شاہین کاظمی کہیں بھی رہتی ہو‘ رہتی اپنے دل میں ہے۔ اس کے دل کے اندر ہی سے اس آبنائے کا راستہ ہے جو کھلے پانیوں کی طرف کھلتی ہے اور جہاں سات سمندر اور ان میں گرنے والے دریا اور ندی نالے اپنے میٹھے اور کھارے پانیوں کے ساتھ ان کے منتظر ہوتے ہیں۔ وہ سب کے ساتھ رہتے رہتے جب چاہے چپکے سے اس آبنائے میں جا نکلتی ہے۔ کبھی الغوطہ، حلب اور ادلب کی طرف جہاں احمدالکریم اپنی خون آلود محبت کے ساتھ آخری سانسیں لے رہا ہے۔ کبھی برف پوش راکا پوشی کی سرسبز وادیوں میں‘ جہاں ''ناسالو‘‘ کے تہوار پر بھنے گوشت کی خوشبو پھیلی ہے اور گڈریے ''شینا‘‘ میں اجنبی گیت گا رہے ہیں۔ کبھی وہ دو کمروں کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں جلال واحدی کو بہت قریب سے دیکھتے ہوئے حنا صدیقی کی زبانِ بے زبانی کا دکھ سہتی ہے۔ گاہے وہ نیل پر رواں شاہی بجرے پر سلکی کتان کا لبادہ سنبھالے قدیم مصری ساز ''یرغول‘‘ اور ''سسترم‘‘ سنتے ہوئے عمورہ کی ہم نشست ہے جو ہوروس کی محبت میں گرفتار ہے۔ وہ ہونکتی گرم دوپہر میں پنجاب کے پس ماندہ گاؤں کی دھول اڑاتی گلیوں میں دیوار سے لگ کر کبھی رفعت اور کبھی کرمو کو آتا جاتا دیکھتی ہے‘ جس کی بیوی نے آج پھر بیٹی جنی ہے۔ وہ روم کی ایک ساحلی بستی میں گابی کے رخساروں پر بہتے آنسو پونچھتی دکھائی دیتی ہے۔ کبھی وہ لمبا پینڈا طے کر کے کوٹلہ شاہ حسین کے احمد دین اور رحم نور کی بھیدوں اور دکھوں کی پوٹلی کھولتی ہے۔ کبھی وہ...
میں نے لکھنا بند کیا اور دیکھنا شروع کیا۔ وقت اور نیلگوں دھند کے پار۔ شاہین کاظمی سوئٹزر لینڈ سے، بریڈ فورڈ، یو کے کے ایک مشاعرے میں آئی ہوئی ہے اور میں بھی اس مشاعرے میں موجود ہوں۔ شاہین سٹیج پر بہت اچھی اور منفرد غزل پڑھ کر حاضرین سے بھرپور داد لے رہی ہے۔ یہ میری اس سے پہلی ملاقات ہے۔ ایک روا روی کی ملاقات جس میں وقت زیادہ گنجائش نہیں دیتا۔ اس سے پہلے فیس بک ہی ملاقات کا وسیلہ ہے لیکن وہ تخلیقی کرب، وہ اضطراب، اور وہ گداز جو ایک حرف کار کا ازلی مقدر ہے ان سب ملاقاتوں پر اور اس کی شخصیت پر چھایا ہوا ہے۔ کوئی دکھ اس کے لفظ لفظ میں گندھا ہوا اور پور پور میں سمایا ہوا ہے، جو اسے اظہار کرتے رہنے کے باوجود تشنہ رکھے ہوئے ہے۔ میں نے اس کا پہلا افسانوی مجموعہ ''برف کی عورت‘‘ پڑھا تھا تو محسوس کیا تھا کہ آنسوؤں کے کھارے پانی سے جنم لی ہوئی ایک تازہ دم افسانہ نگار کا ظہور ہوا ہے۔ اب میں ''نندی پور کی رادھا‘‘ پڑھ رہا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ اس ازلی کرب میں اضافے کے ساتھ ساتھ ابدی حقیقتوں کا ادراک شامل ہو چکا ہے۔ اب شاہین کاظمی پتھریلی، اوبڑ کھابڑ گلیوں میں آسانی سے قدم جما کر چلتی ہے، اور ایک ٹھہراؤ اور سکون بھی اب اس اضطراب کا حصہ بن چکا ہے۔ کسی سمندر کی طرح جو کتنا ہی پُر سکون ہو اس کے لہریں لیتے ہلکورے اس کی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایسے ہلکورے جوآپ کے دل کو بھی بانہوں میں لے کر جھولا جھلاتے رہتے ہیں۔ مجھے اس کے کرداروں نے اور جملوں نے بار بار روکا۔ اتنا کہ مزید رکنا ممکن نہیں رہا تھا۔
'' آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے کی عادی ہو جائیں تو روشنی کو جاتے رستے دکھائی دینے لگتے ہیں‘‘۔
''بھٹی کے پاس بیٹھے ہنر مند کا سانولا رنگ مزید سانولا ہو گیا تھا۔ اُس کے تنومند جسم پر دھاروں کی شکل میں بہتا پسینہ‘ لیکن بھٹی کے قریب رکھی دھونکنی کا سینہ مسلسل پھول اور پچک رہا تھا۔ گرم اُبلتی ہوئی دھات مٹی کی نالی سے ہو کر سانچے میں گرنے لگی‘‘۔
''بوڑھا سمندر یُگوں سے اُن کا راز دان تھا۔ کسی مہربان ماں کی طرح۔ زندگی کے دھارے میں بہنے کے لئے اُن پر اپنے خزانے لٹاتا ہوا۔ سمندر کے سینے پر ڈولتی اُن کی کشتیاں جب مچھلیوں سے لدی واپس پلٹتیں تو بستی میں جشن کا سماں ہوتا۔ پرانا چرچ شکر گزاروں سے بھر جاتا۔ گھروں سے بلند ہوتے دھویں میں مچھلی کی اشتہا انگیز مہک کے ساتھ قہقہوں کی کھنک بھی شامل ہو جاتی‘‘۔
''صبح صبح موتیے کی کلیاں چن کر پیلے دوپٹے کے پلو میں سمیٹتی بے بے کے چہرے پر اَزلی سکون تھا۔
ملائم کولی جلد اور کانوں میں اڑسیں کلیاں اور پیلا دوپٹہ۔ میں نے بے بے کو ایسا ہی دیکھا تھا۔ عمر بھر ہجر اوڑھے ہوئے۔ کوئی بھی رُت رہی اُن کے دوپٹے کا رنگ نہ بدلا نہ اُس کے کونے میں لگی گانٹھ کھلی‘‘۔
''ہوا کچھ بھی نہیں تھا۔ راکا پوشی کو چھو کر آتی ہوا آج بھی اُتنی ہی سرد تھی۔ پانیوں میں گھلی یخ بستگی بھی ویسی ہی تھی۔ چیری اور خوبانی کے پیڑوں پر کھلے سفید اور گلابی پھولوں کی مہک اُسی طرح اَن کہی داستانیں دہرا رہی تھی۔ میری شادی پر شربت بنانے کے لیے پچھلے کئی سالوں سے صحن کے ایک کونے میں دبایا گیا مکھن آج بھی وہیں موجود تھا۔ اینٹوں کے اُس چبوترے تلے جسے ماں نے نشانی کے طور پر بنایا تھا۔ اُس کے ایک طرف گڑی لکڑی پر بندھے سرخ رومال گواہ تھے کہ اِس گھر میں ایک نوجوان لڑکی پلکوں پر خواب لیے کسی اجنبی کی راہ تک رہی ہے۔ کورے اور شیتل خواب، دھنک سے مستعار لیے گئے رنگوں سے بُنے ہوئے، تعبیر کے منتظر۔ لیکن خوابوں میں سُچے رنگ اُترنے تک زندگی ہزاروں رنگ بدلتی ہے‘‘۔
''احمدالکریم کو دوسری بار عشق ہوا تھا۔ اپنی تمام تر شدت اور وحشت کے ساتھ۔ ایک عشق سنبھالنا مشکل۔ مگر احمدالکریم دونوں عشق اُسی شدت سے سینے سے لگائے سر پٹ دوڑ رہا تھا۔ مجھے کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں اُس کا دوسرا عشق تھی‘‘۔
شاہین کاظمی کا عشق کچھ بھی ہو، ہوا یہ کہ اسے بہت سی دنیائیں اکٹھی دے دی گئیں۔ غزل، نظم، افسانہ تو صرف کائنات ادب سے متعلق ہیں۔ ان کے علاوہ کتنی کہکشائیں، کتنے سورج، کتنے چاند اس کے محور پر چکر لگاتے ہیں۔ کیا معلوم۔
معلوم تو ہمیں بس یہ ہے کہ شاہین کاظمی ان چیخوں، ان فریادوں کو غیر مرئی ہوائوں سے واپس کھینچ لینے اور ان کو ایک اور طریقے سے محفوظ کر دینے، مرئی بنا دینے کے ہنر سے واقف ہے جو کہیں گریہ کرتے مردوں، عشق کرتے بے بس لوگوں، گوشہ نشین، چپکے چپکے روتی اور پچھاڑیں کھاتی بیبیوں کے دل اور ہونٹوں سے نکلی تھیں اور ہواؤں نے ایسی ہی کسی حرف کار کے لیے محفوظ کرلی تھیں۔
شاہین کے موضوعات متنوع ہیں جن میں کردار بھی مانوس اور نا مانوس دونوں طرح کے ہیں۔ نیا تو دراصل با کمال تخلیق کار کا باطن ہوتا ہے جو ایک ماہر قلعی گر کی طرح پرانے تانبے کے برتن پر صیقل کی سلائی پھیرتا ہے اور برتن جگر جگر کرنے لگتا ہے۔ یہ گم سم کر دینے والی تحریریں ہیں ہی ایسی جیسے آپ کو اندر سے قاش در قاش کوئی کاٹ رہا ہو اور باہر خون کا ایک قطرہ بھی نہ گرے۔
میں بہت کم شاہین سے ملا ہوں لیکن اسے بہت زیادہ جانتا ہوں۔ شاہین کاظمی نے جب یہ لفظ لکھے تھے تو اس نے کسی اور کا نہیں اپنا احوال لکھا تھا۔ اپنی واردات اور اپنی قسمت لکھی تھی۔
''باؤ یہ چنبے دی بُوٹی بڑی اونتری ہوتی ہے۔ اِس کے ننھے ننھے پھولوں سے اٹھتی جادوئی مُشک ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتی۔ اُسے وہی محسوس کرتے ہیں جن پر عشق اپنا آپ کھولتا ہے۔ عشق بس چپ چپاتے اُن کے ہاتھ پکڑ کر ایک ایسی راہ پر ڈال دیتا ہے جہاں وچھوڑے کے کالے ونٹر اُگتے ہیں۔ انتظار کا بھکڑا پاؤں لہو لہان کر دیتا ہے‘‘۔
میں اس کا احوال اسی کی نذر کرتا ہوں کہ اس سے بہتر میں اسے بیان نہیں کر سکتا۔ یہ عشق، یہ ُمشک شاہین کو مبارک ہو کہ یہ چھپائے نہیںچھپتے ہیں۔