شور ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ باہر کا شور الگ اور اندر سے اٹھنے والی چیخیں الگ۔ ٹی وی دیکھوں، اس سے نظریں چرا کر اخبارات میں پناہ ڈھونڈوں، اس سے بھی فرار ہوکر سوشل میڈیا کی طرف آؤں یا موبائل میں جی لگانے کی کوشش کروں، کسی جگہ وہ آ ہنی پنجے پیچھا نہیں چھوڑتے جو دل کی دیواریں کھرچتے رہتے ہیں اور کسی اور کام میں جی نہیں لگنے دیتے۔ کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ کئی دن سے دل اتنا بوجھل ہے جیسے کسی نے منوں وزن اس پر رکھ دیا ہو۔ سب لوگوں کا حال ایک جیسا ہے۔ گھر کے افراد ایک دوسرے سے نظریں چراتے پھرتے ہیں جیسے انہوں نے کوئی گناہ کر دیا ہو۔ کوئی اس حادثے پر بات کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔
موٹر وے، گجر پورہ کا واقعہ سارے منظر پر چھایا ہوا ہے۔ کتنے دنوں سے کوئی دن‘ کوئی لمحہ ایسا نہیں ہے کہ اس سے مفر ہو۔ اس بے بس خاتون کی مدد کے لیے آوازیں اور ان معصوم بچوں کی چیخیں پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ ایک تکلیف دہ واقعہ ابھی پرانا نہیں ہوتا کہ نیا حادثہ پیش آ جاتا ہے۔ پچھلے واقعے کو بھلا دینے والا۔ اور پھر اس سے اگلا واقعہ... اور پھر اس سے اگلا۔ جیسے تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور اس کے دانے یکے بعد دیگر ے گرنے لگیں ۔
اس پورے منظر کو جس میں ایک اندوہ ناک واقعہ، اس سے متعلقہ واقعات اور ماحول شامل ہے، ذرا غور سے دیکھیے۔ آپ کو صاف محسوس ہو گا کہ اصل واقعہ اپنے ساتھ کتنے ہی واقعات لے کر آتا ہے اور پورے ملک میں تہلکہ مچا دیتا ہے۔ اور اب یہ روز کا معمول ہے کہ ایک واقعہ ایوالانچ کی طرح ڈھلوان پر پھسلنا شروع ہوتا ہے‘ ذرا سی دیر کے بعد دیکھیے تو وہ بہت بڑے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ کسی ایسے منظر کے ساتھ نواحی علاقے بھی مرکزی علاقے بن جاتے ہیں۔ ذرا میرے ساتھ اصل اور ملحقہ واقعات پر ایک نظر ڈالیں گے؟
شناخت شدہ دو ملزمان میں سے ایک ملزم گرفتار ہو چکا ہے۔ اعترافی بیان بھی دے چکا ہے۔ دوسرے کا تعاقب جاری ہے اور وہی مرکزی مجرم ہے۔ امید ہے کہ آج کل میں اس کی گرفتاری بھی ہو جائے گی۔ روز اس حوالے سے بیان آ رہے ہیں اور امید دلائی جا رہی ہے۔ جوڈیشل ریمانڈ، پولیس کی کارروائی کے بعد عدالتی کارروائی شروع ہو گی۔ ہمارے ہاں جو نظامِ انصاف کا حال ہے وہ سب کو پتا ہے۔ ملزموں کو مجرم کب کہا جا سکے گا اور وہ اپنی سزا کب بھگتنا شروع کریں گے، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ مرکزی ملزم ڈکیتی اور زیادتی کے کئی واقعات میں ملوث تھا۔ سوال یہ ہے اور یہ سوال پولیس سے ہے کہ ایسے شخص کو دندنانے اور مزید وارداتیں کرنے کے لیے کس نے کھلا چھوڑا؟ آخر متعلقہ تھانے کا کوئی تو اہل کار ہوگا؟ وہ کون ہے اور اب تک اس سے جواب طلبی کیوں نہیں کی گئی؟
پولیس افسروں اور اہلکاروں میں کچھ حیران، کچھ پریشان اور کچھ بے یقینی کی کیفیت میں ہیں۔ ادھر سی سی پی او پنجاب پولیس نے اپنے الفاظ کے غلط چناؤ پر معذرت کی ہے۔ اس پورے ہفتے میں عام لوگ تو کیا خود حکومتی عہدے دار اور وزیر ان کے کہے ہوئے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے رہے ہیں اور ان سے جواب طلبی بھی کی گئی ہے۔ کچھ ہی دن ہوئے کہ پنجاب پولیس کے آئی جی چھٹی بار تبدیل کیے گئے۔ ہر ایک کا اس سیٹ پر دورانیہ چند ماہ سے زیادہ نہ تھا۔ اب دیگر اعلیٰ پولیس افسروں میں بھی چہ می گوئیاں ہیں اور ہر ایک اپنی جگہ محتاط بیٹھا ہے کہ نہیں معلوم کل یہ اونٹ کس ڈھب بیٹھے۔ افسرانہ چپقلش کے ساتھ گروہ بندیوں کی باتیں بھی سنی جا رہی ہیں۔ کوئی افسر ایسے میں پورے اعتماد کے ساتھ کیسے بات کرے اور جم کر کارکردگی دکھائے تو کس طرح؟
ادھر دیکھیے ایک گروہ یہ بھی ہے۔ یہ ہر ایسے واقعے سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے ہمہ وقت تیار بیٹھا ہے۔ کوئی بات پیش آئی اور انہوں نے حکمران جماعت کے خلاف ایک فضا بنانے کے لیے اسے استعمال کرنا شروع کیا۔ سچ ہے عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے۔ پچھلے ادوار میں کیا کیا واقعات پیش نہیں آ چکے؟ کون سے ہاتھ ہیں جو ان سے رنگے ہوئے نہیں ہیں۔ لوگوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کوئی نئی بات نہیں ہے اور ان معاملات میں تحریک انصاف، مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی‘ تینوں بڑی جماعتوں میں سے کوئی ایسی نہیں ہے جو دوسروں کو یہ بات کہنے کے قابل ہو۔ لیکن ان کی ساری سزا عام لوگ بھگتتے ہیں۔ ایک طرف وہ استعمال ہوتے ہیں اور دوسری طرف معاشرے میں جو فساد مچتا ہے، جو محاذ آرائی اور گروہ بندی ہوتی ہے، نفرتیں جنم لیتی ہیں‘ وہ خود بھی ان کا شکار ہوتے ہیں۔
اور اس ٹولی کو دیکھیے۔ یہ جنسی زیادتی کے ہر معاملے کو صنفی امتیاز سے منسلک کر دیتا ہے۔ مرد اور عورتوں کے درمیان خلیج بڑھاتا ہوا صنفی امتیاز۔ مرد ظالم ہیں اور عورت کو بس ایک جسم سمجھتے ہیں۔ یا عورتیں خود ترغیب دیتی ہیں اور مردوں پر الزام دھرتی ہیں۔ اس بحث کا سلسلہ ہر ایسے واقعے کے بعد شروع ہو جاتا ہے۔ یہ چونکہ ذرا چٹ پٹی بحث ہے اس لیے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیا جاتا ہے۔ دلائل کے پہاڑ کھڑے کردیے جاتے ہیں اور عام طور پر اس بحث کا نتیجہ اور حاصل حصول کچھ بھی نہیں ہوتا‘ سوائے اس کے کہ یہ خلیج مزید گہری اور چوڑی ہو جاتی ہے۔
اور اس گروہ کو دیکھیے۔ یہ معاشرے میں پیش آنے والے ہر واقعے کا رخ مذہب اور مذہبی طبقے کی طرف موڑنا چاہتا ہے۔ خواہ اس کا دور بھی واسطہ نہ ہو۔ یہ بہت چالاکی سے ان اندوہ ناک واقعات کو مذہب سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ طبقات کے درمیان نفرت پھیلانے کی یہ مہم سوشل میڈیا پر برسوں سے جاری ہے۔ اور سادہ لوگ اس جال میں پھنس ہی جاتے ہیں۔
اور یہ ٹولی... یہ پاکستان، افواجِ پاکستان،نظریۂ پاکستان کی تاک میں بیٹھے لوگ ہیں۔ یہ صدمے اور عوام کے غم و غصے کا فائدہ اٹھا کر انہیں ان سب سے برگشتہ کرتے ہیں۔ انہیں دراصل اس متاثرہ خاندان سے نہیں‘ اپنے مقصد سے غرض ہے۔ اور اپنے اردگرد اور اپنے حالات سے تنگ لوگ ان کے جال میں بھی پھنستے ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ انہیں کس طرح اپنے مطلب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
لیکن لوگوں کا ایک طبقہ اور بھی ہے۔ وہ طبقہ جس کی آنکھیں اور کان کھلے ہیں۔ ٹھنڈے دل سے ان معاملات پر غور کرنے کے لیے اس کے پاس دماغ ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کے پاس دل موجود ہے۔ وہ ایسے ہر معاملے کی تکلیف اور ٹیسیں اپنے سینے میں محسوس کرتا ہے۔ و ہ دیگر گروہوں کے ہاتھوں میں نہ استعمال ہوتا ہے، نہ وہ اپنی قوم کے مفاد سے بے نیاز ہو سکتا ہے۔ یہ طبقہ بھی اس نقار خانے میں اپنی آواز بلند کرتا رہتا ہے اور دل کی بات دلوں تک پہنچاتا رہتا ہے۔
واقعہ اکیلا نہیں آتا، ایسے اندوہ ناک واقعات اپنے ساتھ مزید تکلیف دہ سلسلوں کا ایک سیلاب لے کر آتے ہیں۔ الیکٹرونک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا غم و غصے کو ہر گھر، ہر دل اور ہر آنکھ تک پہنچانے میں جت جاتے ہیں۔ یہ اکثر اصل واقعے کے کرب کو سینکڑوں گنا بڑھا کر پورے معاشرے میں پھیلا دیتے ہیں اور نتیجہ وہ بوجھ اور وہ وزن ہے جو ہر دل پر رکھ دیا جاتا ہے۔ ہم سب یہ سلسلے نہ صرف دیکھتے ہیں بلکہ اکثر نادانستہ اپنے اپنے طور پر اس جرم میں کسی نہ کسی طرح شریک بھی ہو جاتے ہیں۔
یہ واقعہ تو ہو گیا اور کوئی نیا واقعہ اسے پس منظر میں دھکیل کر چند ہی دنوں میں اوپر آ جائے گا لیکن ایسا ہر سانحہ یہ بات ذہن نشین کرا جاتا ہے کہ واقعہ ایک ہوتا ہے اور مجرم ہزار۔ پکڑے جانے اور جیل جانے والے چند ایک ہوتے ہیں۔ باقی مجرم کھلے پھرتے رہتے ہیں۔ کسی اگلے شکار کی تاک میں۔ کسی اگلے واقعے کے انتظار میں۔