد کی صف میں شامل ہوگئی ہیں ۔ہر مریض ‘ ہر تیمار دار ‘ہرمرنے والے کے ہر رشتے دار کے پاس الگ کہانی ہے ۔ایسی کہانیاں جو مرنے سے پہلے ہی مار دیں ۔ایسی بے بسی جو خدا کسی کو نہ دکھائے ۔
ایک قریبی دوست بتاتے ہیں کہ ان کی ضعیف العمر عزیزہ ہرنیا کے آپریشن کے سلسلے میں جناح ہسپتال لے جائی گئیں۔ آپریشن بگڑ گیا تھا‘انہیں وارڈ میں رکھا گیا ۔مسئلہ ہرنیا کا تھا لیکن کورونا کا ٹیسٹ بھی کروایا گیا ‘پھر انہیں کورونا وارڈ میں منتقل کردیا گیا ۔اس دوران ان کی حالت خراب ہوتی گئی ۔ٹیسٹ رپورٹ نیگیٹو آئی تو انہیں واپس پچھلے وارڈ میں منتقل کرنے کے احکام جاری کی گئے ۔ سابقہ وارڈ والوں نے انہیں لینے سے انکار کردیا ۔تیمار دار ادھر سے ادھر بھاگتے اور کوشش کرتے رہے۔اسی دوران مریضہ کا انتقال ہوگیا ۔میری ایک عزیزہ گردوں کی مریض تھیں ‘ڈائلسز کے تکلیف دہ مراحل سے کئی سال سے گزر رہی تھیں ۔ ان دنوں ان کی طبیعت خراب ہوئی ۔ہسپتال لے گئے لیکن جانبر نہ ہوسکیں۔گھر والوں پر جو قیامت ٹوٹی وہ الگ لیکن ایک مسئلہ یہ پیش آیا کہ ہسپتال والوں نے میت دینے سے انکار کردیا ۔پورا گھرانہ صدمے کی حالت میں تھا لیکن ہسپتال والے اپنی کسی مصلحت کی بنا پر میت دینے سے انکار کرتے رہے ۔ کئی گھنٹے گزر گئے‘بالآخر جو ڈاکٹر مرحومہ کا ڈائلسز کرتے رہے تھے ‘ ان کو بلایا گیا ‘ انہوں نے گواہی دی اور بتایا کہ یہ میری کئی سال سے مریضہ تھیں ۔تب کہیں تدفین کے مراحل شروع ہوسکے ۔پچھلے دنوں اردو بازار‘لاہور کے ایک نامور ناشر کتب ‘جن کے گھرانے سے دیرینہ تعلقات ہیں ‘کے ساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ لاک ڈاؤن کے دنوں میں جب محدود دکانوں کو کاروبار کھولنے کی اجازت ملی تو وہ انہی دنوں مجھے ملنے میرے دفترآئے ۔کم و بیش چالیس سال عمر‘اور صحت مند ۔کچھ دن بعد علم ہوا کہ وہ کورونا کا شکار ہوگئے۔لاہور کے ایک بڑے نجی ہسپتال میں داخل ہوئے جو شہر کے بڑے ہسپتالوں میں سمجھا جاتا ہے۔ ایک دو دن ہی میں یہ حالت ہوئی کہ وہ چھپ چھپ کر دوستوں اور عزیزوں کو فون کرتے تھے کہ مجھے یہاں سے نکال لو۔کئی دن ہسپتال میں نہایت تکلیف میں گزارے پھر ٹیسٹ رپورٹ نیگیٹو آئی لیکن ہسپتال نے چھٹی نہیں دی ۔بہت اصرار پر دوبارہ رپورٹ کروائی‘ وہ بھی نیگیٹو آئی تو بمشکل تمام ہسپتال نے گھر جانے کی اجازت دی ‘لیکن اس دوران وہ ادھ موئے ہوچکے تھے‘صبح کے قریب گھر پہنچے ‘لیکن ایک گھنٹے کے اندر اندر انتقال کرگئے ۔ ہسپتال میں ان پر کیا گزری ‘یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا۔طارق کے دوسرے بھائی کو بھی کورونا ہوا لیکن وہ ہسپتال میں داخل ہونے کے بجائے دیسی علاج کرتے رہے ‘ ان کی حالت الحمد للہ بہتر ہے ۔یہ شکایت بھی سننے میں آرہی ہے کہ دل کے مریض‘ گردوں کے مریض یا کسی اور مسئلے سے دوچار مریض ہسپتال پہنچتے ہیں تو انہیں متعلقہ طبی امداد فراہم کرنے کے بجائے کورونا کا مریض قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے اور ایسے تو متعددواقعات سننے میں آئے کہ کسی مریض کا دل کے دورے یا کسی اور مرض کے سبب انتقال ہوالیکن ہسپتال والوں نے اس وقت تک میت دینے سے انکار کردیا جب تک لواحقین یہ نہ لکھ کر دے دیں کہ مرنے والا کورونا کے باعث مرا ہے۔ تدفین‘تابوت میں میت رکھ کر نہایت سخت شرائط کے ساتھ رشتے داروں کو حوالے کرنے کے بارے میں بھی نہایت خوفناک کہانیاں سننے میں آرہی ہیں ۔ اور جنازے میں تو لوگوں کے زیادہ اجتماع پر پابندی ہے ہی ۔ پہلے پہل میں نے یہ کہانیاں سنیں تو مجھے یقین نہ آیا ‘لیکن اس تواتر کے ساتھ یہ سننے میں آرہی ہیں کہ نظر انداز کرنا مشکل ہو رہا ہے ۔ اگر اس میں جزوی صداقت بھی ہے تو اس سے زیادہ لرزہ خیز بات کیا ہوسکتی ہے ؟
مجھے ان تمام واقعات اور خبروں میں ان کی سچائی کا تو یقین ہے جو قریبی جاننے والوں میں پیش آئے ہیں اور بذات خود دل ہلا دینے کے لیے کافی ہیں ۔لیکن جیسا کہ ہوا کرتا ہے ‘ ایسی وبائے عام میں مبالغہ آمیزبلکہ جھوٹی باتیں بھی بہت پھیلنے لگتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بہت سی استثنائی مثالیں ہونے کے باوجودنہ ہمارے ڈاکٹرز ‘ بے حس اور لالچی ہیں اور نہ ہمارے ہسپتال جانوں کا کاروبار کرتے ہیں ۔پچھلے سال دل کے دورے کے وقت جناح ہسپتال کا تجربہ ہوا‘مسائل تو ان سب سرکاری ہسپتالوں میں کچھ نہ کچھ ہیں‘ لیکن مجھے عدم توجہ ‘ یا غلط علاج کی شکایت بالکل نہیں ہوئی۔سچ یہ ہے کہ یہ ہسپتال مریضوں کے لیے بڑا سہارا ہیں ۔اور آج کل تو کورونا کے خلاف لڑنے کے لیے سامنے جو پہلا سپاہی آتا ہے وہ سفید گاؤن پہنے ڈاکٹر ہی ہوتا ہے‘سب سے زیادہ خطرے میں بھی وہی ہوتا ہے‘ لیکن وہ اپنا فرض بھی نبھا رہے ہیں اور اس فرض شناسی میں جانیں بھی دے رہے ہیں ۔ان کے لیے اور ان کی حفاظت کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے ‘لیکن ان سب کے باوجود ان کہانیوں کا کیا کریں جن کے مطابق آج کل ہسپتال جانا موت کے گھاٹ اترنے کے برابر ہے ؟اللہ نہ کرے کسی کو یہ مسئلہ پیش آئے لیکن ذرا لوگوں سے پوچھ کر دیکھیے ‘ اکثریت اس بات کی حامی نظر آئے گی کہ گھروں میں رہ کر علاج ہی بہتر ہے ۔
اب یہاں میرا وہ سوال پھر پڑھ لیجیے کہ یہ وزارتِ صحت ‘یہ وزرا ‘ یہ مشیر دم سادھ کر کیوں بیٹھے ہیں ؟اگر یہ خبریں غلط ہیں تو ان کی تردید کیوں نہیں کرتے؟اگر ایسے واقعات ہورہے ہیں تو ان کی روک تھام کون کرے گا؟بار با رپریس کانفرنس میں ان سے کورونا پھیلنے کی اطلاع تو ہر بار مل جاتی ہے ‘لیکن یہ نہیں پتہ چلتا کہ جو مریض ہسپتالوں میں ہیں ‘ ان کا کیا بندو بست ہے ؟ اور ان واقعات کے ذمے داروں کے خلاف کیا کارروائی ہوتی ہے ۔خدا کے لیے ہسپتالوں کا یہ سہارا مریضوں سے مت چھینئے ‘ خدا کے لیے ان پر سے مالی مفاد اور بے رحمی کے لیبل اتار دیں۔کوئی ہے جو ان افواہوں کی تردید کرے؟ ہے کوئی سننے والا جو اس دو دھاری خوف میں مبتلا لوگوں کی بات سن سکے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں