سوشل میڈیا کے یار لوگ ہر صورتحال پر مزے کی میمز بنا لیتے ہیں۔ ایک تازہ مزیدار جملہ آپ بھی سن لیں ''ضروری اعلان ہے کہ 31 دسمبر استعفوں کی آخری تاریخ ہے اس کے بعد لیٹ فیس کے ساتھ استعفا دینا پڑے گا۔ اپوزیشن کی سہولت کے لیے سپیکر کا دفتر ہفتہ اتوار بھی کھلا رہے گا‘‘۔
آخر شیخ صاحب کو وہ قلمدان مل ہی گیا جس کی انہیں دیرینہ آرزو تھی اور جس کے لیے انہوں نے کافی زور بھی لگایا تھا۔ وزارت ریلوے کا قلمدان شیخ رشید سے لے کر انہیں زیادہ اہم وزارت یعنی وزارت داخلہ دے دی گئی۔ ریلوے کو جناب اعظم سواتی کے سپرد کردیا گیا۔ کابینہ میں تبدیلیاں تو ہوا کرتی ہیں لیکن اس تبدیلی کا وقت اہم ہے‘ لیکن اظہارِ تشویش سے پہلے اظہارِ اطمینان ضروری ہے کہ ریلوے بالآخر شیخ صاحب کی سربراہی سے نکل آئی۔ وہ دوسری بار ریلوے کے کرتا دھرتا بنے تھے۔ جو لوگ ان کے پہلے دور سے واقف ہیں، اور دوسرے دور میں بھی ریلوے کی حالت دیکھ چکے ہیں، ان سب کو اس دور کی کارکردگی کا پتہ تھا۔ جنہیں پتہ نہیں تھا، اور کوئی خوش فہمی باقی تھی، کسی ٹرین میں ایک سفر کے بعد وہ بھی پہلے طبقے میں شامل ہوگئے۔ جاننے والے جانتے تھے اور نہ جاننے والے جان گئے کہ شیخ صاحب سیاست کے آدمی ہیں۔ انتظامی محکمے ان کے بس کے نہیں۔ یہ وزارت ان پر بار تھی اور وہ وزارت پر۔ سو دونوں آسودہ ہوئے۔ اب دیکھیے اعظم سواتی ریلوے میں کیا بہتری اور کیا تبدیلی لاتے ہیں۔ بظاہر دونوں کا ایک دوسرے سے پہلی بار سابقہ پڑا ہے۔
لیکن افسوس یہ ہے کہ یہ فیصلہ کارکردگی کی بنیاد پر نہیں ہوا ورنہ بہت پہلے کرلیا جاتا۔ وہ خبر مجھے یاد ہے جب پی ٹی آئی حکومت کے 100 دن پورے ہوئے تھے اور کابینہ کی میٹنگ میں وزارتوں کی کارکردگی کا جائزہ لے کر وزیر ریلوے کیلئے تالیاں بجوائی گئی تھیں۔ میں لاہور ریلوے سٹیشن پلیٹ فارم پر گھنٹوں خوار ہونے کے بعد کراچی کے سفر میں اپنی سیٹ پر بیٹھا ان تالیوں کی تکلیف دل میں محسوس کر تے ہوئے ریلوے کی قسمت پر گریہ کررہا تھا۔ سو یہ طے ہواکہ اب یہ تبدیلی کسی کارکردگی یا کسی شکایت کی بنیاد پر نہیں ہوئی۔
اگر انسان دل میں یہ طے کرلے کہ عمران خان کی کابینہ اور جناب شیخ رشید لازم و ملزوم ہیں، اور کوئی نہ کوئی قلمدان ہر صورت میں ان کو بخشا ہی جانا ہے تو پھر وزارت داخلہ میں ان کی تقرری پر بات کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس وزارت میں اس وقت مسئلہ سیاسی مخالفوں کے مقابلے اور جوڑتوڑ کا ہے اور ان معاملات میں شیخ صاحب کا کوئی حریف نہیں۔ اس لیے وہ اس نشست پر مؤثر ہو سکتے ہیں؛ تاہم اس تبدیلی کے لیے یہ وقت کیوں چنا گیا؟ یہ بات اہم ہے۔ ایک نظر اس منظر پر ڈالیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ پی ڈی ایم اتحاد حکومت کے لیے کوئی بڑا خطرہ نہیں بن سکتا تھا۔ معاملہ محض جلسے جلوسوں کا ہو یا مخالفوں کے اکٹھے ہو جانے کا تو حکومت اس سے نہیں لڑکھڑا سکتی تھی۔ پی ڈی ایم کی اپنی پریشانیاں بھی بہت ہیں لیکن نظر یہ آیا کہ پی ڈی ایم نے حکومت کو پریشان کردیا اور یہ گھبراہٹ واضح نظرآتی ہے۔ وزرا کے بیانات ہوں یا رکاوٹیں‘ پابندیاں اور گرفتاریاں‘ حکومت نے وہی سب کچھ کیا جو تاریخ میں کبھی کسی تحریک کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ اس میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی جیسی جماعتوں کی شمولیت بہرحال حکومت کیلئے ایک طاقتور گھونسہ بن سکتی ہے۔ اراکین اسمبلی کے باجماعت استعفے بالکل الگ معاملہ ہے۔ اسی طرح اجتماعی لانگ مارچ کی دھمکی بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔ اس بار کورونا کا معاملہ بھی نتھی تھا، سو پی ٹی آئی بیانات کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ پی ڈی ایم عوام کی جانوں سے کھیل رہی ہے اور اس قیمت پر جلسے جلوس کرنا چاہتی ہے۔ اس بات میں صداقت ضرور ہے لیکن حکومت کے دوسرے اقدامات بتاتے ہیں کہ وہ جلسوں جلوسوں سے بوکھلائی ہوئی ہے اور نچلی سطح پر ان سے مسلسل غلط فیصلے سرزد ہورہے ہیں۔ جلسوں جلوسوں کی بھی خیر تھی لیکن معاملات اس سے آگے نکل گئے۔ سابقہ جلسوں کے تجربات کو دیکھتے ہوئے لاہور کے 13 دسمبر کے جلسے کے لیے یہ بہتر فیصلہ کیا گیا ہے کہ رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی قیادتوں پر کرپشن کا الزا م اگرچہ اس بری طرح چپکا دیا گیا ہے کہ عام آدمی کے ذہن میں بھی ان قیادتوں کی نااہلیت سے زیادہ لوٹ کھسوٹ کا تاثر جما ہوا ہے‘ لیکن سچ یہ بھی ہے کہ اب تک کوئی ایک الزام بھی کرپشن کا اس طرح ثابت نہیں ہو سکا جو دو اور دو چار کی طرح واضح ہو بلکہ ان سب کارروائیوں سے کم از کم نون لیگ کے بارے میں مظلومیت کا تاثر ابھرا ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم کا یہ راگ الاپتے رہناکہ میں این آر او نہیں دوں گا، عجیب محسوس ہوتا ہے۔ کیا حکمران جماعت سیاسی مخالفین میں کسی ایک شخص کے کسی ایک مقدمے کے بارے میں بتا سکتی ہے کہ اس پر شفاف طریقے سے کرپشن ثابت ہوگئی ہو؟ اب تک کا ریکارڈ یہی ہے کہ نون لیگ کی ناپسندیدہ صف اول کی قیادت پر الزام ایسے لگائے گئے اور اس طرح مقدمے دائر کیے گئے کہ لگتا تھا‘ انہیں باعزت بری کروانا اور مظلوم بناکر پیش کردینا ہی پی ٹی آئی کا مقصد ہے۔ لاہور میں لکشمی چوک کے ایک ریسٹورنٹ کو سیل کر دینا بھی ایسا ہی ایک اقدام لگتا ہے۔ یہ وہ تازہ ترین واقعہ ہے جس سے انتظامی نہیں بلکہ انتقامی کارروائیوں کا تاثر گہرا ہوتا ہے۔
سچ یہ ہے کہ پی ڈی ایم اپنے اندر پیدائشی فالٹ لائنز کی وجہ سے موجودہ حکومت کے لیے کوئی بڑا خطرہ نہیں بن سکتی تھی۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی اجتماع ضدین ہیں۔ ان میں نہ باہمی اعتماد ہے نہ ان کے ایک دوسرے کو لگائے ہوئے زخم ابھی مندمل ہوسکے ہیں۔ خود نون لیگ میں بھی اس بات پر شدید اختلاف موجود ہے کہ مخالفت میں کس حد تک جانا ہے۔ استعفے مولانا فضل الرحمن، نواز شریف اور مریم نواز کی خواہش ضرور ہیں لیکن نون لیگ کی باقی قیادت اور پیپلز پارٹی کی ہرگز نہیں۔ بیان بازی کی بات الگ‘ لیکن پیپلز پارٹی سندھ کی حکومت اپنے ہاتھوں خود ضائع نہیں کرے گی۔ جماعت اسلامی نے پی ڈی ایم کا حصہ بننے سے انکار کیا ہے۔ اس کی عدم موجودگی میں وہ سٹریٹ پاور پی ڈی ایم کے حصے میں نہیں آ سکتی جو جماعت کے ساتھ مخصوص ہے۔ کورونا کی دوسری لہر سردی کی لہر کے ساتھ مل گئی ہے اور ان دونوں کی موجودگی میں کسی بڑی تحریک کے امکانات بہت کم ہیں۔
ایسے میں پاکستان عوامی لیگ کی یک رکنی جماعت کے جناب شیخ رشید کو وزارت داخلہ کا منصب سونپنا غمازی کرتا ہے کہ پی ٹی آئی اپنی حکمت عملی بنا نہیں پا رہی۔ یاد رہے کہ عمران خان صاحب کے دست راست جناب جہانگیر ترین جوڑ توڑ کی سیاست میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، لیکن اب ان کے ساتھ نہیں ہیں؛ چنانچہ بظاہر یہ کام شیخ رشید صاحب کے سپرد کرنا طے ہوا ہے۔ یہ خبریں آنے لگی ہیں کہ نون لیگ کے اتنے اتنے اور فلاں فلاں اراکین اسمبلی نے وزیر اعلیٰ پنجاب اور پی ٹی آئی قیادت سے ملاقاتیں کی ہیں۔
پی ٹی آئی کے وزرا اپنے طور طریقوں سے چاہے پی ڈی ایم کی تحریک کو کتنی بھی مقبولیت بخش دیں حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم اگر استعفوں کے کارڈ نہ کھیلے تو وہ حکومت کے لیے کوئی بڑا خطرہ نظر نہیں آتی اور یہ ادراک مولانا فضل الرحمن اور میاں نواز شریف کو ہے؛ چنانچہ استعفوں کے لیے سب سے زیادہ پُرجوش اور بیتاب وہی نظر آتے ہیں۔ سو کیا پتہ کہ یہ ضروری اعلان انہی کی طرف سے کیا گیا ہو کہ31 دسمبر استعفوں کی آخری تاریخ ہے...