پورا ملک پُھنک رہا ہے۔ گرمی اپنے عروج پر ہے۔ لاہور میں درجۂ حرارت 41/42 اور کراچی میں اپنے نقطۂ عروج کو چھونے کے بعد اس وقت درجۂ حرارت 38/39 ہے‘ لیکن کراچی کی دھوپ میں جب نمی کا تناسب 60 فیصد ہو تو وہ اونچے درجۂ حرارت سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ بلا مبالغہ جسم ابال کر رکھ دینے والی اس گرمی سے کراچی تقریباً پندرہ بیس دن سے گزر رہا ہے۔ جنوبی پنجاب اور سندھ کے شہروں کی حالت اس سے تصور کی جا سکتی ہے کیونکہ وہاں سالانہ بارشیں بھی کم کم ہیں۔
اس تپتے موسم میں سیاسی گرماگرمی بھی ختم ہوکر رہ گئی ہے لیکن ایک خبرنے، جو اب خبر نہیں واقعہ ہے، سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالی ہے۔ مسلم لیگ نون کے سینئر رہنما اور ایک زمانے میں میاں نواز شریف کے قریب ترین لوگوں میں سے ایک چوہدری نثار علی خان نے بالآخر کم و بیش تین سال کے بعد پنجاب اسمبلی کا حلف اٹھا لیا ہے۔ تین سال کے بعد؟ مجھ جیسا ایک عام شخص تو اسی بات پر حیرت زدہ ہوتا ہے۔ کیا مزے ہیں انتخاب جیتنے والے کے۔ کئی کئی سال حلف نہ اٹھائیں تو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کسی قانون اور ضابطے کے تحت اسے پابند بھی نہیں کیا جا سکتا اور اس سے باز پرس بھی نہیں کی جاسکتی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ حلف اٹھانے کے بعد اگر کوئی رکن اسمبلی چالیس دن تک بلا اطلاع اور چھٹی غیر حاضر رہے تو اس کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔ گویا حلف اٹھا کر آپ اپنے اوپر قدغنیں لگوا لیتے ہیں۔ حلف نہ اٹھاکر باہر بیٹھیں، تماشا دیکھیں اور مزے کریں۔ لیکن ایک سیدھا سا سوال یہ ہے کہ قانون ہو یا نہ ہو، کوئی اخلاقی ذمے داری بھی جیتنے والے کی ہے یا نہیں یا وہ اس سے بھی فارغ ہے؟ اگر تین سال اس نے حلقے کے لوگوں کی نمائندگی ایوان میں نہیں کی جس کے لیے اسے ووٹ دیئے گئے تھے‘ تین سال وہ حلقہ اپنی ترجمانی اور ان سب ترقیاتی کاموں سے محروم رہا جو بطور رکن اسمبلی اس کے حصے میں آتے‘ کیا انتہائی اعلیٰ عہدوں پر رہنے کے بعد اتنی ذمے داری کا احساس بھی نہیں ہونا چاہیے۔ چوہدری صاحب حلف اٹھانا نہیں چاہتے تھے تو دوبارہ انتخاب کی راہ ہموار کردیتے۔ بالآخر حلف ہی اٹھانا تھا، خواہ کسی وجہ سے ہو، تو پہلے یہ بارِ گراں اٹھا لیتے۔ بات سیدھی سی ہے لیکن سیاست میں سیدھی بات کا کوئی دخل شاید ہے ہی نہیں۔
2018 کے الیکشن میں چوہدری نثار نے اپنے حلقے چکری، نزد راولپنڈی سے آزاد حیثیت میں قومی اور پنجاب اسمبلی کا انتخاب لڑا تھا۔ آزاد حیثیت میں کیوں اور مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر کیوں نہیں؟ یہ ایک الگ تفصیل طلب موضوع ہے۔ چوہدری صاحب غیرمتوقع طور پر قومی اسمبلی کا انتخاب ہار گئے جبکہ صوبائی نشست انہوں نے حاصل کرلی۔ یہ شکست ان کے دل شکستہ ہونے کے لیے کافی لگتی تھی اور یہی خیال کیا جارہا تھاکہ وہ اس صورت میں کہ مرکز اور پنجاب میں عمران خان کی حکومت بن رہی ہے، صوبائی نشست رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ حکومتیں بنیں، مقدمے بنے، نئے لیڈر بنے، نئے اتحاد بنے لیکن چوہدری نثار گونگے کا گڑ کھا کر بیٹھے رہے۔ انہوں نے کسی بھی صورتحال پر مثبت یا منفی تبصرہ نہیں کیا۔ لگتا تھا نواز شریف، شہباز شریف، اسحاق ڈار، شاہد خاقان عباسی، سعد رفیق، خواجہ آصف، مریم نواز، حمزہ شہباز وغیرہ کی پکڑ دھکڑ، مقدمات وغیرہ سے انہیں کوئی واسطہ نہیں ہے۔ یہ بات بھی معنی خیز ہے کہ مسلم لیگ نون کی ساری صفِ اول کیا صفِ دوم کی قیادت بھی باری باری بعضاداروں کی زد میں آئی اور حکومتی بیانات کی زد میں بھی لیکن چوہدری نثار علی خان ہر گزند سے باہر رہے۔ نہ مسلم لیگ نون نے کوئی طعنہ زنی کی، نہ پی ٹی آئی کے وزرا نے۔ راوی ہر طرح چین ہی چین لکھتا رہا۔ وزن اٹھاکر ایک طرف دھر دیں اور نام کی جگہ نثار علی خان فٹ کردیں تو یہ مصرعہ فٹ ہے۔ بنا تھا عیش تجمل حسین خاں کے لیے۔
تو پھر اس قیامت کی گرمی میں یکایک یہ کیا ماجرا ہوگیا کہ جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا۔ خود نثار علی خان سے وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی ایک آرڈیننس لانے کی تیاری کررہی ہے جس کے مطابق کوئی کامیاب رکن اسمبلی اگر 90 دن کے اندر حلف نہیں اٹھاتا تو نشست منسوخ کرکے دوبارہ انتخابات کروائے جائیں گے ‘ اور یہ فضول سی بات ہوگی کہ میں یہ نشست چھوڑ کر دوبارہ انتخاب لڑوںاور کامیاب ہوں۔ انہوں نے عمران خان کو یہ مشورہ بھی دیاکہ ٹھنڈی کرکے کھائیں کہ اس وقت ملک کو افہام و تفہیم کی بہت ضرورت ہے۔ اس بیان سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر اس آرڈیننس کا خطرہ نہ ہوتا تو چوہدری نثار ہنوز کنجِ خموشی میں بیٹھنے کو ترجیح دیتے۔
چوہدری صاحب سے پوچھنا ہے کہ کھیر کتنے سال میں ٹھنڈی ہوتی ہے؟ کیا تین سال سے بھی زیادہ؟ سوالات بہت ہیں جن کے جواب خود بوجھنے کی کوشش کرتے ہیں مثلاً یہ کہ تین سال کی خاموشی کے بعد یہ وقت انہوں نے کیوں چنا؟ کیا یہ واقعی آرڈیننس کا ہی مسئلہ تھا؟ یا اب وہی صوبائی نشست جو انہیں جچتی نہیں تھی، اچانک کارآمد نظر آنے لگی ہے ؟ تین سالہ خموشی کے تجربے کے بعد کیا وہ اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ ان کا نام آہستہ آہستہ لوگوں کی زبانوں اور حافظوں سے محو ہونے لگا ہے‘ اس لیے سیاسی طور پر زندہ رہنے کیلئے یہ ضروری ہے؟ یا پنجاب میں کوئی بڑی تبدیلی متوقع ہے جس میں چوہدری صاحب کو اپنا کوئی کردار نظر آرہا ہے۔ عمران خان اور چوہدری نثار کی ایچی سن کالج سے دوستی کا تعلق اور ایک دوسرے کے لیے نرم گوشہ ڈھکا چھپا نہیں۔ کیا عمران خان صاحب کو پنجاب میں قاف لیگ سے کوئی خطرہ محسوس ہورہا ہے جس کے توڑ کے لیے چوہدری نثار سے کردار ادا کرنے کو کہا گیا ہے؟ یا جہانگیرترین گروپ کی حالیہ پریس کانفرنسوں کے بعد ان کی ممکنہ بغاوت کی روک تھام کے لیے کوئی نیا کھیل شروع ہوگا؟ نواز شریف سے تو چوہدری نثار کے اختلافات نون لیگ کے دور ہی میں شروع ہوچکے تھے، جس کی طرف چوہدری نثار بین السطور اشارہ کرتے لیکن کھل کر بات کرنے سے گریز کرتے تھے۔ اس حد تک کہ چٹپٹی خبروں کے متلاشی ان کی پریس کانفرنسوں کے بعد انہیں برا بھلا کہتے اٹھتے۔ تو یہ بعید از قیاس نہیں کہ چوہدری صاحب نے بالآخر عمران خان کا کھل کر ساتھ دینے کا ارادہ کرلیا ہو۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کے لیے بھی یہ ایک اچھی صورتحال ہوگی اور پارٹی کے اندر، جہانگیر ترین کے جانے کے بعد، ایک سینئر رہنما کا اضافہ انہیں طاقتور کرے گا لیکن یہ بات پیچیدگی پیدا کرتی ہے کہ یہ اضافہ نشست کی صورت میں پنجاب میں ہے۔ اگر کوئی خاموش معاہدہ اس قدم کے پیچھے ہے تو چوہدری نثار کو کسی اہم عہدے یا اہم کردار کی پیشکش لازما کی گئی ہوگی۔ وہ کیا ہوسکتا ہے؟ وزیر اعلیٰ؟ سپیکر؟ ان سے نیچے کے عہدے تو چوہدری صاحب کے لیے قابل قبول نہیں ہونے چاہئیں۔
دو مسلم لیگیں اس معاملے کو کیسے دیکھ رہی ہوں گی؟ نون لیگ اور قاف لیگ۔ چوہدری پرویزالٰہی نے ابھی تک محتاط تبصرہ کیا ہے جبکہ نون لیگ کی طرف سے کوئی بات سامنے نہیں آئی۔ دیرینہ ساتھی کی رفاقت ختم ہونا بہرحال ان کے لیے ایک صدمہ رہے گا‘ لیکن ایک ممکنہ صدمہ چوہدری صاحب کے جاں نثاروں کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ وہ یہ کہ ان میں سے کچھ بھی نہ ہو اور چوہدری نثار علی خان ایک بھرپور سیاسی زندگی کے بعد محض ایک صوبائی نشست پر قناعت کرکے بیٹھ جائیں اور باقی مدت اسی طرح گزار دیں۔ یہ میرے لیے بھی بڑا صدمہ ہوگا‘ لیکن ایسا ہوگا نہیں۔ مصرعہ سچا ہے۔ اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے۔ دیکھنا ہے کہ اب چوہدری نثار جان کس پر نثار کرتے ہیں؟