"SUC" (space) message & send to 7575

ہم پسماندہ اور جاہل دیسی

''میرے بچے تو پاکستان آنا ہی نہیں چاہتے۔ ہر بار کہتے ہیں پاپا ہم کیا کریں وہاں جاکر۔ میں زبردستی گھسیٹ کر لاتا ہوں انہیں کہ چلو اپنے ملک‘ اپنی زبان سے تعلق جڑا رہے لیکن ہر باریہاں آکر ان سے شرمندہ ہوتا ہوں‘‘ 
''کوئی حال نہیں یہاں، میں تو تنگ آجاتی ہوں کچھ دن کے لیے یہاں آکر۔ گرمی، گندگی اور مکھیاں ہی کافی ہیں بھگانے کے لیے۔ میں تو سوچ رہی ہوں دو دن بعد کی سیٹ کروا لوں واپسی کی‘‘ 
''کس قدر جہالت ہے بھئی یہاں کے لوگوں میں۔ توبہ توبہ۔ وہاں ہمارے ملک میں کوئی پرائے پھڈے میں ٹانگ نہیں اڑاتا۔ سب اپنے کام سے کام رکھتے ہیں‘ اور یہاں‘‘ 
''سارا فساد، سب تعصب آپ کے سیاست دانوں کا پیدا کیا ہوا ہے۔ ایک بار جہاز میں بھر کر سمندر میں ڈبو دیں سب کو تو چین آئے۔ مغرب میں ایسا ایک بھی نااہل ہوتو اسے طعنے مار مار کر ہی ختم کردیں‘‘ 
''کیسی جہالت ہے جو ان نام نہاد مولویوں نے پھیلائی ہوئی ہے‘ امریکہ اور مغرب میں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ اس لیے کہ سیکولر ملک ہے اور طریقہ یہ ہے کہ کسی سے پرخاش نہیں اور سب کا احترام کرنا ہے‘‘ 
''ہم بہت اچھے وقت اس ملک سے بھاگ گئے۔ اب وہاں چین سے رہتے ہیں۔ یہاں کی طرح ہرروز جلسے، جلوس، دھماکے، جھگڑے نہیں۔ کیسے رہتے ہیں آپ لوگ یہاں؟‘‘ 
بدیسی طعنوں سے دیسی دل‘ جگر دونوں چھلنی ہوئے پڑے ہیں۔ اگر آپ کے کوئی قریبی یا دور کے رشتے دار آپ کی خوش نصیبی یا بدنصیبی سے ولایت میں مقیم تھے یا ہیں تو آپ کے دل و جگر بھی ایسے ہی چھدے پڑے ہوں گے۔ ایسے رشتے داروں کی آمد پر ایک زمانے میں گھروں میں ان کے شایانِ شان تیاریاں ہوا کرتی تھیں لیکن سب کچھ کرنے کے باوجود گھر والے بولائے بولائے پھرتے تھے۔ پھر بھی جب یہ رشتے دار واپس جاتے تواپنے پیچھے گھائل رشتے داروں کی لمبی قطار چھوڑ جاتے تھے۔
کم و بیش 60 کی دہائی سے پاکستانی زیادہ تعداد میں امریکہ اور یورپی ممالک میں آباد ہونا شروع ہوئے تھے۔ کتنے ہی لوگ کہتے پھرتے تھے کہ میرا چاچا، میرا ماموں، میرا بھائی اور میرا بیٹا امریکہ میں بڑے ٹھاٹ سے رہتا ہے۔ انگلینڈ میں بڑی کمپنی میں جاب کرتا ہے۔ اس کے گھر میں یہ ہے اور اس کے دفتر میں وہ ہے۔ وہ اس گاڑی میں جاتا ہے اور اس کی بیوی فلاں گاڑی میں۔ زمانہ وہ تھا جب یہاں پورے گھرکے پاس ایک سائیکل اور بڑی شان ہوتو موٹر سائیکل ہوا کرتی تھی۔ ایسے میں مرعوب دلوں اور دماغوں کاآسانی سے احساس کمتری کا شکار ہونا فطری تھا، اور سال دوسال میں ایک بار وارد ہونے والے شکاری اپنا شکارکا کوٹہ پورا کرکے جایا کرتے تھے۔
اور شکار ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ان طعنوں میں اچھی خاصی صداقت بھی تھی۔ یہ روزمرہ کی باتیں تھیں جن کی اکثریت کا انکار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جو اختلاف کے پہلو تھے، کسی کی مجال تھی کہ ان کے بارے میں ان متمول، متمدن رشتے داروں کے سامنے منہ کھول سکے؟ اگر وہ ناراض ہوگئے تو کیا ہوگا؟ بلکہ وہ توبعد میں ناراض ہوں گے، پہلے اپنے گھر والے ہی چمڑی کھینچ لیں گے کہ بدتمیز! اتنے بڑے لوگوں کے سامنے زبان چلاتا ہے۔
اور ان بڑے لوگوں کا رہن سہن، احوال، واقعات کسی نے کب دیکھے تھے۔ جو کچھ انہوں نے اپنی زبانوں سے بتایا وہی سچ تھا۔ سوان میں ہر بادشاہ اپنی ملکہ اور شہزادوں، شہزادیوں کے ساتھ اپنے محل میں عیش بھری زندگی گزارتا تھا۔ یہی سچ تھا اور اس میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش تھی ہی نہیں۔ ایک مدت بعد اس فصیل میں شگاف پڑنے شروع ہوئے جب کسی جاننے والے نے دبی دبی زبان سے بتایا کہ فلاں بادشاہ تو کسی ہوٹل میں برتن دھوتا ہے یا فلاں نواب پٹرول پمپ پر گیس بھرنے کا کام کرتا ہے یا فلانی شہزادی بے بی سٹر ہے۔ فلاں شاہی گھرانہ ایک بیڈروم والے گھر میں گزارا کرتا ہے‘ جو تہہ خانے میں ہے۔ وہ ناواقفیت جو بادشاہوں اور شہزادیوں کی پردہ پوش تھی، چاک ہوئی تو ایسے نازک مقامات سے کہ بس۔ پھرتو وہ جان حیا ایسا کھلا، ایسا کھلا۔ 
ناں‘ ناں‘ ناں۔ غلط نہ سمجھیں۔ کسی بھی کام میں کوئی عیب نہیں۔ نہ یہاں، نہ وہاں۔ محنت کی روزی کسی بھی طرح کمائی جائے، کیا حرج ہے۔ عیب اور حرج ہے تو بس اتناکہ اسی قسم کی محنت کرنیوالوں کو ملک میں طعنے مارے جائیں اور برتن دھونے والے خود کو فوڈ چین کا مالک بتلائیں اور یہ بھی ہرگز نہ سوچیے گا کہ اس محنتی، دیانت دار، تعلیم یافتہ اور باشعور طبقے کی بات ہورہی ہے جو بیرونی ممالک میں پاکستان کی شان ہیں۔ ہرگز نہیں، ان کی بات نہیں ہورہی۔ روئے سخن ان کی طرف ہونے کا سوال ہی نہیں۔ لیکن میں ان لوگوں کا کیا کروں جن کی یہاں بات کر رہا ہوں۔ ان دل و دماغ کا کیا کروں جو سالہا سال کے زخموں سے بھرے پڑے ہیں۔ 
کوئی ایسے ویسے زخم؟ دور مت جائیے۔ میں نے 2008 میں پہلی بار فیس بک پر اکاؤنٹ بنایا تھا۔ ذرا 13 سال پہلے کا وہ دور یاد کیجیے۔ پاکستان ایک غیر مختتم عذاب سے گزر رہا تھا۔ خود کش حملے، بم دھماکے، چیخ و پکار، سرکاری عمارتوں پر چڑھائی، سکیورٹی فورسز پر حملے، دہشت گردی، لاشیں، خون، بکھرے ہوئے انسانی اعضا۔ سرخ لہو سے رنگی سڑکیں۔ غیر محفوظ شہر اور بستیاں۔ لوگ اپنی جانوں کی خیر مناکر گھر سے نکلتے تھے اور نئی بدترین خبریں شام تک لے کر لوٹتے تھے۔ اور کچھ ایسے تھے جولوٹ کر بھی نہیں آتے تھے۔ یہ باہر کا منظر تھا۔ زمانہ وہ تھا جب زندگیوں میں سوشل میڈیا نیا نیا داخل ہوا تھا اور یہ دنیا سب کے لیے نئی تھی۔ فیس بک پرکچھ بھی کہہ دیا جائے یا لکھ دیا جائے، کوئی پابندیاں سرے سے تھیں ہی نہیں؛ چنانچہ روز کی لڑائیاں، جھگڑے اس کا حصہ تھیں لیکن جنازے اٹھانے کے بعد جب فیس بک کھولتے تھے تو نئے نشتر نئے زخموں کی تلاش میں ہوتے تھے۔ ایک گروہ تھا جو تمسخر، استہزا، الزام، طعنے لیے پاکستانیوں کا منتظر ہوتا تھا۔ ایسا نہیں تھاکہ سب پردیسی خیر خواہی اور دکھ کے جذبوں سے عاری ہوتے تھے۔ اکثر لوگ دل سے دکھ محسوس کرتے تھے لیکن جس ذہن اور جس گروہ کی بات میں کررہا ہوں ان کی کاٹ دار باتوں میں خیر خواہی اور دکھ کی رمق تلاش نہیں کی جاسکتی تھی۔ یہ اپنی خالص ترین شکل میں نرا تمسخر اور استہزا تھا۔ اس گروہ میں وہ لوگ کثیر تعداد میں تھے جو اوپر اوپر لبرل ازم کا علم اٹھائے پھرتے تھے لیکن مکمل مذہبی تعصب والے تھے۔ اس گروہ کے بہت سے لوگوں کے متعلق میں ذاتی طور پر جانتا تھاکہ وہ جھوٹے کاغذات کے ساتھ ان ممالک کی سرکاری بھیک اور وظیفوں پر گزارا کرتے ہیں۔ ان کی بددیانتی بھی مشہور تھی اور بداخلاقی بھی۔ ان میں وہ خواتین و حضرات بھی تھے جن کے نزدیک پاکستان کا مطلب سستی شاپنگ، اپنے اعزاز میں تقریبات، مشاعروں اور کانفرنسوں میں صدارت وغیرہ تھی۔ اس وقت نہ انہیں پاکستان کی جہالت یاد رہتی تھی، نہ بدامنی، نہ گندگی اور نہ اخلاقی تباہ حالی۔ انہیں مکھیاں اس ملک سے دور نہیں بھگا سکتی تھیں کہ یہ خود مکھیوں کی طرح ہر مٹھاس پر ٹوٹے پڑتے تھے۔ 
لیکن یہ سب مجھے آج کیوں یاد آیا؟ دراصل میں اس وائی کنگ بادشاہ کا روپ دھارے رنگ برنگے چہرے والے اس برہنہ دھڑ نوجوان کی علمیت اور اخلاقی بلندی سے مرعوب ہوا بیٹھا ہوں جو کیپیٹل ہل کی عمارت میں جھنڈے گاڑتا پھررہا ہے۔ میں اس ادھیڑ عمر شخص کی قابلیت پر بھی اش اش کر رہا ہوں جو سپیکر نینسی پلوسی کی سیٹ پرنیم دراز ہے اور اس کی ٹانگ سامنے میز پر پھیلی ہوئی ہے۔ میں اس پولیس مین کی انتظامی قابلیت پر مبہوت ہوں جو ہجوم کی رہنمائی کررہا ہے۔ سو اے گروہ دانش وراں! آپ ٹھیک کہتے تھے۔ اس علمیت، اہلیت، قابلیت، انتظامی صلاحیت تک ہم شاید ہی کبھی پہنچ سکیں کہ ہم ان سے ابھی صدیوں پیچھے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں