پینتا لیس سال ۔
پینتا لیس سال ایک پوری عمر کی طرح ہوتے ہیں۔میرے محبوب والدین نے کس کس طرح بہت مشکل حالات میں سمن آباد موڑ‘لاہور پر یہ گھر ' ' کاشانۂ زکی ‘ ‘ بنایا تھا۔میں ان مسائل اور ان حالات کا تصور کروں اور بیان کرنا چاہوں تو شاید پوری طرح تصور بھی نہ کرسکوں اور بیان بھی نہ ہو سکے۔ سخت مالی مشکلات میں بہت چھوٹے بچوں کے ساتھ میرے والد جناب محمد زکی کیفی نے یہ کشادہ اور خوب صورت گھر بنایا جو گھر ہی نہیں ایک پوری تاریخ‘ پورا عہد تھا۔ کم و بیش پینتالیس سال یہ تاریخ‘ یہ عہد ہمارے جسم میں سانس کی طرح رچے بسے رہے ہیں۔
نیا بنا ہوا گھر تھا‘ نئے بنے ہوئے دل
اور اس سے قبل ہمارے مکاں ہمارے نہ تھے
سو اس نشے نے بہت کُلفتیں بُھلا دی تھیں
وہ ایسے دن تھے جو پہلے کبھی گزارے نہ تھے
اگرچہ زمین کا یہ ٹکڑا میرے والد نے 1954 کے لگ بھگ بہت سستے داموں خریدا تھا لیکن یہ اس وقت بالکل ویرانہ تھا۔ کوئی شخص یہاں گھر بنانے کی ہمت نہیں کرتا تھا اور والدِ گرامی کے پاس تعمیر کی گنجائش بھی اس وقت نہیں تھی۔ بعد میں یہ گھر تعمیر کیا گیا۔ میرے والد اچھے گھر اور اچھے نقشے کے بہت شوقین تھے اور یہی حال میری امی کا تھا۔ وہ ہر وقت گھر کی صفائی ‘دیکھ بھال اور آرائش میں لگی رہتی تھیں۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا۔ برسوں کی محنت‘ دقّت‘ کرائے کے مکانوں کی سکونت کے ساتھ ساتھ قطرہ قطرہ پیالہ جمع کرنے کا کام انہوں نے سخت مشکل حالات میں کیا تھا۔ اس گھر میں شاید زیادہ آسائشیں نہیں تھیں لیکن اس وقت کے لحاظ سے ضروری سہولتیں موجود تھیں۔ نہ ہوتیں تب بھی یہ گھر جان سے بڑھ کر عزیز تھا۔
وہ سب جو خواہشیں ہوتی ہیں‘ خواب ہوتے ہیں
کسی طلسم نے معدوم کر دیا تھا اُنہیں
ضروریات کی ترتیب وانتظام کے بعد
جو کچھ خلا تھے قناعت نے بھر دیا تھا انہیں
جو شرق و غرب کی سب نعمتوں سے بڑھ کر تھے
وہ دو وجود یہیں اس مکاں میں رہتے تھے
بڑی خنک سی تمازت تھی پیار میں اُن کے
وہ آفتاب تھے اور سائباں میں رہتے تھے
1966ء میں میرے والدین اس گھر میں منتقل ہوئے۔ گھر بڑا تھا چنانچہ اس گھر کی زمینی منز ل ‘پرنسپل اورینٹل کالج ڈاکٹر سید عبداللہ کو کرائے پر دی گئی جنہوں نے یہاں مغربی پاکستان اردو اکیڈمی کا دفتر بنایا۔ کافی عرصے اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کی کئی کلاسیں بھی اسی گھر میں ہوتی رہیں۔ پنجابی زبان و ادب کے استاد ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار صاحب اور غالباً ڈاکٹر وحید قریشی نے بھی کافی مدت اس گھر میں رہائش رکھی۔ خود ڈاکٹر سید عبد اللہ کا اپنا گھر بھی ہمارے اس گھر سے چند گھروں کے فاصلے پر تھا۔ ڈاکٹر سید عبداللہ اور میرے والد نے مل کر اس علاقے کا نام ' ' اردو نگر ‘ ‘ رکھا تھا۔
میرے والد جناب زکی کیفی کا حلقۂ احباب وسیع تھا ۔ ہر نقطۂ نظر اور ہر مکتب فکر کے لوگ ان سے محبت کرتے تھے ۔ایک بڑے مذہبی اور علمی ادبی خانوادے کی نسبت بھی بڑی وجہ تھی اور ان کی اعلیٰ شاعری ‘بے غرض شخصیت ‘ اور نشر و اشاعت سے وابستگی بھی ۔ہر شعبے کے لوگ ان سے محبت کرتے تھے۔ان کی وجہ سے ہم نے بچپن ہی سے بڑے بڑے علما‘ بزرگ شخصیات‘ سیاستدانوں‘ شاعروں‘ ادیبوں‘ دانشوروں‘ صحافیوں اور مدیروں کو بکثرت گھر میں آتے جاتے دیکھا۔اس زمانے میں اور آج کے زمانے کے بھی ان شعبوں سے متعلق کوئی بڑا نام شاید ایسا نہیں تھا جو اس گھر میں ہم نے نہ دیکھا ہو۔ بے شمار نام ہیں جو آج کے دور کے بھی بڑے نام ہیں۔
ڈاکٹر سید عبداللہ اور میرے والد کے زیر ِ انتظام ہر ماہ ایک مشاعرہ بھی مغربی پاکستان اردو اکیڈمی میں منعقد ہوتا تھا جس میں نامور ترین شعراء شرکت کرتے تھے۔لاہور کاکوئی بڑا شاعر شاید ایسا نہ ہو جس نے ان مشاعروں میں شرکت نہ کی ہو۔چھٹی جماعت کے طالب علم کی حیثیت میں میری تُک بندی بھی شروع ہوچکی تھی تو میں نے اپنا پہلا مشاعرہ بھی جناب احسان دانش صاحب کی صدارت میں بے شمار نامور شاعروں کی موجودگی میں اسی گھر میں پڑھا۔جناب ڈاکٹر سید عبداللہ جن کا دفتر چالیس سال اس گھر میں رہا ‘ہم بچوں سے بہت محبت کرتے تھے۔
ہمارے شعور کی آنکھ اسی گھر میں کھلی۔ لیکن میرے والدین ' ' کاشانۂ زکی ‘ ‘ میں زیادہ وقت نہیں گزار سکے 1975ء میں میرے والد اور 1982ء میں میری والدہ ہم سے رخصت ہو کر اعلیٰ اور ابدی گھروں کی طرف چلے گئے۔ یہ وہ زخم ہیں جو وقت گزرنے کے باوجود ابھی تک ہرے ہیں۔ مکینوں سے زیادہ تو پائیدار اینٹ پتھّرہوتے ہیں۔ ہم بھی زخموں کو ساتھ لیے بڑے ہوتے گئے۔ اسی گھر میں شادیاں ہوئیں۔ بہنیں رخصت ہو کر اپنے گھروں کی ہو گئیں اور زکی کیفی کے بیٹے اسی گھر میں خود صاحبِ اولاد ہو گئے۔ ہماری ہی نہیں اگلی نسل کی محبتیں اور یادیں بھی اس گھر سے وابستہ ہو گئیں۔
وہ کوئلوں کی انگیٹھی میں اَدھ جلے یاقوت
بچھی ہوئی کسی کونے میں ایک جائے نماز
وہ نرم گرم لحافوں میں مَدھ بھری نیندیں
وہ صبح ساتھ کے کمرے سے ذِکر کی آواز
میں جب بھی گاچنی ملتا تو میری تختی پر
ہتھیلیوں سے لکیریں سی پڑنے لگتی تھیں
اور اس کے بعد کسی گرم خشک جھونکے سے
سلیٹی رنگ کی پَوریں اکڑنے لگتی تھیں
مجھے اس گھر سے والہانہ محبت تھی۔میں نے شاید 2002ء میں اس گھر اور اس محبت کے نام ایک ادھوری نظم لکھی جو آج تک مکمل نہ ہوسکی۔یہ نظم ' ' ایک ادھوری نظم ‘ ‘ کے نام سے میرے دوسرے شعری مجموعے ' ' بارش ‘ ‘ میں چھپی۔ یہ گھر اب بھی میرے اندر بستا ہے اور آج بھی مجھے خواب اسی گھر کے آتے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ علاقہ تجارتی ہوتا گیا اور کمرشل علاقوں کی خوبیاں اور خرابیاں دونوں اس کے حصے میں بھی آتی گئیں۔ ویسے بھی مسافروں کے ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں۔ 2011ء میں بالآخر میں نے یہ محبوب گھر چھوڑا اور نیا ٹھکانہ بنا لیا۔ دل پر بہت اثر تھا۔ انہی دنوں گھر کیلئے فیس بک پر ایک تحریر اور کچھ تصویریں شامل کیں اور دوستوں نے اسی طرح میرے کرب کو محسوس کیا جیسا یہ ان کا اپنا دکھ ہو۔ 2013ء میں یہ گھر بالکل خالی ہو گیا اور نئے لوگ اس کے مالک بن گئے۔ ہم کبھی ادھر سے گزرتے یا خاص طور پر گھر دیکھنے جاتے تو اس کی اجاڑ حالت دیکھی نہ جاتی۔ لیکن اسے دیکھ کر ایک ٹھنڈک بہرحال دل میں اترتی جاتی جیسے کسی اپنے بزرگ کے سائے میں پہنچ گئے ہوں۔
اور اب جب یہ خبر ملی ہے کہ اس جگہ ایک کمرشل پلازا بنانے کے لیے وہ گھر ٹھیکیدار نے توڑنا شروع کردیا ہے تو جیسے دل میں بڑا سا شیشے کا ٹکڑا ٹوٹ گیا اور اس کی کرچیاں جابجا پیوست ہو گئیں۔ ایک گھنا پیڑ کٹ جائے تو اس کا سایہ پھر کہاں ملتا ہے۔ لیکن یہ تو ہونا ہی تھا۔ ایسا ہی ہوا کرتا ہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ میرے جان سے پیارے والدین کا گھر اب خوابوں اور خیالوں میں بسا رہے گا۔ ہمیشہ کے لیے آباد‘ پر رونق اور ہنستا بستا۔ یہاں اسے کوئی مسمار نہیں کر سکتا۔ میں اس میں رہوں نہ رہوں یہ گھر مجھ میں ہمیشہ رہے گا۔ کچھ سمجھ نہ آیا تو پرانی نظم نکالی۔ پرانی تصویریں نکالیں اور اپنا دل ہلکا کرنے کے لیے آپ کے پاس چلا آیا۔ اور کرتا بھی کیا ؟
کچھ اور بھی مسکن تھے ترے دل کے علاوہ
لگتا ہے کہیں اور بھی مسمار ہوا میں