ترازو کا ایک پلڑا نیچے جھکتا ہے تو دوسرا فضا میں بلند ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات تو اتنا بلند کہ نیچے آنے والا پلڑا بالکل نظر انداز ہوجاتا ہے۔ لوگ بس تکلیف اور غصے سے ہوا میں معلق پلڑے کو دیکھتے ہیں اور پیچ و تاب کھاتے ہیں۔ ان کی دوڑ سوشل میڈیا تک ہے اور مزدور طبقے کی تو وہاں تک بھی نہیں۔ ریڑھی بانوں، مزدوروں، خوانچہ فروشوں کا سوشل میڈیا تو وہ بازار، وہ گھر اور وہ ماحول ہے جس میں وہ رہتے ہیں۔ وہ اپنے سوشل میڈیا پر اپنی چیخ و پکار شامل کردیتے ہیں۔ ناقابل برداشت مہنگائی ترازو کا وہ پلڑا ہے جس نے چیخیں نکال رکھی ہیں اور یہ چیخیں پی ٹی آئی حکومت کے دورِ اقتدار کے شروع ہی سے بلند ہیں۔ مہنگائی کا پلڑا بھی کیا بلند ہوگا جیسی یہ چیخ و پکار بلند ہے۔ جھکتے ہوئے دوسرے پلڑے پر کیا بات کی جائے، جس میں بتایا جارہا ہے کہ جی ڈی پی کی شرح 4 فیصد ہے جس کی ماہرین توقع نہیں کر رہے تھے۔ نیز دوسرے ایسے حکومتی اقدامات جن سے اچھی کارکردگی کی طرف توجہ دلائی جا سکے ایک عام آدمی کے لیے بے کار ہیں‘ جن میں اسے کچھ فائدہ نہ مل رہا ہو۔
عجیب تماشا ہے، کبھی ٹماٹر بس سے باہر ہوجاتے ہیں، کبھی پیاز، کبھی انڈے اور کبھی مرغی کا گوشت۔ سبزیوں کی حد تک تو بات کسی قدر سمجھ آتی ہے کہ فصل کے دنوں میں سبزیاں سستی اور بعد میں مہنگی ہوجاتی ہیں اور یہ چلن صرف موجودہ حکومت کے دور کا نہیں، شروع سے چلا آتا ہے لیکن انڈوں اور مرغی کے گوشت کون سے زمین سے اگتے ہیں کہ کسی موسم اور کسی فصل پر ان کا دارومدار ہو۔ اسے ناقص منصوبہ بندی یا ناجائز منافع خوری کے علاوہ کیا نام دیا جا سکتا ہے۔ ابھی پچھلے سال کے آخر میں جب سردیوں کا زور تھا اور انڈوں کی قیمتیں مرغیوں کے برابر پہنچ رہی تھیں، یہ تاویل پیش کی گئی تھی کہ پولٹری والوں نے پچھلے برے تجربے کے بعد نیا فلاک نہیں ڈالا تھا اس لیے انڈے مہنگے ہو گئے ہیں‘ دسمبر میں یہ قیمتیں کم ہوجائیں گی‘ لیکن یہ توقع پوری نہ ہوئی۔ پورا موسم سرما‘ جس میں انڈوں کی فروخت عام دنوں سے بڑھ جاتی ہے، انڈوں کی مہنگائی کا شکار رہا۔ نیا سال چڑھا تو مرغ کے گوشت کی قیمت بھی چڑھنی شروع ہوگئی۔ اس کا کیا جوازتھا، معلوم نہیں۔ اندازہ کریں کہ ماہ مئی کا آخر ہے، یہ گرمی کا وہ سیزن ہے جس میں عام گھروں میں گوشت کا استعمال نسبتاً کم ہوجاتا ہے لیکن آج بھی مرغ کا گوشت عام بازار میں 516 روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔ ٹماٹر سستے ہوئے تو دوسری کسی چیز نے اڑان بھرنی شروع کردی۔
تازہ ترین اڑان آٹے کی ہے۔ ابھی ہم لوگ اس بات پر پوری طرح خوش نہیں ہونے پائے تھے کہ اس سال گندم کی بھرپور بلکہ ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے اور کسانوں کو بہتر پیداوار اور بہتر سرکاری قیمتوں کا فائدہ ہوا ہے۔ بتایا جارہا تھا کہ امسال 28.75 ملین ٹن گندم پیدا ہوئی ہے جو 2016/2017 کے سابقہ ریکارڈ 26.67 ملین ٹن سے 2 ملین ٹن زیادہ ہے۔ اس پیداوار میں 75 فیصد حصہ پنجاب کا ہے جس کا تخمینہ لگ بھگ 21.75 ملین ٹن ہے۔ وفاقی وزیروں نے پنجاب کی ریکارڈ پیداوار دو کروڑ ٹن یعنی 20 ملین ٹن بتاکر مبارکباد دی تھی۔ اس سال گندم کی سرکاری قیمت خرید 1800 روپے فی 40 کلوگرام تھی جو 45 روپے فی کلوگرام بنتی ہے۔ اس نرخ اور بازار کے نرخ 60 روپے میں 15 روپے کلو کا فرق ہے جو بہت زیادہ ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ گندم کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ عالمی منڈیوں میں زیادہ ریٹ ہے۔ اب یہ راز تو وفاقی وزیروں ہی کے علم میں ہوگا کہ جب گندم کی برآمد پر سرکاری کنٹرول ہے تو پھر عالمی منڈی کا ریٹ کیسے اثرانداز ہوسکتا ہے۔ وفاقی وزیر پیداوار نے جب یہ اعلان کیا تھا کہ گندم کی ریکارڈ پیداوار ہونے کی صورت میں یہ برآمد کی جائے گی تو یہ بات سمجھ آنے والی نہیں تھی کہ ایک طرف تو یہ بات کہی جا رہی تھی کہ ریکارڈ پیداوار کے باوجود یہ ملکی ضرورت سے کم ہے اور تیس لاکھ ٹن گندم درآمد کی جائے گی، دوسری طرف اپنی گندم برآمد کرنے کی خوشخبری بھی دی جارہی تھی۔
ایک عام شخص کو‘ جس نے دو وقت اپنے گھر کی روٹی کا بندوبست کرنا ہے‘ اس سے کیا غرض ہے کہ عالمی منڈی میں قیمت کیا ہے‘ اسے تو یہ فکر ہے کہ آٹے کا تھیلا اس کی دسترس سے نہ نکل جائے یا تنور کی روٹی کی قیمت میں اضافہ نہ ہو۔ یہ صرف خبریں ہی نہیں، تنور بھی اپنی قیمتیں جلد ہی بڑھا دیں گے۔ ظاہر ہے فی کلوگرام آٹے کی قیمتیں بڑھیں گی تو نان بائی اور تنور بھی پیچھے نہیں رہیں گے۔ اگر روٹی کی حقیقی لاگت میں ایک روپے کا اضافہ ہوا ہوگا تو وہ دو روپے بڑھا کر مجبوری ظاہر کردیں گے۔ وزرائے اعلیٰ اور وزیر ایک بار پھر بیان داغ دیں گے کہ مہنگائی برداشت نہیں کی جائے گی اور حکومت اس کا نوٹس لے رہی ہے‘ لیکن سب کچھ اسی طرح ہوتا رہے گا جس طرح اب تک ہورہا ہے۔ روپے کی بے وقعتی کبھی ایسی نہیں دیکھی تھی۔ جن پیسوں میں دو روٹیاں اور معمولی سالن لے کر پیٹ بھرلیا جاتا تھا‘ اب ان میں دو روٹیاں بھی آجائیں تو غنیمت سمجھیے گا۔ ابھی توچینی کا واویلا کم نہیں ہواتھا، سارے بیانات اور اقدامات کے باوجود چینی کی فی کلوگرام قیمت عام بازار تو چھوڑیں، یوٹیلٹی سٹورز پربھی 85روپے سے نیچے نہ آسکی، یہی چینی پی ٹی آئی کی حکومت سے قبل 55روپے میں بک رہی تھی۔
چند دن پہلے ہی ایک معروف ٹی وی اینکر نے اپنے ٹویٹ میں خوشخبری دی تھی کہ ہم نے اس سال چھ بڑی فصلوں میں ریکارڈ پیداوار کی یعنی گندم، گنا، چاول، مکئی، آلو اور دالیں‘ اس لیے اس سال ان میں کوئی چیز غیرمعمولی مہنگی نہیں ہوگی۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ غیرمعمولی مہنگائی کسے کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک روٹی کی قیمت میں دو روپے کا اضافہ اس زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟ لیکن اگر یہ مان لیا جائے کہ ان کے اور وفاقی وزیروں کے دعوے بالکل درست ہیں تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ ریکارڈ پیداوار عوام تک پہنچتے پہنچتے اس لیے ریکارڈ مہنگائی میں تبدیل ہوجاتی ہے کہ نہ منافع خور مافیاز پرقابو پایا جاسکا اور نہ ہی سرکاری قیمتوں کی کوئی اہمیت ہے۔ ایک نظر ذرا آج لاہور کے ایک عام بازار کی چند قیمتیں دیکھ لیں۔ آٹا 60روپے کلو‘ مرغی کا گوشت سرکاری قیمت 448 روپے‘ صافی گوشت 516 روپے‘ چینی 105روپے۔
ان قیمتوں کے ہوتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ جی ڈی پی 4 فیصد ہوگئی ہے جس نے ماہرین کے اندازے غلط کردئیے ہیں‘ ڈالر مسلسل نیچے آرہا ہے، سٹاک مارکیٹ اوپر جارہی ہے‘ معاشی اعشاریے ملک میں تیزتر ہوتی معاشی گہماگہمی ظاہر کررہے ہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں‘ تو مجھ جیسا ایک عام شخص وقتی طورپر خوش ہوسکتا ہے لیکن اس کے پاس دہاڑی دار مزدور کی مہنگائی کے بارے میں آہ و بکا کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے۔ سچ یہ بھی ہے کہ دو تین وزرا اور مشیروں کو نکال کر خان صاحب کی ساری ٹیم میں نہ کسی وزیر کی کوئی کارکردگی ہے اور نہ بیانات میں کوئی کشش‘ اور ان میں بہت سے مفاد پرست وہ ہیں جو پی ٹی آئی سے پہلے کسی اور جماعت میں تھے، اس لیے ان کی صحت پر کیا فرق پڑتا ہے اگر ان کا بوجھ پی ٹی آئی کی کمرتوڑ کررکھ دیتا ہے۔
وقت تیزی سے اسی طرح گزر رہا ہے جس طرح پلوں کے نیچے سے پانی گزرتا ہے۔ بیانات کے ذریعے گا، گے، گی کے راگ الاپنے والے جلد ہی انتخابات کے سالوں تک پہنچنے والے ہیں اور ان کا نتیجہ وہی نظر آرہا ہے جو ضمنی انتخابات کا اب تک نظرآیا ہے۔ ریکارڈ پیداوار کے ڈھنڈوروں سے کیا حاصل ہے؟ ریکارڈ پیداوار تو اب تک ریکارڈ مہنگائی ہے۔