کیا کبھی یہ تصور کیا گیا تھا کہ ہزاروں فٹ بلندی پر اڑتے ہوئے زمین کے تمام کام جاری رکھے جا سکیں گے۔ اپنے گھر والوں اور دوستوں سے مسلسل رابطہ رکھا جا سکے گا۔ بہت سی ایئرلائنز بین الاقوامی پروازوں پر وائی فائی کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ ٹرکش ایئرلائنز کی لاہور استنبول پرواز میں بھی سہولت موجود تھی۔ مسافر رات کے جاگے ہوئے تھے سو انہیں ناشتہ کرا دیا گیا تھا۔ روشنیاں مدھم کردی گئی تھیں اور اکثر مسافر نیم خوابی کی حالت میں جا چکے تھے‘ لیکن اگر کسی کو نیند نہ آئے تو وائی فائی بہترین ہم سفری کے لیے تیار رہتا ہے۔ اس کا مجھے یہ فائدہ ہوا کہ ترک میزبانوں سے بھی مسلسل رابطہ رہا اور پرواز استنبول اترنے سے پہلے وہ میزبان نوجوان جو خوش آمدید کہنے کے لیے ایئر پورٹ پر موجود تھا‘ اس نے اپنی تصویر بھیج دی تھی اور بتا دیا تھا کہ وہ گیٹ 9 کے باہر منتظر ہوگا۔
استنبول ایئر پورٹ آنے کا پہلا موقع تھا۔ اس سے پہلے پرواز اتا ترک ایئر پورٹ آتی تھی جو اب کارگو ایئر پورٹ بن چکا ہے۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ نیا استنبول ایئر پورٹ کیسا ہے تو میں یہی کہوں گا کہ دنیا بھر کے تمام جدید ایئر پورٹس جیسا، یعنی بہت خوب صورت، بہت جدید، بہت بڑا اور بہت خراب۔مجھے ان تمام جدید ایئر پورٹس کے پیچھے ایک ہی بات نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ ان سے ایئرپورٹس کا نظام چلانے والوں کو بہت سہولتیں میسر رہیں۔ رہے مسافر تو وہ اپنی مصیبتیں کاٹ ہی لیں گے۔ کوئی ایک مصیبت نہیں ہے۔ بہت پیدل چلنا اور اکثر بوجھ اٹھائے ہوئے۔ خود کو اور سامان کو گھسیٹتے ہوئے۔ رواں سیڑھیاں اترنا اور چڑھنا۔ امیگریشن کی لمبی لمبی قطاروں میں لگنا۔ سامان کی بے شمار بیلٹس میں سے اپنی بیلٹ تلاش کرنا اور بے شمار سوٹ کیسوں میں اپنا سوٹ کیس تلاش کرنا۔ یہ سب اب ان ایئر پورٹس کا معمول ہے۔
اللہ کا بہت شکر ہے کہ میں تو ان سب سے گزر سکتا ہوں لیکن ایک بیمار بزرگ، بہت موٹے فرد، بہت کمزور آدمی یا حاملہ عورت کا تصور کریں۔ کیا یہ سب اس کے لیے بھی آسان ہے؟ یہ درست ہے کہ ان کے لیے ویل چیئرز موجود ہیں۔ ایئر پورٹ کے اندر گاڑیاں بھی ہیں لیکن پھر بھی یہ ان کے لیے کٹھن ہے۔ انسان صحت مند ہو، پیدل چلنے کے قابل ہو تو مسافرت کی حالت میں اس کے پاس کچھ نہ کچھ دستی سامان تو موجود ہوتا ہی ہے۔ ٹرالی بیگ بھی تقریباً لازمی ہے۔ ان سب کے ساتھ وہ ضروری سفری کاغذات بھی ہاتھ میں رکھتا ہے کہ کسی بھی وقت ان کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ اسے فون پر باہر منتظر لوگوں سے بھی بات کرنی ہوتی ہے۔ اسی بھاگ دوڑ میں کاغذات اور دیگر چیزیں گم ہو جانا یا گر جانا تو معمول ہی سمجھیے۔
سامان بیلٹ پر تلاش کرلیا گیا تو ٹرالی کا مسئلہ تھا اور وہ دس لیرا خرچ کیے بغیر ٹس سے مس ہونے والی نہیں تھی۔ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ لیرا آج کل ہمارے21 روپے کے برابر ہے مشین میں 5 والے دو نوٹ ڈالے۔ چار بار اس خود دار نیک پروین نے نوٹ پہچاننے سے انکار کرکے بغیر شکریے کے واپس کردیے۔ باہر نکلنے کی جلدی تھی اس لیے اس کی یہ بے نیازی بہت بری لگی لیکن کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔ مشین سے جھگڑا کرتے ہوئے اور لڑتے ہوئے انسان ویسے بھی بہت برا لگتا ہے چنانچہ نوٹ کے کنارے سیدھے کرکے پھر پیش کرتا رہا۔ چوتھی بار اس نے نوٹوں سے شناسائی کا اظہار کیا اور ٹرالی باہر نکل آئی۔ ویسے مجھے کبھی یہ سمجھ نہیں آیا کہ مالدار ممالک ایئر پورٹس اور سٹیشنز پر فری ٹرالی، مفت وائی فائی اور سستے کھانوں کی سہولت کیوں نہیں دے سکتے۔یہ تینوں چیزیں ہر مسافر کی ضرورت ہیں۔ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک بھی سامان کے لیے مفت ٹرالی فراہم کرتا ہے اور اسے کمائی کا راستہ نہیں بناتا تو مالدار ملکوں کے لیے کیا یہ بہت بڑا مسئلہ ہے؟ برطانوی ایئر پورٹس پر ٹرالی ایک پونڈ کا سکہ نگلے گی تو آپ کا کام کرے گی۔ اگر بدقسمتی سے آپ کے پاس نوٹ ہے لیکن سکہ نہیں تو اسے کیا؟ سامان بیچ چوک ڈھیر کردیجیے۔ جائیے سکہ لے کر آئیے۔ اس کے منہ میں لقمہ ڈالیے تاکہ اس کا موڈ بن سکے۔
استنبول ایئر پورٹ بڑا ایئر پورٹ ہے جس سے مسافروں کی آمدورفت کی تعداد کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ گیٹ نمبر9 ڈھونڈنے میں بھی کافی وقت لگ گیا۔ پوچھتے پاچھتے پہنچا اور باہر نکلا تو استقبال کرنے والے سامنے ہی کھڑے تھے۔ تقریباً اسی وقت بیروت‘ دمشق‘ تہران اور کئی شہروں سے فلائٹس پہنچی تھیں سو کئی مندوبین سے ایئر پورٹ پر ہی پہلی ملاقات ہوگئی۔
آپ خود فیصلہ کیجیے۔ ایک ہوٹل جو ایئر پورٹ سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہو لیکن اس کے نام کے ساتھ استنبول ایئرپورٹ ہوٹل لگا ہوا ہو تو کیا آپ اس ستم ظریفانہ فیصلے پر قہقہہ نہیں لگائیں گے؟ ہمارے پنج ستارہ ہوٹل کے ساتھ یہی پخ لگی ہوئی تھی۔ یہ شہر کے بارونق علاقے میں تھا لیکن تقسیم اور سلطان احمت‘ جہاں سیاحوں کا زیادہ ہجوم ہوتا ہے‘ ان سے کافی دور۔ اس کے انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ جس سباتین زاعم یونیورسٹی استنبول میں یہ کانفرنس منعقد ہونی تھی یہ اس کے نسبتاً قریب تھا۔ سو آنے جانے میں آسانی تھی۔ بہت سے مندوبین پہلے آکر اپنے کمروں میں مقیم تھے۔ پروگرام دیکھا تو اندازاہ ہوا کہ کم از کم 4 گھنٹے آرام کیا جا سکتا ہے۔ شام کو 6 بجے سب نے اسی ہوٹل کے ایک بڑے ہال میں جمع ہونا تھا۔
شام کو 6 بجے سب اکٹھے ہوئے تو بہت کم مندوبین ایک دوسرے سے واقف تھے، البتہ عرب ممالک کے ناشرین جو پہلے سے ایک دوسرے سے رابطے میں تھے، ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ ہم میں سے کچھ لوگوں نے فرداً فرداً ایک دوسرے کا تعارف حاصل کرلیا تھا۔ سب سے پہلے عشائیہ پیش کیا گیا‘ اس کے بعد افتتاحی تقریب کا آغاز ہوا جو دراصل ایک دوسرے سے تعارف کی تقریب تھی۔ ترکی کے ڈاکٹر محمد اگیراکا نوجوان اور باصلاحیت سکالر ہیں۔ یہ پلیٹ فارم تشکیل دینے کا خواب دیکھنے والے بنیادی لوگوں میں سے ایک۔ انہوں نے مائیک سنبھالا اور بنیادی خاکہ پیش کیا۔ ہیڈ فونز کے ذریعے ترکی، عربی اور انگریزی میں ترجمے کا انتظام بھی موجود تھا۔ یہ ایک بھرپور خطاب تھا، جس سے اس تمام مقصد کی آگہی حاصل ہوتی تھی جس کیلئے ہم سب یہاں جمع ہوئے تھے۔ فرداً فرداً تعارف کا مرحلہ پیش آیا اور وسیع ہال کے تین طرف میزوں کے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں نے باری باری تعارف پیش کرنا شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ ترک اور عرب ناشرین اور مدعوئین کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ منتظمین نے یہ اچھا کام کیا تھاکہ اس عشائیے میں ترک ناشرین کو بھی اچھی خاصی تعداد میں مدعو کیا تھا۔ یہ مقامی مدعوئین کم و بیش پچاس کی تعداد میں ہوں گے۔ دیگر ملکوں میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز میرے ذمے تھا۔ شام، ایران، لبنان، اردن، عراق، کویت، عرب امارات، سپین‘ امریکہ اور بہت سے دیگر ملکوں کے اہم ناشرین موجود تھے اور ان کے تعارف کرانے سے ان کے بارے میں آگہی ہوتی گئی۔ ان میں بہت سے ناشرین اور ان کے ادارے وہ تھے جن کا دنیا میں شہرہ ہے، جن کی کتابیں بہت بار دیکھی تھیں اور جن کا نام سینکڑوں بار پڑھا تھا۔ خوشی کی بات یہ تھی کہ یہ سب ایک مقصد کیلئے ایک چھت تلے جمع تھے۔ کم و بیش ڈھائی سو لوگوں کے تعارف کروانے میں تین ساڑھے تین گھنٹے تو لگنے ہی تھے لیکن یہ اہم مرحلہ پورا ہوا اور تعارفی تقریب ختم ہوئی تو کافی لوگوں کے بارے میں جانا جا چکا تھا۔ کچھ نام اور کچھ چہرے آپس میں گڈمڈ ہورہے تھے اور ڈھائی سو کے قریب لوگوں میں یہ تو بہرحال ہونا ہی تھا۔اگر کم وبیش تیس گھنٹے سے آپ کی آنکھ تک نہ جھپکی ہو، جہاز اور اجلاس کی تھکن اکٹھی ہوکر سر میں گھومتی ہوں تو پلکیں کیسے بوجھل نہ ہوں۔ اور پھر دو مصروف دن آپ کے سامنے ہوں تو جسم کو اس نیلگوں غلاف میں لپٹ جانے میں دیر نہیں لگتی جس کا نام نیند ہے۔ میری کیفیت پر میرا ایک شعر حسب حال تھا:
کچھ ایسی تھکن کی نیند آئی/ خوابوں کا خیال تک نہ آیا